Wednesday, 27 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Mishkat Fatima
  4. Talba o Talbaat Ka Roshan Mustaqbil

Talba o Talbaat Ka Roshan Mustaqbil

طلبا و طالبات کا روشن مستقبل

کسی بھی قوم کا متاعِ عزیز اُس کے طلبا و طالبات ہوتے ہیں۔ قوم کی نشونما، قوم کی بقا، قوم کی فلاح، قوم کی اصلاح اِنہیں حضرات کے دامنوں سے وابستہ ہوتی ہے۔ طلبا و طالبات کا مستقبل روشن اور مضبوط ہوگا تو قوم کا مستقبل روشن اور مضبوط ہو گا۔ مجھے موضوع کے اعتبار سے چند مثبت تنقیدی پہلوؤں کو واضح کرنا ہے۔ اور روشن مستقبل کی کِرنوں کو نہ صرف تلاش کرنا ہے بلکہ اُجاگر بھی۔

طالب علم اور علم لازم و ملزوم ہیں۔ کوئی بھی طالب علم تعلیم شروع کرنے سے قبل ایک عام لڑکا یا لڑکی ہوتا ہے۔ تعلیم ہی اسے انسانی عظمتوں تک پہنچاتی ہے۔ مگر کیا وجہ ہے کہ ہمارے ملک کے طلب علموں میں انسانی عظمتوں کی وہ جھلک دکھائی نہیں دیتی۔ آج کا طالب علم اس تعلیم کے زریعے سے انسانیت کی معراج پانے کی بجائے اخلاقی پستیوں میں گِرتا چلا جاتا ہے۔ اس کا کردار اس کے طالب علم کے لیبل کی نفی کرتا ہے۔ ہمارے بعض دانشور حضرات اس کو اخلاقی تعلیم کی کمی گردانتے ہیں لیکن یہ دعویٰ بھی غیر حقیقی نظر آتا ہے۔ کیونکہ ہم میں سے ہر فرد بچپن سے ہی ایک دینی مدرسے میں مذہبی اور اخلاقی تعلیم حاصل کرتا ہے۔ یہی مدرسہ اس کے کردار کو نکھارنے کا کام انجام دیتا ہے۔ اس سے پہلے والدہ کی گود اس کے لیے عظیم درس گاہ ہوتی ہے۔ جہاں وہ تمام اخلاقی اسباق سے روشناس ہوتا ہے۔ طالب علم کا جو ظاہری کردار ہے اس میں اس کا اپنا ہاتھ نہیں بلکہ اس کا موجب ہمارا کلرک ساز فرسودہ نظام تعلیم ہے۔ یہ نظام تعلیم غلامانہ ذہنیت، خوشامدی تو پیدا کر رہا ہے البتہ قومی رہنما اخلاقی اقدار کے حامل دانشور نہیں۔

یہ فرسودہ نظام تعلیم صبرو شکر، مساوات، رواداری، قناعت اور عدل و انصاف تو درکنار طالب علموں میں تنقیدی سوچ، سماجی مشاہدے، خود اعتمادی، وسیع سوچ کو بھی پروان چڑھانے سے قاصر ہے۔

دراصل اس ناقص نظام تعلیم کی طبقاتی نظام تعلیم ہے۔ ہمارے معاشرے سے جب تک طبقاتی نظام تعلیم کا خاتمہ نہیں ہو جاتا اِس ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن سمجھنا محض دیوانے کے خواب کے سِوا کچھ نہ ہوگا۔ جہاں دولت کے ارتکاز کو دیکھتے ہوئے معیاری اور ناقص تعلیم فروخت کی جاتی ہو وہاں عالمی سطح پر ریاستی ساکھ بچانا مشکل ہی نہیں نا ممکن ہو جاتا ہے۔ جہاں مالدار طبقے کے بچے تو ایچ- ای- سن اور لمز جیسے اداروں میں بیٹھ کر ریاست میں اعلیٰ عہدوں کے خواب دیکھ سکتے ہیں۔ لیکن غریب مزدور کا بچہ (لاکھ صلاحیتیں رکھنے کے باوجود) اسکول کی دیواروں پر رقم الفاظ کو حسرت بھری نگاہوں سے دیکھنے پر ہی مجبور ہے۔ تو اولاً تو با شعور ریاست ہونے کی حیثیت سے اس طبقاتی نظامِ تعلیم کا خاتمہ از حد ضروری ہے۔ کیونکہ اس فرسودہ نظام تعلیم نے نچلے طبقے کے طالب علموں سے وسائل نہ ہونے کے باعث ترقی کے تمام مواقع چھین لیے ہیں۔ اور اعلیٰ طبقے/ افسرِ شاہی کے بچوں کو سب طشت میں سجا کر پیش کر دیا ہے۔ طبقاتی نظامِ تعلیم "مساوات" جیسے سنہری اصول کی پامالی کا دوسرا نام ہے۔

