Wednesday, 27 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Mishkat Fatima
  4. Salam Bar Shaheedan e Bekhata

Salam Bar Shaheedan e Bekhata

سلام بر شہیدانِ بے خطا

نگینوں کو دفنا کے دل میرا سوچے
زمیں کھا گئی آسماں کیسے کیسے

جنہیں فرشِ مجلس پہ ہر روز دیکھا
نہ لہجہ کہیں ایسا پُر سوز دیکھا

سماعت کہاں فخرِ خطابت کو ڈھونڈے
زمیں کھا گئی آسماں کیسے کیسے

تاریخِ انسان اٹی پڑی ہے ایسے لوگوں سے جنہوں نے اپنی زندگیاں اپنے مقاصد کی تکمیل میں صرف کر دیں۔ بلاشبہ زندگی کو مقصد کے نام کرنا دشوار گزار کام ہوتا ہے۔ اپنی تمام تر ذہنی، جذباتی، احساساتی، شعوری، قلبی اور جسمانی توانائیاں کسی خاص مقصد کے لیے صرف کرنا یقیناً ایک عظیم عمل ہے۔ لیکن اِس وقت میرے قلم کا محور وہ عظیم شخصیت ہے جس نے قومِ شعیہ کے شیر خوار نومولود سے لے کر اِس قوم کے ڈھلتے ہوئے آفتاب کو بھی علم و دانش کی قابلِ دید روشنائی سے روشناس کروایا۔

جس نے اپنی زندگی اپنی قوم کے لیے صرف کر دی۔ جس کا واحد مقصد ولایتِ امیرالمومنینؑ سے لے کر عزاداری کریمِ کربلا سرکار تک محدود تھا۔ جس کا ہر عمل رضاۓ قائم محمد و آلِ محمدؑ کا مشتاق ہوا کرتا تھا۔ جس نے عظمتِ سادات کو قوم کے بچے بچے کی تربیت میں شامل کیا اور عزاداری کے لیے کاوشوں کی بے مِثل مثالیں قائم کیں۔ اُن کی عظمت کی حد کہاں تک ڈھونڈے انسان جنہوں نے ساری زندگی تمام حدود کے خالق کی توصیف و ثناء کی ہو۔

بچپن، لڑکپن، جوانی حتیٰ کہ دمِ آخر بھی ذکرِ پسرِ رسول کرتے ہوئے بھرا ہو۔ کتنی متاثر کن شخصیت ہوتے ہیں ایسے لوگ جنہیں سزائیں بھی حق گوئی کی پاداش میں دی جائیں۔ جابر حکمران کے سامنے کلمہ حق بلند کرنے والے تا ساعتِ قیامت بلند و بالا رہتے ہیں۔ تاریخ سے صداقت کی گواہی لے لیجیے۔ علم و عرفان کے وسیع سمندر میں ولایت کی ناؤ پر عزاداری کے مضبوط و مستحکم چپو تھامے ایسے لوگ ہی قوموں کی کامیابی کا ذریعہ ہوتے ہیں۔

قابلِ رشک ہیں وہ لوگ جو مخدومہ عالمیان کے چنیدہ ہیں اور موصوف محترم بلاشبہ انہیں میں سے تھے۔ مذہبی اعتبار سے آپ ایک باعمل عالمِ دین، حق گو، راست باز، بردبار، وکیلِ حقِ سیدہ، عزادارِ امام مظلوم اور اتحادِ بین المسلمین کے حامی شخص تھے۔ مذہبی نقطۂ نظر سے درکنار علامہ صاحب کی شخصیت نہایت حلیم طبیعت، نازک مزاجی، شریف النفس حسیات، متکلمِ فی البدیہ، فصیح و بلیغ زبان اور درویشانہ مزاجی کا مجموعہ تھی۔

بس ایک سوال ہے جو جواب کا طلب گار ہے، بس ایک گُتھی ہے جو کُھلنے کے انتظار میں ہے، بس ایک راز ہے جو آشکار ہونے کو بیقرار ہے، بس ایک اصول ہے جو وضاحت کے اشتیاق میں ہے، بس ایک الجھن ہے جو سلجھنے کے استحقاق میں ہے، وہ یہ کہ کیسی روایت ہے اس سماج کی جو ہمیشہ بے جرم کو ہی سزا دیتی ہے؟ حالاتِ دوراں ہمیشہ پاکیزہ جانوں کے گرد ہی گھیرا کیوں تنگ کرتے ہیں؟

ظالم ہمیشہ حق گو کو ہی کیوں تختہ دار پر چڑھاتا ہے؟ کیا باطل کی نقابیں الٹنا اتنا سنگین جرم ہے کہ جس کی پاداش میں بے جرم و خطا لوگوں سے حقِ تنفس تک چھین لیا جائے؟ کیوں ولایت و عزاداری کے پرچار کا ثمر قتل کی صورت میں دیا جاتا ہے؟ کیسا انصاف ہے کہ جو حق کا پرچار کرے سینے پر گولیاں بھی وہی کھائے؟ گردن اور سینے کی ملا کے کُل پانچ گولیاں پیوست کی گئیں اِس عظیم روح کے جسم میں۔ کیسا انصاف ہے یہ؟

لیکن معاملے کی گہرائی ابھی بھی قابلِ پیمائش ہے۔ دراصل باطل کی جبلت میں ہار طے ہے۔ اِس کی خِلقت میں منظرِ عام پر آنا گوند دیا گیا ہے۔ ناکامی اِن طاغوتی قوتوں کا مقدر ہے۔ تو بلیاں جب شیروں کو ہَرا نہ پائیں تو پنجے ضرور گاڑتی ہیں۔ ولایتِ امیرالمومنین، عظمتِ سادات اور عزاداری کے رستے میں حائل اِس شر پسند عناصر کی حسیّنیت کے علمبرداروں کے سامنے بِلیوں ہی کی سی حیثیت ہے۔ جو ایڑی چوٹی کا بھی زور آزما لیں تو عزاداری کو نہ کل روک پائی تھیں نہ کبھی روک پائیں گی۔

ہمیں بحیثیت باشعور قوم علامہ ناصر عباس شہید اور اُن جیسے ہزاروں بے گناہ شہیدوں کی بے وجہ شہادت کا جواب لینا ہوگا اور حکومتِ پاکستان کو قانون اور عدل کے ٹھوس اصولوں کی پاسداری کرتے ہوئے ان تمام شہداء کے قاتلین کو کیفرِ کردار تک پہنچانا ہوگا۔ تا کہ پھر کبھی کوئی ناصر عباس مذہبی انتہا پسندی کا شکار نہ ہو سکے۔

سلام بر شہیدانِ بے خطا

سلام علامہ ناصر عباس

Check Also

Rawaiya Badlen

By Hameed Ullah Bhatti