Wednesday, 27 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Mishkat Fatima
  4. Dastanain, Asateer Aur Aqaid (2)

Dastanain, Asateer Aur Aqaid (2)

داستانیں، اساطیر اور عقائد (2)

دیوتاؤں سے الگ سمجھا جاتا تھا اور نہ ہی انسانوں کے طاقتور جزبوں محبت غصے اور شہوت سے جدا سمجھا جاتا تھا۔ جنسی شہوت کا جذبہ مرد اور عورت کو چند لمحوں کے لیے زیست کی مختلف سطحوں پر پہنچا دیتا تھا تاکہ وہ دنیا کو نئی نظروں سے دیکھنے کے قابل ہو جائیں۔

لہٰذا دیومالائی کہانیوں کا مقصد لوگوں کو پیچیدہ انسانی مخمصوں سے عہدہ برآ ہونے اور دنیا میں اپنے مقام کے تعین اور اپنی صحیح پہچان میں مدد دینا ہوتا ہے۔ ہم سب جاننا چاہتے ہیں کہ ہم کہاں سے آئے ہیں لیکن چونکہ ہماری اوّل ترین ابتداء (Earliest Beginning) زمانۂ قبل از تاریخ کے دھند لکوں میں کھو چکی تھی، اس لیے ہم نے اپنے ان آباؤ اجداد کے بارے میں دیومالائی داستانیں گھڑلیں جو تاریخی ہستیاں نہیں تھیں۔

ان داستانوں نے ہمیں ہمارے ماحول ہمارے ہمسایوں اور رسم و رواج سے متعلق ایک خاص طرزِ عمل اپنانے میں مدد پہنچائی۔ ہم یہ بھی جاننا چاہتے ہیں کہ ہمارے اگلی منزل کیا ہے، چنانچہ ہم نے ان سے متعلق بھی کہانیاں وضع کر لیں جو ہمارے بعد از موت وجود کے بارے میں ہیں اگرچہ جیسا کہ آگے بیان آ رہا ہے۔

بنی نوعِ انسان کی لافانیت (immortality) سے متعلق کوئی زیادہ کہانیاں نہیں بنائی جا سکیں۔ ہم ان پُرہیبت لمحات کے بارے میں جاننا چاہتے ہیں جب ہم اپنے عام وجود کی دلچسپیوں کے دائرے میں سے نکل چکے ہوں گے۔

دیوتاؤں نے ہمیں ماورائیت (Transcendence) کے تجربے کو سمجھنے میں مدد دی ہے۔ قدیم فلسفے نے ہمارے جبلی شعور کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ انسان اس مادی وجود کے علاوہ بھی بہت کچھ ہے۔ آنکھوں سے جو مادی دنیا ہمیں اس وقت دکھائی دے رہی ہے، اس کے پیچھے بھی ایک دنیا کار فرما ہے۔

آج داستان کا لفظ ایسی باتوں کے لیے استعمال کیا جاتا ہے جو محض جھوٹ ہو، جس سیاستدان پر کسی جرم یا بدعنوانی کا الزام ہو اس کا عموماً یہی جواب ہوتا ہے، یہ محض داستان طرازی ہے ایسا کبھی نہیں ہوا۔ جب ہم سنتے ہیں کہ دیوتا زمین پر چلتے ہیں، مردے مقبروں میں سے باہر نکل کر ٹہلنے لگتے ہیں یا سمندروں نے پھٹ کر پسندیدہ لوگوں کو گزرنے کا راستہ دے دیا تاکہ وہ دشمنوں کے تعاقب سے بچ نکلیں۔

آج کا آدمی ان باتوں پر یقین نہیں کرتا کیونکہ اٹھارہویں صدی میں ہمارے اندر تاریخ کا سائنسی شعور پیدا ہو چکا تھا۔ ہم صرف ان باتوں سے تعلق رکھتے ہیں جو حقیقتاً رونما ہو سکتی ہوں۔ لیکن اس سے پہلے جب لوگ ماضی کے بارے میں لکھتے تھے تو وہ واقعات کے مفہوم کو زیادہ اہمیت دیتے تھے۔

وہ داستان یا Myth کو ایک ایسا واقعہ سمجھتے تھے جو کسی مفہوم میں ایک بار وقوع پزیر ہوا ہو اور آئندہ بھی رونما ہو سکتا تھا۔ ہم تاریخ کے وقائع نگارانہ نظریے (Chronological View) پر سختی سے یقین رکھتے ہیں۔

ہمارے پاس ایسے واقعے کے بارے میں کوئی الفاظ نہیں ہیں لیکن داستان طرازی ایک باقاعدہ فن ہے جس کی جڑیں زمانہ قبل از تاریخ میں پیوست ہیں۔ یہ فن ہمیں اس دور میں جانے میں مدد دیتا ہے جس میں بے مقصدیت اور بے ترتیبی کی کار فرمائی تھی اور حقیقت کی محض ایک جھلک ہی دیکھی جا سکتی تھی۔