اس خستہ حال تعلیمی نظام نے رواداری، قناعت، عدل و احسان کی بجائے حرص، احساسِ برتری، اونچ نیچ، بددیانتی اور لوٹ کھسوٹ جیسی ہزاروں برائیوں کو جنم دیا ہے۔ ان سب قبیح برائیوں کا بلا شک و شبہ سب سے زیادہ نقصان بھی تعلیم مستقبل کے لحاظ سے طلباء ہی کا ہے۔ اگر اِن حالات میں بھی بعض طلباء اپنے اپنے مضبوط اٹل مقاصد سامنے رکھتے ہیں اور ان کے حصول کے لیے دن رات سعی کرتے ہیں تو بھی انقلابِ دوراں اِنہیں لوٹ کھسوٹ اور حرص کے ایسے دوراہے پر لاکھڑا کرتا ہے جہاں سے وہ معصوم طالب علموں سے درندہ کی شکل اختیار کر لیتے ہیں۔

ہمارے موجودہ نظامِ تعلیم میں کسی بھی قسم کے ردوبدل یا ترامیم کی گنجائش کا نہ ہونا اِسے مذید ناقص اور خستہ حال بنا رہا ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ نظامِ تعلیم میں تبدیلیاں واقع ہونی چاہیں۔ بچوں کو ابتدا ہی سے جنسی تعلیم، عورتوں کی عزت اور جنسی علیحدگی سے متعلق تفصیلات سے آگاہ کر دینا چاہیے۔ تا کہ بڑے ہو کر وہ معاشرے میں بگاڑ کا باعث نہ بنیں۔ زنابالجبر، تیزابی حملوں، گھریلو تشدد جیسی قبیح حرکتوں میں ملوث نہ ہوں۔ تو جب تک تعلیمی ڈھانچے میں اِس حوالے سے ترامیم نہیں کی جائیں گی، وقت کی ضرورت کے مطابق اس کو بدلہ نہیں جاے گا۔ معاشرے سے زنا، تیزاب پھینکنا، عورتوں پر گھریلو تشدد اور بچوں کے ساتھ جنسی تشدد کی روک تھام کے تمام اقدام بے فایدہ ہیں۔

اس نظام تعلیم میں بہت ساری اصلاحات کی ضرورت ہے۔ نہ صرف ہمارے تعلیمی نظام کو نٔی اصلاحات کی ضرورت ہے۔ بلکہ گھریلو نظام کو بھی بدلنے کی ضرورت ہے۔ والدین کا رویہ بچے کو براہِ راست متاثر کرتا ہے۔ اور ہمارے معاشرے میں بچے پر ابتدا ہی سے والدین کی طرف سے ایک نصب العین مسلط کر دیا جاتا ہے۔ جس کو پورا کرنا ہر حال میں بچے پر واجب ہوتا ہے۔ بنا سوچے سمجھے کہ بچے کا اُس مخصوص شعبے میں رجحان ہے بھی یا نہیں۔ یا بچے کی صلاحیتوں اور ذوق و شوق کو دیکھتے ہوئے اُس کی زندگی کا مقصد چُننے کی والدین نے کبھی زحمت ہی نہیں کی۔ نتیجتاً بچہ اُس شعبے میں اپنی وہ کارکردگی دیکھا ہی نہیں پاتا جو اسے دیکھانی چاہیئے تھی۔ لیکن مسئلے کی اصل جڑ تو معاشرے کو حّوا سمجھنا ہے۔ سماجی دباؤ نے والدین کو ایسا سوچنے اور کرنے پر مجبور کر دیا ہے۔

دوسرا بڑا مسٔلہ تعلیمی صورتحال کو بگاڑنے میں ریاست اور سرمایہ کاروں کی طرف سے ہے۔ جہاں سرکاری اور نجی تعلیمی ادارے بنائے جاتے ہیں وہاں مخصوص کیریئر کونسلنگ کے ادارے بھی تشکیل دیے جانے چاہیں۔ جو طالب علم کے رجحانات، ذوق و شوق مزید برآں مارکیٹ میں تعلیمی میدان میں مختلف مضامین کی مانگ اور اہمیت کو دیکھتے ہوئے بچے کے نصب العین کا تعین کرنے میں مددگار ثابت ہوں۔ ہمارے معاشرے میں ایسے اداروں کی شدید قلت اور اشد ضرورت ہے۔ تا کہ طالب علم اپنی خداداد اور خود ساختہ دونوں انواع کی صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے ملک و قوم کی فلاح کیلئے مؤثر طریقے سے اپنا کردار ادا کر سکیں۔

