Dastanain, Asateer Aur Aqaid (1)
داستانیں، اساطیر اور عقائد (1)
بنی نوع انسان ہمیشہ سے ایک تصور اور عقیدے کے تحت زندگی بسر کرتا رہا ہے۔ ماہرینِ آثارِ قدیمہ نے جب پتھر کے دور کے انسانوں کی قبریں کھودیں تو ان میں سے تیر کمان، زرہ بکتر، تلواریں، اور ڈھالیں اور قربانی کے جانوروں کی ہڈیاں برآمد ہوئیں۔
ان چیزوں کو دیکھ کر یہ اندازہ ہوتا ہے کہ وہ لوگ کسی ایسے مستقبل پر عقیدہ رکھتے تھے جو ان کے دور سے مماثلت رکھتا ہو گا اور وہ وہاں جا کر ان ہتھیاروں کو کام میں لا سکیں گے۔ ممکن ہے کہ وہ ایک دوسرے کو اپنے آباؤ اجداد کے بارے میں ایسی ہی کہانیاں سناتے رہے ہوں کہ ان سے پہلے گزرے ہوئے لوگ اب اگلے جہان میں انہی کی طرح زندگی گزار رہے ہیں۔
زمانۂ سابق کے لوگ موت کے بارے میں یقیناً وہ سوچ نہیں رکھتے تھے جو یہ کہانیاں سنانے والے رکھتے تھے۔ جانور اور مال مویشی ایک دوسرے کو مرتے اور ہلاک کرتے ہوئے دیکھتے ہیں لیکن اس کے بارے میں مزید غور نہیں کرتے، لیکن پتھر کے دور کے قبروں سے پتہ چلتا ہے کہ وہ لوگ اپنے فوت ہو جانے والے اور اس کے بعد کی زندگی سے متعلق بھی کوئی نظریہ رکھتے تھے جس سے وہ اپنے زمانۂ حال سے بھی مطمئن ہو کر زندگی گزارتے تھے اور آئندہ پیش آنے والی زندگی کے بارے میں بھی اطمینان حاصل کر لیتے تھے۔
یعنی یہ لوگ جو اپنے مردوں کو اتنی احتیاط کے ساتھ دفناتے تھے، یہ سمجھتے تھے کہ یہ دکھائی دینے والی دنیا، ایک واحد حقیقت نہیں ہے۔ اس کے بعد بھی ایک دنیا آنے والی ہے لہٰذا یہ کہا جا سکتا ہے کہ نوع انسانی اپنی روز مرہ کی زندگی کے تجربے کے دائرے میں سے باہر نکل کر سوچنے اور تصورات قائم کرنے کی بھی اہلیت رکھتی ہے۔ یہی خصوصیت اسے جانوروں اور مویشیوں سے ممیز کرتی ہے۔
ہم معنی تلاش کرنے والی مخلق (Meaning Seeking Creatures) ہیں اور اپنے گردو پیش کے حالات سےکبھی مطمئین ہوتے ہیں اور کبھی غیر مطمئین ہو جاتے ہیں۔ جانوروں کے بارے میں جہاں تک ہم جانتے ہیں وہ اپنے حالات زیست سے پریشان نہیں ہوتے اور نہ ہی انہیں دنیا کے دیگر خطوں کے بارے میں کوئی تشویش ہوتی ہے۔
یہ اپنی زندگی کو کسی دوسرے تناظر سے بھی دیکھنے کی کوشش نہیں کرتے۔ ان کے برعکس انسان اپنے حالات سے بہت جلد مایوس ہو جاتا رہا ہے۔ ہم شروع ہی سے ایسی کہانیاں گھڑتے آئے ہیں جو ہمارے زندگی کو ایک وسیع تناظر عطا کرتی رہی ہیں جن کی مدد سے ہم وقتی پریشانیوں کو بھول کر اپنی زندگی کی معنویت اور اس کی قدر و قیمت میں اضافہ کرتے رہے ہیں۔
انسانی ذہن کی ایک اور خصوصیت یہ ہے کہ یہ ایسے خیالات اور تجربات بھی وضع کر سکتا ہے کہ ہم ان کی عقلی توجیہہ کرنے سے قاصر رہتے ہیں۔ ہمارے پاس ایک قوتِ متخیلّہ (Imagination) ہے، جس کے ذریعے ہم ایسی صورت حال کا تصور کر سکتے ہیں جو فوری طور پر موجود نہیں ہوتی یعنی اس کا کوئی خارجی وجود نہیں ہوتا، یہ محض ایک ذہنی تخیل ہوتا ہے۔
