Ilm Atta Hayat Ki Daleel Hota Hai
علم عطاء حیات کی دلیل ہوتا ہے
"علم" تین حروف کا مجموعہ ہے۔ "ع"، "ل"، "م "۔ "ع" سے علم عقاب کی سی دور اندیشی اور زیرک نظر عطا کرتا ہے۔ اور انسان ہواؤں کے دوش پر سوار ہو کر عقل و خرد کے مدارج عبور کرتا ہوا بامِ عروج تک پہنچ جاتا ہے۔ جو انسان کی شخصیت کو خود اعتمادی جیسی صفات سے مزیّن کرتا ہے۔ پھر لوٹ کھسوٹ اور حق تلفی جیسی رذیل چیزوں سے انسان کی جان چھوٹ جاتی ہے۔ بلکہ انسان مِثلِ شاہین اپنا شکار خود تلاش کرتا ہے۔
دوسروں کے کیے ہوئے شکار پر اکتفا نہیں کرتا۔ علم کا "ع" انسان کے لوحِ دل پر اطمینان کا تخت سجاتا ہے۔ جس پر براجمان ہونے کے بعد انسان صبر و تحمل، منکسر المزاجی، اور استقلال جیسے عناصر کو اپنی شخصیت میں پیدا ہوتا ہوا محسوس کرتا ہے۔
"ل" سے علم لازوال ہے اور اپنے متلاشی کو بھی لازوال بنا دیتا ہے، لعل بنا دیتا ہے۔ جیسے سنگ تراش پتھر کو تراشنے اور اِسے مختلف مراحل سے گزار نے کے بعد گراں قدر اور بیش قیمت بناتا ہے۔ علم بھی انسان کو اسی طرح آزمائشوں کے لا متناہی سلسلے عبور کروانے کے بعد لعل کیطرح قابلِ ستائش بناتا ہے۔
"م" سے مراد مِثلِ ملکوت ہے۔ یہ علم ہی ہے جو آدمی کو انسانیت کی معراج کرواتا ہے۔ اور انسان عزت اور قدر و منزلت کی بلند و بالا چوٹیوں کو سَر کرتا ہے۔ اور انسان بظاہر کرّہ ارض پر رہتے ہوئے عالمِ ملکوت تک رسائی حاصل کر لیتا ہے۔ علم تو بہتا سمندر ہے۔ جس کا شیریں اور لذیذ پانی آبِ حیات کی مانند ہے۔ جب کوئی پیاسا پانی کی تلاش میں اِس تک پہنچتا ہے تو یہ شیریں اور لذیذ پانی اُس کی تمام پیاس بجھا دیتا ہے۔ علم کی پیاس کھبی بجھنی نہیں چاہیے۔ کہ جب کوئی متلاشیِ علم اِس آبِ حیات کے سمندر تک پہنچے تو اپنے کشکول پر اکتفا نہ کرے، بلکہ اپنی پیاس کو اتنا بڑھائے کہ خود بھی قطرے کی طرح سمندر سے مل کر خود کو قلزم کر لے۔
علم تو گنج ہائے گراں مایہ ہے۔ علم تو فخرِ آدم ہے۔ علم تو عطاء حیات ہے اور حیات کو کبھی موت نہیں۔ پھر کیوں یہ چلتے پھرتے لوگ بے جان ہیں؟ کیوں ان کی شکلوں اور رویوں سے حیات کے خوبصورت رنگ دیکھائی نہیں دیتے؟ کیوں علم ہونے کے باوجود لوگ مردہ ہیں؟
