Selab Ke Baad Zindagi
سیلاب کے بعد زندگی
ان کی زندگی تو پہلے ہی ایک آزمائش ہے، کبھی اگر آپ کچے کے علاقے میں گئے ہوں تو آپ نے دیکھا ہوگا، کہ غربت، بے بسی کسمپرسی سے مرجھائے چہرے زندگی کی تلخیوں کا مقابلہ کرتے ہوۓ نظر آتے ہیں۔ نسل در نسل دریائے سندھ کے کناروں پر آباد یہ لوگ انتہائی محنتی، جفاکش اور ملنسار ہیں۔ مگر زندگی کی بنیادی سہولتیں ان کے لیے ایسے خواب ہیں۔
جن کی تعبیر کی امید پر کئی نسلیں پانیوں سے لڑتے لڑتے گزر گئیں اور نہیں معلوم ابھی کتنی نسلوں کو اسی امید پر آب اور خاک کا رزق ہونا ہے۔ پنجاب، خیبر پختون خواہ ہو، سندھ یا بلوچستان تمام صوبوں کے حکمران ضرور الگ ہیں، مگر یہاں کے عوام کے مسائل ایک ہیں۔ ان کی بھوک غربت، افلاس اور بے بسی ایک ہے۔ ان کے دکھ درد کی کہانی ایک ہے، جو ستر سال سے دوہرائی جارہی ہے۔
نہیں معلوم اس کہانی میں کبھی خوشگوار موڑ بھی آئے گا یا پھر ہمیشہ کی طرح یہ لوگ شیر دریا کے منہ زور پانیوں سے لڑتے لڑتے المناک کہانیوں کا حصہ بنتے رہیں گے۔ کیونکہ ہر چند سال بعد آنے والا سیلاب کچے کے لوگوں کو کئی سال پیچھے دهكیل دیتا ہے۔ اس کا اندازہ شاید ان لوگوں کو نہ ہو، جنہوں نے محض سیلاب کا نام سنا ہے۔ سیلاب تو دس روز میں گزر جاتا ہے۔
مگر اس کے اثرات دسیوں مہینے اذیت ناک صورتحال سے دو چار کئے رکھتے ہیں۔ سیلاب کے تباہ کن اثرات کی ایک جهلک محکمہ صحت کی اس رپورٹ میں دیکھی جاسكتی ہے۔ پچھلے دنوں جاری کی گئی، اس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ جولائی سے لیکر اب تک سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں سرکاری طبی كیمپوں میں 6 لاکھ 60 ہزار افراد میں مختلف بیماریوں کی تشخیص ہوئی ہے۔
جن میں ایک لاکھ پچاس ہزار افراد اسہال کے مرض میں مبتلا ہیں، ایک لاکھ چالیس ہزار افراد میں جلد کا انفیکشن پایا گیا ہے، اسی طرح ایک لاکھ تیس ہزار افراد سانس کی بیماری میں مبتلا ہیں، جبکہ 50 ہزار افراد ملیریا کا شکار ہیں۔ جبکہ سانپ کے کاٹنے کے ایک سو اور کتے کے کاٹنے کے 550 کیس رپورٹ ہوئے ہیں۔ یہ تمام اعداد و شمار وہ ہیں، جو لوگ سرکاری طبی كیمپوں تک پہنچ پائے۔
ورنہ حقیقت یہ ہے کہ متاثرین کی تعداد کہیں زیادہ ہے۔ کیونکہ سرکاری كیمپوں تک سب لوگوں کی رسائی نہیں ہوتی اور ہزاروں لوگ تو ایسے بھی ہوتے ہیں، جو سیلاب زدہ علاقوں میں محصور رہتے ہیں۔ اب جبکہ پانی تو کم ہوگیا ہے اور لوگوں کی واپسی بھی شروع ہو چکی ہے، مگر سیلاب کے بعد زندگی کو شروع کرنا انتہائی کٹھن ہے۔ کیونکہ سیلاب کے نتیجے میں ان کی فصلیں بلکل تباہ ہو چکی ہیں۔
جبکہ کھیتوں میں پانی کھڑا ہونے کی وجہ سے اگلی فصلوں کی کاشت بھی نا ممکن ہے۔ کیونکہ سیلابی پانی کو خشک ہونے میں کئی ماہ لگ سکتے ہیں۔ جبکہ دوسری طرف ان کے گھر مکمل یا جزوی طور پر تباہ ہو چکے ہیں۔ آمدن کے ذرائع مکمل طور پر ختم ہو چکے ہیں۔ یہی وہ حالات ہیں، جنہوں نے سیلاب متاثرین کو ایک نئی اذیت سے دو چار کر رکھا ہے۔