یہ قوتِ متخیلہ ہی ہے جو مذہب اور عقیدے کو وجود میں لاتی ہے، یہ اساطیری خیالات ایک دوسرے سے اتنے متصادم ہیں کہ ان میں صحیح اور غلط کی حدود آپس میں غلط ملط ہو چکی ہیں۔ اس لیے ہم بطورِ انسان انہیں غیر معقول اور لذت پرستی پر مبنی قرار دے کر مسترد کر دیتے ہیں۔
لیکن دوسری طرف ہی قوتِ متخیلہ نے سائنسدانوں کو اس قابل بنا دیا ہے کہ وہ نئے نئے علوم کو منظرِ عام پر لا رہے ہیں اور انہوں نے اس کے بل بوتے پر ایسی ٹیکنالوجی وضع کر لی ہے جس کے ذریعے ہم اپنے ماحول میں بڑے مؤثر ثابت ہو رہے ہیں۔
سائنسدانوں کے تصور نے ہمیں بیرونی خلا میں سفر کرنے اور چاند پر چہل قدمی کرنے کے قابل بنا دیا ہے۔ یہ وہ کارہائے نمایاں ہیں جو پہلے صرف تصور کی دنیا میں ممکن سمجھے جاتے تھے۔ انسان کے دائرہ کار کو وسعت دینے میں اساطیر اور سائنس، دونوں نے اپنا اپنا کردار ادا کیا ہے۔ سائنس اور ٹیکنالوجی کی طرح اساطیریات بھی جیسا کہ ہم آگے بتائیں گے۔
اس دنیا کے دائرے سے خارج کی باتیں نہیں بلکہ اس کے اندر کی باتیں ہیں اور ہمیں اپنے اندر رچ بس کر رہنا سکھاتی ہیں۔ پتھر کے دور کی قبریں ہمیں اساطیر کے بارے میں پانچ اہم باتیں بتاتی ہیں۔
پہلی بات: ان کی جڑیں ہمیشہ موت کے تجربے اور فنا پزیری کے خوف (Fear Of Extinction) کے اندر پیوست ہوتی ہیں۔
دوسری بات: جانوروں کی ہڈیاں یہ ظاہر کرتی ہیں کہ مردے کی تدفین کے ساتھ ساتھ قربانی بھی دی گئی تھی۔ اساطیر اور مذہبی رسوم لازم و ملزوم ہیں، انہیں ایک دوسرے سے الگ نہیں کیا جا سکتا۔ ان اساطیری داستانوں کو عبادت اور دعاؤں سے الگ کرکے دیکھا جائے تو ان کا کوئی مفہوم ہی باقی نہیں رہتا۔
تیسری بات: پتھر کے دور کی داستان کو کسی قبر کے پاس بیٹھ کر ازسرِنو دوہرایا جاتا تھا تاکہ یہ قصے معدوم نہ ہو جائیں۔ زیادہ تر زور دار قصے کہانیاں بعید از قیاس نکات کے گرد گھومتی ہیں اور ہمیں اپنے تجربے سےدور لے جانے کی کوشش کرتی ہیں۔
ایسے لمحات ہم سب کی زندگی میں آتے ہیں کہ ہم ایسی جگہوں پر جاتے ہیں جو ہم نے نہیں دیکھی ہوتیں اور ہم ایسے کام کر گزرتے ہیں جو پہلے ہم نے نہیں کیے ہوتے۔ اساطیری داستان نامعلوم چیز سے متعلقہ ہوتی ہے، ایسی چیز جس کے بارے میں ابتدائی طور پر ہمارے پاس کوئی الفاظ نہیں ہوتے۔ لہٰذا یہ داستانیں ایک عظیم خاموشی کے قلب میں اتر کر اس کی گہرائی کا جائزہ لیتی ہیں۔