اگر دورِ حاضر کے حالات و واقعات کا بغور مطالعہ کیا جائے تو پتہ چلے گا کہ انسان علم کے حصول کے باوجود انسانیت سے خالی ہیں۔ ہمدردی، اُنسیت، خدمتِ خلق جیسے زندہ جذبوں سے عاری ہیں۔ پڑھے لکھے ہونے کے باوجود یہ خود کو ثابت کرنے سے قاصر ہیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ آج کے لوگ محض "با علم" ہونے کا لیبل لگوانے کے لیے تعلیم ضروری سمجھتے ہیں اسی لیے تو اِن کی شخصیت اِن کے لیبل سے تضاد رکھتی ہے۔ کیونکہ لوگوں نے محض ایک اچھی سرکاری نوکری کو ہی اپنی زندگیوں کا مقصد ٹھہرا لیا ہے۔ اور اِس کوشش میں وہ ڈگریوں کے انبار تو لگا لیتے ہیں۔ مگر اپنی شخصیت کو علم کے حسین و جمیل سانچے میں ڈھالنے سے قاصر رہتے ہیں۔
حقیقت تو یہ ہے کہ کوئی اِس "علم" کے اصل معنیٰ و مفہوم کو سمجھنے کی کوشش ہی نہیں کرتا۔ جو کہ حصولِ علم کر ضمن میں پہلی لازمی شرط ہے۔ اور تو اور نوجوان نسل بھی محض ڈگریوں کے مجموعے میں مصروف ہے اور اصل فوائد و ثمرات سے محروم۔ صرف ایک اچھی سرکاری نوکری اور گاڑی لوگوں کی زندگی کا مقصد بن چکی ہے۔ کیا یہ خواہشات کی غلامی نہیں؟ کیا ہم ملمّع سازی اور دکھاوے کے لیے یہ سب نہیں کر رہے؟
خدارا پہلے اس علم کے اصل معنی و مآخذ کو سمجھیں تا کہ اِس کے فوائد و ثمرات جو حقیقی ہیں اُن سے بہرِ مند ہو سکیں۔ ہیمں آبِ حیات کے سمندر سے اپنے کشکول نہیں بھرنے بلکہ اِس کی گہرائیوں میں اتر کر خود کو بھی سمندر کرنا ہے۔ جب ہم اِس سمندر کے گہرائی معلوم کر لیں گے تو زندگی اور حیات کے فرق کو سمجھ جاہیں گے۔ اور جب یہ فرق سمجھ آ جائے گا تو کبھی بھی اِس عارضی زندگی کو دائمی حیات پر فوقیت نہیں دیں گے۔ اور یہی علم کا اصل فایٔدہ ہے۔ نوکری، گاڑی، شہرت یہ سب خواہشاتِ نفس ہیں۔ جو کبھی ختم نہیں ہو سکتیں۔ اس دنیا میں واحد نا ممکن کام دنیا کی خواہشات کی تکمیل ہے۔
حصولِ علم کو ضروریاتِ زندگی کی تکمیل کا زینہ نہ بنائیں بلکہ قربِ الٰہی کی غرض سے کریں۔ تا کہ دائمی زندگی پُر سکون گزر سکے۔ لیکن دورِ حاضر کے حالات کو دیکھ کر اگر یہ کہا جائے کہ "گنگا الٹی بہ رہی ہے" تو کچھ غَلَط نہ ہو گا۔ اِس تحریر کا مقصد کسی کی طلبِ علم یا اُس سے جڑے جزبات کی توہین ہرگز نہیں بس چاہتی یہ ہوں کہ قارئین کے اذہانِ روشن میں ٹمٹماتے ہوئے چراغ کے تلے دبی ہوئی اُس فکر کو اُجاگر کر سکوں کہ علم حصولِ نوکری تک محدود نہیں بلکہ لا محدود ہے۔ جس سے ظاہری فوائد کے علاؤہ باطنی تسکین اور فوائد بھی حاصل کیے جا سکتے ہیں۔
علم وہ حاصل کیجیے جو قربِ خدا تعالیٰ کا موجب ہو۔ اور ہمیں اُس کی رحمتوں کے سائے میں لے جائے نہ کہ گمراہی اور تباہی کی پستیوں میں۔ مولا کائینات مجھے اور آپ کو حقیقی علم حاصل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