Safar Waseela Duffer Hai (1)
سفر وسیلہ "ڈفر" ہے (1)
پاؤں پالنے، سے باہر نکالتے ہی اندازہ ہوا کہ جانور تو ہر خطے میں پائے جاتے ہیں چاہے دو پاؤں والے ہوں یا چوپائے بس رویہ اور ذائقہ تھوڑا مختلف ہوتا ہے۔ چند دعوتیں اور اچھی خاصی نیند اُڑالی۔ میزبان اپنا پہلا فریضہ یہی سمجھ رہے ہیں کہ مہمان کو ڈائننگ ٹیبل پر ہی رکھا جائے۔ ہر ایک کی زبان، فریج اور دل میزبانی کے لوازمات سے بھرا ہے صرف بستر پر جاکر تنہائی کاٹ رہی ہے۔ اگر یہی بستر مادرِ وطن میں ہوتا تو شاید کاٹنے میں مچھر اور کھٹمل بھی ساتھ دے رہے ہوتے۔
میزبان بتارہے تھے قربانی پاکستان میں کی ہے مگر کھال یہاں اتر رہی ہے۔ ان کے پڑوسی جو کہ ہندوستانی ہیں کل شام "بیف تکّہ بوٹی" میں ہمارے ساتھ شریک تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہندو مسلم نفرت ختم کرنے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ تمام پاکستانیوں اور ہندوستانیوں کو لاکر برطانیہ میں بسادیا جائے۔ ملہوترا صاحب فیس بک نہیں رکھتے مگر پھر بھی بلا کے دانشور لگے۔ میزبان نے جب علیل جبران، سے متعارف کروایا تو ملہوترا جی نے اتنی پھلجڑیاں چھوڑیں کہ ہونے والی رات "شب برات" محسوس ہونے لگی۔
قبل اس کے کہ ہم آپ کو لندن کی سڑکوں کی سیر کروائیں ذکر آغاز سفر کا ہوجائے۔ پیرسن ائیرپورٹ پر بیوی بچے سب ہمیں الوداع کہنے آئے مگر ہماری جدائی میں کوئی بھی نہیں رورہا تھا، یہ دیکھ کر ہماری صورت رونی جیسی ہوگئی۔ ہم نے بہت دنوں بعد اچھی لگتی بیوی کو موقع کی مناسبت سے گلے لگاکر شکوہ کیا تو بولی "ہم پارچے، فیملی ہیں اوپر سے ہنستے اندر سے روتے ہیں"۔
بیٹی نے جواب دیا "پپّا یہ آپ کا بھی fun اور ہمارا بھی انجوائے"۔
بیوی کا ہاتھ ہلاتے ہوئے آخری جملہ جو گیٹ کے پلِ صراط سے گذرتے ہوئے کانوں میں پڑا "خیال رکھئے گا، اپنا بھی اور پرائی عورتوں کا بھی"۔
مقامِ تلاشی، میں مساوات دیکھ کر ہم کینیڈا کی اصول پرستی کے قائل ہوگئے۔ ہر مسافر کسی فوجی کی طرح ہتھیار ڈال رہا تھا۔ مرد و زن بیلٹ، گھڑی، زیور، جوتے، پرس اور ہینڈ کیری مشین کے حوالے کررہے تھے۔ ایک چائینیز کینیڈین اسکینر کی رپورٹ دیکھنے پر مامور تھا۔ شاید آنکھیں چھوٹی ہونے کی وجہ سے تلاشی کی رفتار تھوڑی سی آہستہ تھی۔ ہمارے سامنے کسی کے پاس سے ممنوعہ اشیاء نکلی نہ ممنوعہ الفاظ۔
پیرسن ائیرپورٹ کا رقبہ اتنا زیادہ ہے کہ شاید ہمارے بہت سارے جدّی پشتی جاگیرداروں کی جاگیریں بھی چھوٹی پڑجائیں۔ ہینڈ کیری اور لیپ ٹاپ اٹھائے جہاز تک پہنچتے پہنچتے ایسا لگا کہ جیسے ہم مسسی ساگا سے ملٹن تک آگئے ہیں مگر خوشگوار حیرت تب ہوئی جب بدیسی جہاز میں ایک پاکستانی نژاد ائیرہوسٹس فرزانہ نے ہمارا استقبال کیا۔
جہاز کی سیٹ کافی آرام دہ تھی مگر پاؤں پھیلانے کی جگہ کم۔ جہاز ہو یا زندگی پاؤں پھیلانے کی آرزو پوری نہ ہوسکی۔ جہاز نے اڑان لی تو ہم نے اردگرد پاؤں اور نگاہ پسارے مسافروں کا جائزہ لیا۔ ایک تہائی سے زیادہ مسافر "گورے" تھے اور ان میں بھی اکثریت مردوں کی۔ چند قابلِ مطالعہ خواتین اپنے اپنے بوائے فرینڈز کے ساتھ تھیں۔ دل افسردہ سا ہوگیا۔ ہم نے دو کتابیں باہر نکال لیں۔ "پارچے" پبلسٹی کے لئے اور بلند اقبال کا تازہ ناول "ٹوٹی ہوئی دیوار" پڑھنے کے لئے۔
ایک گھنٹے بعد ہمارے دائیں کان میں پنجابی لہجے میں اردو بھری آواز سنائی دی "آپ اردو پڑھ رہے ہیں، یقیناً پاکستانی ہیں۔ کیا یہ "پارچے" میں پڑھ سکتی ہوں؟"
ارے! میں نے تو اپنی ساتھ والی سیٹ پر دھیان ہی نہیں دیا تھا۔ کینیڈا میں گذارے گئے دس سے زائد سالوں نے یہ نئی عادت ڈال دی ہے کہ گردن گھما کر برابر والی سیٹ پر بیٹھے یا بیٹھی کو گھورنے کی عادت جاتی رہی ہے۔ "پارچے" کی پبلسٹی کام آگئی تھی۔ میں نے گردن موڑ کر موصوفہ کو دیکھا۔ 40 سے اوپر یا نیچے کی کتابی چہرے والی خوبصورت خاتون کو دیکھ کر دل سوتا سوتا جاگ گیا۔
"جی ضرور کیوں نہیں۔ میں اس کتاب کا مصنف ہوں"۔
"اچھا! ٹائٹل تو بہت اچھا ہے مگر شکل سے لگ نہیں رہا کہ آپ اچھا مزاح لکھ لیتے ہونگے۔ میں تو آپ کو پہلے سری لنکن سمجھی تھی"۔
قدرت نے مجھے "مقام تلاشی" پر کچھ دیر پہلے چائنیز کو چھوٹی آنکھوں کا طعنہ دینے کا بدلہ لےلیا تھا۔ کوئی اور قابل ذکر مونث چانس کی عدم موجودگی کی وجہ سے میں خاتون کے دل شکن جملے پی گیا اور بناوٹی مسکراہٹ کے ساتھ ان کی خدمت میں کتاب پیش کردی۔ دل اندر سے آواز لگارہا تھا
"سفر وسیلہ ڈفر ہے"۔