چوتھی بات: یہ داستان برائے داستان نہیں ہوتی، یہ ہمیں بتاتی ہے کہ ہمارا طرزِ عمل کیسا ہونا چاہیے۔ ان قبروں میں میتیں بعض اوقات حالت جنین (Fontal Position) میں رکھی جاتی تھیں جیسے کہ یہ شخص دوبارہ پیدا ہو رہا ہو۔ یعنی کہ متوفی کو اگلا قدم خود اٹھانا ہے۔ اس کو صحیح طور پر سمجھنے کی کوشش کی جائے تو اساطیری داستان ہمیں اس دنیا یا اگلی دنیا میں صحیح روحانی راستہ اختیار کرنے کی تلقین کرتی ہے۔
آخری بات یہ کہ اساطیری داستان ہمیں اس دوسری دنیا کے احوال بتاتی ہے جو ہماری موجودہ دنیا کے پہلو بہ پہلو جلتی ہے اور بعض صورتوں میں اس کی تائید و حمایت بھی کرتی ہے۔ اس غیر مرئی مگر اس سے زیادہ طاقتور حقیقت کو جو اساطیری داستان کا بنیادی موضوع ہوتا ہے، دیوتاؤں کی دنیا"ل بھی کہا جاتا ہے۔
اسے ایک دائمی اور سدا بہار فلسفے (Perennial Philosophy) کی حیثیت حاصل رہی ہے کیونکہ اس نے سائنسی جدت کے آنے سے پہلے کے تمام معاشروں اور ان کے رسم و رواج اور ان کی سماجی تنظیموں کو متاثر کیا ہے اور آج کے روایتی معاشروں پر بھی اثر انداز ہو رہا ہے۔
اس فلسفے کے مطابق اس دنیا میں جو کچھ بھی رونما ہو رہا ہے، جو کچھ بھی ہم یہاں دیکھ اور سن رہے ہیں، ان کا نصف ثانی، مثنٰی یا جزو تکمیلی (Counterpart) دیوتاؤں کی دنیا میں وقوع پذیر ہو رہا ہے، جو ہماری دنیا کے مقابلے میں زیادہ بابرکت، زیادہ قوی اور زیادہ دیرپا ہے۔ اور ہر ارضی حقیقت اس کے نقشِ اول (Archetype) یعنی اصل نمونے کا محض ایک ہلکا سا پرتو اور ایک ناقص نقل ہے۔ جبکہ کمزور بنی نوع انسان اس دیوتائی یا آسمانی نقش اول میں شرکت کی بدولت ہی اپنی ہستی کی تکمیل کر سکتا ہے۔
اساطیری داستانوں نے اس حقیقت کو ایک واضح شکل عطا کی ہے جو انسانوں نے اپنے وجدان کے ذریعے پائی تھی۔ ان داستانوں نے انسان کو دیوتاؤں کے طرزِ عمل سے آگاہی بخشی ہے۔
یہ باتیں محض دلچسپ قصے کہانیوں کے طور پر نہیں بتائی گئیں بلکہ اس لیے بتائی گئی ہیں کہ لوگ ان طاقتور ہستیوں کے نقشِ قدم پر چلنے کے قابل ہو سکیں اور اپنے اندر الوہیت (Divinity) محسوس کر سکیں۔ ہم اپنے سائنسی کلچر میں الوہیت کے سادہ قسم کے تصورات رکھتے ہیں۔
قدیم دنیا میں دیوتاؤں کو شاذو نادر ہی مافوق الفطرت ہستی سمجھا جاتا تھا، انہیں خال خال صورتوں میں ہی انسانوں سے جدا اور الگ تھلگ رہنے والی ہستی قرار دیا جاتا تھا۔ اساطیر جدید مفہوم کے مطابق مذہبیات سے متعلق نہیں ہوتی تھیں بلکہ انسانی تجربات سے متعلق ہوتی تھیں۔
لوگوں کا خیال تھا کہ دیوتا، انسان، جانور اور عالم تجربات آپس میں پیچ در پیچ گندھے (Inextricably Bound Up) ہیں، سب ایک ہی ملکوتی مادے سے بنے ہیں اور ایک ہی قسم کے قوانین کے تابع ہیں۔ دیوتاؤں کی دنیا اور عورت و مرد کی دنیا کے مابین ابتدائی طور پر کوئی خلیج حائل نہیں تھی۔ جب لوگ الوہیت کے بارے میں گفتگو کرتے تھے تو وہ عموماً اس کے ارضی پہلوؤں سے متعلق بات چیت کر رہے ہوتے تھے۔