Naye Izlaa, Layyah Division Aur Mimberan e Assembly
نئے اضلاع، لیہ ڈویژن اور ممبران اسمبلی
وزیر اعلیٰ پنجاب چودھری پرویز الہٰی نے گزشتہ دنوں پنجاب میں پانچ نئے اضلاع تونسہ شریف، کوٹ ادو، تلہ گنگ، مری اور وزیر آباد کی منظوری دے دی ہے۔ انھوں نے کہا ہم نے عوام سے کئے گئے وعدے پورے کر دئے ہیں۔ نئے اضلاع بننے سے انتظامی امور میں بہتری آئے گی۔ تعلیم، صحت اور دیگر سہولیات میں اضافہ ہو گا۔ چودھری پرویز الہٰی نے اعلیٰ سطحی اجلاس کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ نئے اضلاع بنانے کا فیصلہ اراکین اسمبلی اور عوام کی سہولت کو مدنظر رکھ کر کیا گیا ہے۔
نئے اضلاع بننے سے ترقی کے ثمرات عوام کی دہلیز تک پہنچیں گے۔ نئے اضلاع کو مالی خود مختاری کی راہ پر گامزن کیا جائے گا۔ خبر کے مطابق وزیر اعلیٰ پنجاب نے جام پور کو بھی ضلع بنانے پر کام شروع کرنے کی ہدایت کر دی ہے۔ اگلے چند دنوں میں اس ضمن میں ہونے والے اجلاس میں حتمی فیصلہ کیا جائے گا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ پنجاب حکومت کی طرف سے نئے اضلاع بنانے کا فیصلہ انتہائی خوش آئند ہے۔
کیونکہ بڑھتی ہوئی آبادی کے پیش نظر انتظامی معاملات میں در پیش مشکلات میں کمی واقعی ہو گی اور مسائل کو حل کرنے میں مدد ملے گی۔ خاص طور پر وسیب کے دو اضلاع تونسہ شریف اور کوٹ ادو کو ضلع بنانا اس لیے بھی خوش کن ہے کہ یہ یہاں کے عوام کا درینہ مطالبہ تھا۔ کیونکہ جغرافیائی صورتحال میں دونوں علاقوں کے عوام کا ضلعی ہیڈ کوارٹر تک پہنچنا بہت سی مشکلات کا باعث تھا۔
مگر وسیب کے لوگوں کے مسائل کے حل کے لیے ابھی بہت سے معاملات باقی ہیں خاص طور پر الگ صوبے کا قیام بنیادی حیثیت کا حامل ہے۔ جو کہ پاکستان تحریک انصاف کے منشور اور انتخابی وعدے میں بھی شامل تھا۔ الگ صوبے کا وعدہ تو سیاست کی بھینٹ چڑھ گیا مگر نئے اضلاع، نئی تحصیلوں اور نئے ڈویژن کے معاملات باقی ہیں جن کے بغیر پنجاب حکومت حالیہ اقدامات کے وہ نتائج حاصل نہیں کر پائے گی جو وہ کرنا چاہتی ہے۔
جام پور کو ضلع بنانے کی نوید تو دے دی گئی ہے اللّه کرے یہ وعدہ جلد پایہ تکمیل تک پہنچے۔ مگر نئے اضلاع کوٹ ادو اور تونسہ شریف کی نئی تحصیلیں کون کون سی ہونگی ابھی واضح نہیں کیا گیا اگر ساتھ ہی ان کا بھی اعلان کر دیا جاتا تو انتظامی معاملات میں مزید آسانی ہو جاتی۔ اس کے ساتھ ساتھلیہ کے معروف تجارتی مرکز چوک اعظم کو تحصیل بنانے کا عوامی دیرینہ مطالبہ اور ضرورت ہے۔
اس حوالے اراکین اسمبلی اور مختلف حکومتوں کی طرف سے وعدے بھی کئے گئے۔ مگر حالیہ بندوبست میں چوک اعظم کو ایک بار پھر نظر انداز کر دیا گیا اور بالکل اسی طرحلیہ کو ڈویژن بنانے کے معاملے کو بھی یکسر پس پشت ڈال دیا گیا۔ جس کی وجہ سے یہاں کے لوگوں میں خاصا اضطراب پایا جاتا ہے۔ ماضی میں مسلم لیگ کی حکومت میں بھی کوٹ ادو اور تونسہ شریف کو ضلع بنا کرلیہ کو ڈویژن بنانے کے معاملات تقریباً طے پا چکے تھے مگر مقامی اراکین اسمبلی کی عدم دلچسپی کی وجہ سے بات پائپ لائن میں رہ گئی۔
