Soobe Ke Naam Pe Siasat
صوبے کے نام پر سیاست
قومی سطح پر ایک بار پھر جنوبی پنجاب صوبے کی بازگشت سنائی دے رہی ہے، گزشتہ روز سینٹ کے اجلاس میں پاکستان کی تینوں بڑی سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں نے جنوبی پنجاب صوبے کے حق میں اظہار خیال کیا۔ ایسا پہلی بار نہیں ہوا کہ الیکشن کی آمد سے قبل سرائیکی صوبے کے حق بیانات آنا شروع ہوئے ہوں۔ جب بھی انتخابات کا موسم قریب آتا ہے یا پھر سیاسی جماعتوں کو سرائیکی وسیب سے حمایت درکار ہوتی ہے، تو اچانک سیاسی جماعتوں اور ان کے رہنماؤں کے دلوں میں سرائیکی وسیب کی ہمدردی جاگ جاتی ہے۔
اس وقت ایک طرف حکومت کی طرف سے پنجاب میں بلدیاتی انتخابات کے پہلے مرحلے میں ملتان اور ڈیرہ غازیخان ڈویژن میں انتخابات کی تجویز سامنے آرہی ہے اور دوسری طرف حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف کے پانچ سالہ اقتدار کا آخری سال مئی سے شروع ہونے جارہا ہے، یقیناً کسی بھی حکومت کے اقتدار کا آخری سال انتخابات کا سال ہوتا ہے۔ ایسی صورتحال میں متوقع بلدیاتی انتخابات یا آنے والے قومی انتخابات میں سیاسی جماعتیں میدان میں اُتریں گی، تو وسیب کے لوگوں کی ہمدردیاں حاصل کرنے کے لیے ان کے پاس اس کے علاوہ اور کیا کارڈ ہوسکتا ہے، جس کی بنیاد پر ووٹ مانگ سکیں۔ یہی وجہ ہے صوبے پر اپنی سیاست چمکانے اور بیانات اور تقریروں کا سلسلہ شروع کر دیا گیا ہے۔
2018 میں بھی یہی ہوا۔ الیکشن سے چند ماہ قبل وسیب سے تعلق رکھنے والے حکمران جماعت مسلم لیگ ن کے ممبران اسمبلی نے صوبہ محاذ کے نام سے الگ گروپ بنا کر جنوبی پنجاب صوبے کا مطالبہ کرتے ہوئے حکومت سے علیحدگی اختیار کر لی، حالانکہ مسلم لیگ ن کے اقتدار کے پانچ سالوں کے دوران انھوں نے صوبے کے حق میں ایک لفظ بھی نہیں بولا اور پھر صوبہ محاذ نے چند ہفتوں بعد پاکستان تحریک انصاف میں ضم ہونے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ پی ٹی آئی اقتدار میں آکر جنوبی پنجاب کو الگ صوبہ بنائے گی۔
جبکہ پاکستان تحریک انصاف کے چئیرمین عمران خان نے بھی اس موقع پر واضح طور پر کہا کے اقتدار میں آکر وہ 100 دنوں کے اندر جنوبی پنجاب کو الگ صوبہ بنائیں گے۔ انھوں نے کہا کہ پسماندہ علاقوں کے احساس محرومی کا خاتمہ ہمارے منشور کا حصہ ہے۔ پھر وہی ہوا جس کا ڈر تھا، پی ٹی آئی اقتدار میں کھو گئی صوبہ محاذ والے وزارتوں میں کھو گئے اور صوبہ وعدوں میں کھو گیا۔ حکومت 100 دنوں میں صوبے کا وعدہ تو پورا نہ کر سکی، مگر کئی سو دنوں بعد وسیب کو صوبائی سیکرٹریٹ کے ٹرک کی بتی کے پیچھے لگا کر ایک با اختیار صوبے کا باب ہی بند کر دیا۔ صوبائی سیکرٹریٹ کے بااختیار ہونے کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہےکہ کوئی بھی افسر یہاں کام کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتا۔