مورائیت کا تجربہ ہمیشہ انسانی تجربے کا ایک حصہ رہا ہے، ہم لمحات بے خودی اور سرمستی کے متلاشی رہتے ہیں۔ جب ہمارے اندر کی دنیا کے ساز چھڑتے ہیں تو ہم لمحہ بھر کے لیے اپنے آپ سے باہر ہو جاتے ہیں۔ خود کو معمول سے بڑھ کر سرگرم عمل پاتے ہیں اور ایسا محسوس کرتے ہیں جیسے پوری انسانیت ہمارے اندر سانس لے رہی ہے۔

مذہب اس بے خودی و سرمستی کو محسوس کرنے کے انتہائی روایتی طریقوں میں سے ایک ہے، لیکن اگر یہ انہیں مندروں، صومعوں، گرجاؤں اور مسجدوں میں سے نہیں ملتی تو وہ اس کی تلاش میں کہیں اور نکل جاتے ہیں۔ وہ اس فن، موسیقی، شاعری، راک انڈ رول، رقص، منشیات، جنسی سرگرمیوں یا کھیلوں میں تلاشی کرتے ہیں۔

شاعری اور موسیقی کی طرح داستان گوئی بھی ہمیں عالم کیف و سرور میں لے جاتی ہے، جہاں ہم موت کے منہ میں چلے جانے سے بھی گریز نہیں کرتے۔ اگر داستان گوئی اور صنمیات یہ کام نہ کرتیں تو ان کی افادیت بالکل ہی زائل ہو جاتی۔ اس لیے تمثیلی حکایت یا داستان کو اس خیال سے گھٹیا طرزِ فکر سمجھنا غلط ہو گا کہ اب انسان عقل و منطق کے عہد میں داخل ہو چکا ہے اسے ان قصے کہانیوں کی ضرورت نہیں رہی۔

داستان گوئی نے یہ دعوٰی کبھی بھی نہیں کیا کہ یہ تاریخ نویسی کی ابتدائی کوششوں کا حصہ ہے اور نہ ہی یہ کہا ہے کہ اس میں کوئی معروضی حقیقت پائی جاتی ہے۔ داستان ایک ناول، اوپرا (غنائی ڈرامہ) یا بیلے ڈانس کی طرح مفروضے پر مبنی ایک کہانی اور ایک ایسا کھیل ہوتی ہے جو ہماری ٹکڑوں میں بنی ہوئی المناک دنیا کو ارفع شکل میں پیش کرتی ہے۔

یہ ہم سے یہ پوچھتے ہوئے کہ اگر ایسا نہ ہوتا تو ہمیں دنیائے امکانات کی ایک شبیہہ قائم کرنے میں مدد دیتی ہے۔ یہ ایک ایسا سوال ہے جس نے فلسفہ، سائنس اور ٹیکنالوجی میں نہایت اہم انکشافات میں مدد دی ہے۔

پتھر کے زمانے میں لوگوں نے اپنے مردہ ساتھیوں کو نئی زندگی کے لیے تیار کر کے انہی مفروضہ کہانیوں کا کھیل کھیلا تھا جو تمام داستانوں طرازوں کا مشترک شغل رہا ہے۔ اگر سوال یہ ہوتا کہ اگر یہ دنیا جیسی کہ یہ ہے، ایسی نہ ہوتی تو پھر ہماری زندگیوں پر کیا اثر پڑتا؟ کیا ہم نفسیاتی، عملی یا سماجی زندگی میں بالکل مختلف روپ اختیار کر لیتے؟ کیا ہم زیادہ کامل ہو جاتے۔

اگر ہمیں یہ پتہ چل جاتا کہ ہم بہت بدل چکے ہیں کیا اس سے یہ ظاہر نہ ہو جاتا کہ ہمارا داستانی عقیدہ کسی حد تک درست تھا، یہ ہمیں ہماری انسانیت کے بارے میں بہت اہم بات بتا رہا تھا اگرچہ اس وقت ہم اسے عقلی طور پر ثابت نہیں کر سکتے تھے۔

انسان اپنے کھیل کھیلنے کے جذبے کو برقرار رکھنے کی بے پناہ صلاحیت رکھتا ہے بشرطیکہ اسے قید و بند کے مصنوعی طور پر پیدا کردہ حالات میں زیادہ عرصہ نہ رکھا گیا ہو، جبکہ دیگر جاندار جنگل کی کڑی حقیقتوں سے دوچار ہونے کے بعد اپنے کھیل کود کے جذبے سے محروم ہو جاتے ہیں۔ تاہم بالغ انسان بچوں کی طرح تصوراتی دنیائیں پیدا کرتے رہتے ہیں۔