مگر اب جبکہ تونسہ اور کوٹ ادو کو ضلع بنایا جا رہا تھا تو یہ بہترین موقع تھا کہلیہ کے اراکین اسمبلی جن میں اکثریت کا تعلق پاکستان تحریک انصاف ہے اور پنجاب میں ان کی حکومت ہے۔ اگر وہ وزیر اعلیٰ پنجاب سے ملاقات کر کے انہیں قائل کرتے تو ہاتھ کے ہاتھلیہ ڈویژن والا معاملہ بھی نمٹ جاتا۔ مگر کیا کیجئے صاحب یہاں کی سیاست پٹواریوں، کلرکوں کے تبادلوں اور گلیوں، نالیوں اور سولنگ سے آگے نہیں بڑھ سکتی۔
یہی وجہ ہےلیہ کے اراکین اسمبلی نے ایک اہم موقع ضائع کر دیا۔ کسی کو اتنی توفیق نہیں ہوئی جب نئے اضلاع بارے ہوم ورک مکمل کیا جا رہا تھا تو وہ اسمبلی میں آواز اٹھاتے، وزیر اعلیٰ سے ملاقات کرتے، پنجاب حکومت پر دباؤ ڈالتے۔ مگر اب بھی دیر نہیں ہوئی۔ نئے اضلاع بننے کے بعد نئے ڈویژن بننا ناگزیر ہے۔ اس سے قبل وزیر اعلیٰ پنجاب اپنے ہوم سٹی گجرات کو ڈویژن بنانے کا اعلان کر چکے ہیں، جبکہ کوٹ ادو اور تونسہ شریف ضلع بننے کے بعد جغرافیائی طور پر ڈویژن بننالیہ کا حق ہے۔
کیونکہلیہ سے جنوب میں کوٹ ادو ایک ڈیڑھ گھنٹے کی مسافت پر ہے جبکہ شمال میں بهكر بھی اتنی ہی دوری پر ہے۔ اور مغرب میں دریائے سندھ پر زیر تكمیل پل فعال ہونے کے بعد تونسہ شریف اورلیہ کا فاصلہ محض 30 منٹ کا رہ جائے گا تو ایسی صورتحال میں تونسہ، کوٹ ادو اور بهكر کو شامل کر کےلیہ کو ڈویژن بنایا جائے تو یہ پورے علاقے اور تمام اضلاع کے لیے سود مند ہو گا۔ اور لوگوں کے مسائل مقامی سطح پر حل کرنے میں مدد ملے گی۔
کیونکہ اس سے قبل ڈیرہ غازی خان اور سرگودھا جیسے دور دراز ڈویژنل ہیڈ کوارٹر عوام کے لیے مشکلات کا باعث ہیں۔ ہم امید کرتے ہیں کہلیہ سے تعلق رکھنے والے اراکین اسمبلی اپنی سابقہ غیر ذمہ داری اور عدم دلچسپی کا ازالہ کرنے کے لیے تمام تر سیاسی اور ذاتی اختلافات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے سنجیدگی کے ساتھلیہ کو ڈویژن بنانے کے لیے اپنا کردار ادا کریں گے۔ اسمبلی میں آواز اٹھائیں گے اور وزیر اعلیٰ کو بھیلیہ ڈویژن کے معاملے پر قائل کریں گے۔
اس کے لیے اگر تونسہ شریف، کوٹ ادو اور بهكر کے اراکین کو بھی اعتماد میں لیا جائے تو معاملات مزید آسان ہو جائیں گے۔ پاکستان تحریک انصاف کو بھی بطور جماعتلیہ ڈویژن کے معاملے پر اپنی قیادت کو زمینی حقائق سے آگاہ کرنا چاہئے۔ کیونکہ اس سے قبل جنوبی پنجاب صوبے کے وعدے کی پاسداری نہ کرنے پر اس کی ساکھ کو جو نقصان ہوا ہے اس کا کچھ ازالہ اس صورت بھی ممکن ہے کہ مقامی سطح پر لوگوں کے مطالبے، ضرورت اور زمینی حقائق کے مطابق نئے اضلاع، تحصیلیں اور ڈویژن بنائے جائیں۔