گزشتہ روز سینٹ اجلاس اور بعد ازاں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے ملتان سے تعلق رکھنے والے وفاقی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ جنوبی پنجاب کو صوبہ بنانا ہمارے منشور کا حصہ ہے مگر صوبہ بنانے کے لیے ہمارے پاس اکثریت نہیں انھوں نے کہا کہ صوبہ بنانے کے عمل کو پایہ تکمیل تک پہنچانے اور اس کے لیے درکار حمایت کے حصول کے لیے اپوزیشن جماعتوں سے رابطہ کیا ہے اور اس حوالے سے قائد حزب اختلاف شہباز شریف اور بلاول بھٹو کو خط لکھ دیا ہے جس میں جنوبی پنجاب صوبے کی قانون سازی کے لیے درکار تعاون کی درخواست کی ہے۔
ہم صوبہ بنانے میں کامیاب ہوئے تو اس کا کریڈٹ دونوں جماعتوں کو دینے کے لیے بھی تیار ہیں۔ اس سے قبل مسلم لیگ ن سے تعلق رکھنے والے سنیٹر رانا محمود الحسن نے سینٹ میں ایک قرارداد پیش کی، جس میں جنوبی پنجاب اور بہاولپور کے نام سے دو الگ الگ صوبے بنانے کا مطالبہ کیا گیا۔
ماضی میں جب پاکستان پیپلز پارٹی نے جنوبی پنجاب صوبے کی قراداد پاس کی تھی تو اس وقت بھی مسلم لیگ ن نے دو صوبوں کی قراداد پیش کر کے وسیب کو تقسیم کرنے کی بنیاد رکھی دی تھی اور آج ایک بار پھر دو صوبوں کے لیے بل پیش کیا۔ اس پر سینٹ میں اپوزیشن لیڈر سابق وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی نے کہا کہ ہم غلام نہیں ہمیں سیکرٹریٹ نہیں ایک مکمل اور بااختیار صوبہ چاہئے ہمارا وزیر اعلی اپنا ہو گورنر اپنا ہو سیکرٹریٹ اور نام کا فیصلہ ہم خود کر لیں گے۔
سینٹ میں بڑی سیاسی جماعتوں کی طرف سے جنوبی پنجاب کے حق میں اٹھنے والی آوازیں خوش آئند ضرور ہیں مگر ماضی سے کچھ بھی مختلف نہیں کیونکہ ہر دور میں ہر جماعت کی طرف سے وسیب کے لوگوں کی ہمدردیاں کرنے کے لیے سرائیکی صوبے کے حق میں آوازیں بلند ہوتی رہیں۔ مگر کچھ ہی عرصہ بعد کوئی نہ کوئی جواز بنا کر تمام معاملے پر مٹی ڈال دی جاتی ہے۔ آج جب تمام جماعتیں بظاہر جنوبی پنجاب صوبے کے حق میں متفق ہیں، تو پھر صوبے کے لیے قانون سازی میں کیا روکاوٹ ہے اور پھر پاکستان تحریک انصاف جو اسمبلی میں اکثریت نہ ہونے کا بہانہ بنا رہی ہے۔
سوال تو یہ ہے کہ اکثریت نہ ہونے کے باوجود اگر حکومت منی بجٹ پاس کروا سکتی ہے، آئینی ترامیم کر سکتی ہے دیگر تمام قراردادیں پاس کروا سکتی ہے تو سرائیکی صوبے کے حق میں قانون سازی کیوں نہیں کر سکتی اور پھر وسیب سے اتنی ہی ہمدردی ہے تو جب بہت کچھ صدارتی آرڈیننس سے چلایا جاسکتا ہے تو جنوبی پنجاب کے لیے کوئی صدارتی آرڈیننس کیوں نہیں لایا جا سکتا۔ یہ بات درست ہے کہ جنوبی پنجاب صوبے کی راہ میں اپر پنجاب کی اشرافیہ اور طاقتور بیوروکریسی سب سے بڑی رکاوٹ ہے، مگر اس سے بھی بڑھ کر وسیب کے سیاستدان اس کے ذمہ دار ہیں۔
اگر جنوبی پنجاب کے 100 سے زائد ایم پی اے اور پچاس سے زائد ایم این ایز پارٹی وابستگی سے بالا تر ہو کر سرائیکی صوبے کے لیے متحد ہوجائیں تو کسی کی جرات ہوسکتی ہے کہ وہ سرائیکی صوبے کی راہ میں روکاوٹ بن سکے، مگر جب تک وسیب کے سیاستدان ذاتی مفادات کے لیے جنوبی پنجاب کے مفادات کا سودا کرتے رہیں گے تو اس وقت تک تمام سیاسی جماعتیں بھی صوبے کے نام پر سیاست کرتی رہیں گی۔