آرٹ کے شعبے میں جسے ہم معقولیت اور منطق کی جکڑ بندیوں سے آزاد کرا لیتے ہیں، نئی شکلیں شامل کر کے اپنی دلچسپیوں میں اضافہ کرتے رہتے ہیں اور یقین کر لیتے ہیں کہ یہ شکلیں ہمیں اہم معلومات فراہم کرتی ہیں جو بے حد سچی ہیں۔

ہم داستانوں میں بھی اپنی قیاس آرائیاں شامل کر کے اپنی دلچسپیاں دو چند کر لیتے ہیں۔ ان قیاسات پر عمل کرتے ہیں اور ان کی بدولت اپنی زندگیوں پر پڑنے والے اثرات کا جائزہ لیتے رہتے ہیں۔ پھر ان سے ہم پر انکشاف ہوتا ہے کہ ہم نے اپنی دنیا کی تکلیف دہ الجھنوں کے بارے میں نئی بصیرت حاصل کر لی ہے۔ اس لیے ہم کسی داستان یا دیومالا کو اس لیے سچی سمجھتے ہیں کہ یہ مؤثر ثابت ہوتی ہے، نہ کہ اس لیے کہ یہ ہمیں حقیقی صورت حال سے مطلع کرتی ہے۔ تاہم اگر یہ زندگی کے گہرے معنوں کے بارے میں ہمیں نئی بصیرت سے آشنا نہیں کرتی تو یہ فیل ہو جاتی ہے۔

اگر یہ نئی بصیرت عطا کر دیتی ہے اور ہمیں مزید بھرپور زندگی کی راہ پر ڈال دیتی ہے تو اسے ایک معقول داستان قرار دے دیا جاتا ہے۔ داستان ہماری کایا کو اسی وقت پلٹے گی جب ہم اس کی ہدایات پر عمل کریں گے۔ ایک داستان یا دیومالا دراصل ایک رہنما ہی ہوتی ہے۔ یہ ہمیں بتاتی ہے کہ ہمیں ایک کامیاب و کامران زندگی گزارنے کے لیے کیا کرنا چاہیے۔

اگر ہم اسے اپنے اوپر لاگو نہیں کرتے، اپنی زندگی کو اس کی ہدایات کے مطابق نہیں ڈھالتے تو یہ اسی طرح ناقابلِ فہم اور دور از کار ہو گی جیسے بورڈ گیم کے رولز ہوتے ہیں، جو بسا اوقات اس لمحے تک ناقابلِ فہم اور بے لطف محسوس ہوتے رہتے ہیں جب تک ہم کھیلنا شروع نہیں کر دیتے۔

دورِ جدید میں ہم نے داستان سے جتنی بے اعتنائی اور دوری اختیار کی ہے، اس کی ماضی میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ پرانے زمانے میں داستان یا دیومالا کو ایک ناگزیر ضرورت سمجھا جاتا تھا۔ اس سے لوگوں کو نہ صرف اپنی زندگی کے مفہوم سے آگاہی حاصل ہو جاتی تھی بلکہ اس سے انسانی ذہن کے ایسے گوشے بھی منکشف ہوتے تھے جو بصورت دیگر ہمیشہ ناقابل رسائی رہتے۔

یہ دراصل اس دور کے علم نفسیات کی ایک شکل ہوتی تھی، دیوتاؤں یا سورماؤں کی کہانیاں یہ بتاتی تھیں کہ دیوتا یا بہادر لوگ کس طرح پاتال (Underworld) میں اتر کر بھول بھلیوں کو کھگالتے اور راکھشسوں سے لڑتے ہیں۔ یہ اس دور کے لوگوں کو نفس انسانی کے طریق کار سے آگاہ کرتیں اور انہیں ان کے داخلی بحرانوں پر قابو پانے کی راہیں سمجھاتی تھیں۔

جب فرائیڈ اور یونگ نے روح کی گہرائیوں کو ناپنے اور چھپے ہوئے اسرار معلوم کرنے کی کوششوں کا آغاز کیا تو انہوں نے جبلی طور پر کلاسکی داستانوں سے رجوع کیا اور انہی کی مدد سے لوگوں کو اپنے معلوم کردہ حقائق سے آگاہ کیا۔ اس طرح پرانی داستانوں کو نئی تعبیر مل گئی۔

اس اساطیر اور داستانوں میں کوئی نئی بات نہیں تھی کسی داستان کی کوئی واحد مسلمہ روایت کبھی موجود نہیں رہی۔ جوں جوں حالات تبدیل ہوتے رہے ہیں، ہمیں اپنی کہانیاں مختلف طریقوں سے بیان کرنے کی ضرورت پرتی رہی ہے۔ اس طرح وقت کی قید سے ماورا ایک سچائی کا وجود برقرار رہا ہے۔

Check Also

Aag Lage Basti Mein, Hum Apni Masti Mein

By Rauf Klasra