ایک طرف زمیں بوس مكانات ہیں اور دوسری طرف تباہ حال فصلیں، ایک طرف زندگی کو پھر سے شروع کرنا ہے اور دوسری طرف بیماریوں کی یلغار ہے۔ سمجھ نہیں آتی زندگی کو کہاں سے شروع کریں اور حالات کا کہاں تک مقابلہ کریں یہی وجہ سیلاب متاثرین کی ایک بڑی تعداد نفسیاتی بیماریوں کا شکار ہو چکی ہے۔ جس پر نہ تو کوئی توجہ دی جاتی ہے نہ اسے اعداد و شمار میں شامل کیا جاتا ہے اور نہ ہی اس کا علاج کیا جاتا ہے۔
آپ خود ہی اس پر غور کریں، جن لوگوں کے مال مویشی، فصلیں، گھر، جمع پونجی، قیمتی اشیاء، یا سب سے بڑھ کر اپنے پیارے آنکھوں کے سامنے سیلاب کی نظر ہو چکے ہوں، ان کے لیے زندگی کو پھر سے شروع کرنا کتنا کٹھن اور جان لیوا ہو سکتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستانی قوم خدمت خلق کے جذبے سے سرشار ہے۔ 2005 کے زلزلے اور 2010 کے سیلاب کی طرح اس سیلاب میں بھی لوگوں نے دل کھول کر سیلاب متاثرین کی مدد کی۔
جب حکومت اور اپوزیشن ابھی سیاست سیاست کھیل رہے تھے اور لوگ ڈوب رہے تو میرے وسیب کے لوگ اپنی مدد آپ کے تحت سیلاب متاثرین تک پہنچے اور ان کی ہر ممکن مدد کی۔ پاکستان کے ہر چھوٹے بڑے شہر میں سیلاب زدگان کی مدد کے لیے كیمپ لگائے گئے۔ جس سے جتنا ممکن ہوا، اس نے اپنا حصہ ملایا مختلف سماجی تنظیمیں بھی سیلاب متاثرین کی مدد کے لیے پیش پیش رہیں۔
مگر اب سیلاب متاثرین کی بحالی کا مرحلہ در پیش ہے۔ جو کہ انتہائی کٹھن ہے جو کہ حکومت کے تعاون کے بغیر ممکن نہیں۔ ایسی صورتحال میں جب امریکا، برطانیہ، تركیہ، چین، بنگلا دیش، متحدہ عرب امارات سمیت دنیا بھر سے سیلاب متاثرین کے لیے امداد آرہی ہے ضرورت اس بات کی یہ امداد شفاف طریقے سے اصل حقداروں تک پہنچانے کو یقینی بنایا جائے۔
کیونکہ 2005 اور 2010 کے تلخ تجربات اس بات کے شاہد ہیں کہ اس وقت غیر مستحق لوگوں کو نوازہ گیا یہاں تک کہ متاثرین کے لیے آنے والا امدادی سامان مارکیٹوں میں فروخت ہوتا نظر آیا۔ اب جبکہ سیلاب متاثرین کی بحالی اور سیلاب کے بعد زندگی کو پھر سے شروع کرنے کا چیلنج در پیش ہے۔ مگر ماضی میں ہمیشہ یہی ہوتا رہا ہے۔ جیسے جیسے پانی کم ہوتا جاتا ہے، حکومتی اقدامات بھی کم ہوتے جاتے ہیں، بلکہ ختم ہوجاتے ہیں۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ اس اہم موقع پر سیلاب متاثرین کو تنہا نہ چھوڑا جائے۔ کیونکہ سیلاب کے بعد زندگی کی از سر نو بحالی کا جو امتحان شروع ہوتا ہے اور سیلاب کے بعد جو مصائب کا سیلاب شروع ہوتا ہے، اگر اس سے نمٹنے کے لیے حکومت نے سنجیدگی سے مدد نہ کی تو آنے والے وقت میں حکمران بھی اس کے اثرات سے محفوظ نہیں رہ سکیں گے۔