آج ہمارے معاشرے میں والدین جب تک اعلیٰ تعلیمی اداروں سے اپنے بچوں کو میڈیکل یا انجینرنگ نہ کروا لیں اُنہیں سکون آنا ممکن نہیں۔ کیونکہ ہم نے تعلیم کے حصول کو محض چند روایتی شعبوں تک محدود کر دیا ہے۔ جب تک اُن میں نام نہ بنا لیا جائے والدین کی عزت والے شملے اونچا کرنا نا ممکن سا ہے۔ تو ہمیں اس سماج اور سماجی نظام سے باہر نکل کر سوچنے اور کرنے کی ضرورت ہے۔ تمام علوم اور ان سے متعلق شعبوں کو مساوی اہمیت دی جانی چاہیے۔ تا کہ نو جوان نسل میں تمام علوم کا امتزاج پیدا کیا جا سکے۔ اس معاشرتی نظام کے باعث طالب علم ذہنی اور نفسیاتی طور پر مسلسل ٹوٹ پھوٹ کا شکار رہتے ہیں۔ کیونکہ ماہرِ نفسیات کے مطابق انسانی دماغ اس کام میں سو فیصد کارکردگی دے ہی نہیں سکتا جسے وہ قبول نہ کرلے۔ تو نتیجتاً طالب علم اعلیٰ کارکردگی دیکھا نہیں پاتے ایسی صورتحال میں والدین کیطرف سے مزید دباؤ ڈالا جاتا ہے۔ جس سے بچے عارضی یا مستقل طور پر ذہنی دباؤ کی حالت میں چلے جاتے ہیں۔

تو جب نظام تعلیم میں اتنی ساری برائیاں موجود ہوں گی تو طالب علموں میں مساوات، حسنِ سلوک، رواداری اور اخوت (جو کہ ہمارے طالب علموں کا طرۂ امتیاز ہوا کرتی تھیں) کی بجائے لالچ، جھوٹ، فریب دہی، بد کاری اور بد دیانتی جیسی برائیاں ہی جنم لیں گیں۔

جس معاشرے میں روحانی والدین اساتذہ کے ادب کی بجائے بچپن سے جوانی تک ان کے احسانات کو ان کا فرض اور اپنا حق گردانا جائے، طلبا و طالبات کے روشن مستقبل کا خواب دھندلا سا جاتا ہے۔

کاش طلبا و طالبات کی زندگی ایک طوفانی ندی کی طرح ہو جائے۔ جو سراپأ شوق ہو کر چیختی تو ہے مگر وقت کے کسی نالے پر بھی اس کے شوق کو ٹھہراؤ نہیں۔ حوادث کی قد آور چٹانوں سے ٹکرا کر چیختی تو ہے لیکن اپنا رستہ نہیں بدلتی۔ منزلِ آسودگی کے سر سبز و شاداب میدانوں سے گزر کر گاتی تو ہے لیکن یہاں بھی اسے قیام نہیں۔ اس کا شوقِ سفر ختم نہیں ہوتا۔ جب تک کہ وہ بحرِ بیکراں سے نہ جا ملے۔ جس کا ایک سرا ازل ہے تو دوسرا ابد۔ یہاں پہنچ کر وہ اپنی آلودگیٔ حوادث کو چٹانوں کی پیشانی پر چھوڑ دیتی ہے۔ اور جب بحرِ نور تک پہنچتی ہے تو خود بھی باقعۂ نور بن جاتی ہے۔

اپنی اور اپنی قوم کے روشن مستقبل کے ضامنو! ہمیں اپنا کردار بلند رکھنا ہو گا۔ کیونکہ ہم اپنی قوم کے کردار کے عکاس ہیں۔ ہمیں اپنا ذہن گمراہی سے بچانا ہو گا، کیونکہ ہم اپنی قوم کی ترقی کے ضامن ہیں۔ ہماری قوم کی نشوونما اور ارتقاء کا دارومدار ہم پر ہے۔ ہم اپنی روشن دماغی اور خوش کرداری سے اپنی قوم کی وہ خدمت کر سکتے ہیں جو کوئی اور طبقہ نہیں کر سکتا۔

روشن مستقبل کے آئینے میں دکھائی دیتی ہوئی دھندلی تصویر کو نکھارنا ہمارے اپنے بس میں ہے۔

Check Also

Riyasat Se Interview

By Najam Wali Khan