Wednesday, 27 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Mazhar Khokhar
  4. Khamosh Inqilab Nahi Dharta Tufan

Khamosh Inqilab Nahi Dharta Tufan

خاموش انقلاب نہیں دھاڑتا طوفان

" ہم اس راستے پر چل رہے ہیں جو قوم کی عظمت کا راستہ ہے، جبکہ کوئی ایشیئن ٹائیگر ریاست مدینہ کا مقابلہ نہیں کر سکتا، پاکستان میں خاموش انقلاب آرہا ہے " ان خیالات کا اظہار وزیر اعظم نے لاہور میں صحت کارڈ کی تقسیم کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ انھوں نے مزید کہا کہ میں پہلی بار برطانیہ گیا تو میں نے فلاحی ریاست دیکھی، فلاحی ریاست وہ ہوتی ہے، جو لوگوں کی مدد کرتی ہے۔ فلاحی ریاست عام آدمی کی ضرورت پوری کرتی ہے، وہ یہ نہیں چاہتی کہ کوئی خاص طبقہ ترقی کرے، بلکہ وہ یہ چاہتی ہے کہ سب ترقی کریں۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ وزیر اعظم کی تمام باتیں سچی، اچھی اور کھری ہیں، یہ اچھی اچھی باتیں وہ اقتدار میں آنے سے پہلے سے لیکر اقتدار میں آنے اور اقتدار میں آنے سے اب تک مسلسل ساڑھے تین سال سے کر رہے ہیں۔ ان کی ہر تقریر ہر بیان میں اسی طرح اچھی اچھی باتیں ہوتی ہیں، مگر عام آدمی کو ریلیف محض اچھی اچھی باتیں کرنے سے نہیں ملتا، فلاحی ریاست تقریریں کرنے سے نہیں بنتی مہنگائی کا خاتمہ بیانات سے ممکن نہیں۔ صحت کارڈ کا اجراء خوش آئند ہے، جسے پسماندہ اضلاع سے شروع کیا گیا تھا، اب اس کا دائرہ کار دیگر صوبوں کے مخصوص اضلاع کے ساتھ ساتھ پورے پنجاب تک وسیع کر دیا گیا ہے۔

یکم جنوری سے پنجاب کے تین کروڑ گیارہ لاکھ خاندان 10 لاکھ روپے تک سالانہ صحت اور علاج معالجے کی سہولت حاصل کر سکیں گے۔ مگر جس وقت تحریک انصاف کی حکومت کی طرف سے پورے پنجاب میں صحت کارڈ کی سہولت کی خوشخبری دی جارہی تھی، ٹھیک اسی وقت حکومت کی طرف سے پیش کردہ ضمنی بجٹ ایک نئے طوفان کا اعلان کر رہا تھا، عالمی مالیاتی ادارے سے معطل شدہ قسط کی بحالی کے لیے آئی ایم ایف کی سخت شرائط پر عمل کرتے ہوئے ضرورت کی 150 اشیاء پر دی گئی۔

سیلز ٹیکس کی چھوٹ ختم کرتے ہوئے قوم پر 345 ارب کے نئے ٹیکسز کا بوجھ ڈال دیا گیا جبکہ وزیر خزانہ نے یہ خوشخبری بھی دی کہ عام آدمی پر صرف دو ارب کے ٹیکسز کا بوجھ پڑے گا، مگر وہ یہ بات دانستہ نظر انداز کر گئے کہ ٹیکس صنعتوں پر لگے یا لگرثری اشیاء پر مگر اس کے براہ راست اثرات عام آدمی پر پڑتے ہیں، جبکہ یہاں ضمنی بجٹ میں تو ماچس کی ڈبیا سے دودھ کے ڈبے تک موبائل فون کال سے ضرورت کی تمام اشیاء 17 فیصد ٹیکس عائد کر دیا گیا ہے، تو ایسے میں کیسے کہہ سکتے ہیں کہ اس سے عام آدمی متاثر نہیں ہوگا اور پھر ابھی ضمنی بجٹ کی گونج باقی تھی کہ حکومت نے سال نو کے آغاز پر پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں 4 سے 5 روپے اضافہ کر دیا۔

حالانکہ گزشتہ ماہ عالمی مارکیٹ میں تیل کی قیمتوں میں ہونے والی کمی کے بعد پہلے حکومت نے خاموشی سے پٹرولیم لیوی اور ڈیلر کے منافع میں اضافہ کر دیا اور پھر 15 دسمبر کو پیٹرول کے ریٹ کم کئے اور نئے سال کے آغاز پر ایک بار پھر اضافہ کر دیا، اسی طرح آئی ایم ایف کی ہدایت پر گزشتہ چند ماہ میں بجلی کی قیمتوں میں متعدد بار اضافے کے بعد اب ایک بار پھر نیپرا کی طرف سے بجلی کی قیمتوں میں اضافے کا پلان بنایا جارہا ہے، جبکہ فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ کی مد میں لوٹ مار الگ سے ہے، 15 سو کے بل پر 35 سو ایف پی اے وصول کیا جارہا ہے۔

سچ تو یہ ہے جب ضمنی بجٹ میں ٹیکسز کی بھر مار ہو، بجلی گیس اور پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ کیا جارہا ہو، گیس اور کھاد کی قلت نے لوگوں کی زندگی اجیرن کر دی ہو تو ایسے میں وزیر اعظم عمران خان کی طرف اعلان کردہ خاموش انقلاب آئے یا نہ آئے مگر مہنگائی کا دھاڑتا طوفان ضرور آئے گا۔ انقلاب تو قوموں کی زندگی میں خوشگوار تبدیلیاں لاتے ہیں، مگر یہاں تو قوم تباہ کن حالات سے دوچار ہے۔ سچ تو یہ ہے پاکستانی قوم گزشتہ 74 سالوں سے ایک سے بڑھ کر ایک طوفان کی زد میں ہے۔

بھوک اور غربت کا طوفان، مہنگائی اور بےروزگاری کا طوفان، کرپشن اور لوٹ مار کا طوفان، ناانصافی اور عدم مساوات کا طوفان، نا اہلی اور کام چوری کا طوفان، ملاؤٹ اور ناجائز منافع خوری کا طوفان۔ قوم پُر اُمید تھی کہ پاکستان تحریک انصاف اقتدار میں آئے گی، تو اسے طوفانوں سے نجات مل جائے گی، مگر بدقسمتی سے طوفان کم ہونے کے بجائے مسلسل بڑھتے چلے جارہے ہیں، مگر حکمرانوں کو اس کا ذرا برابر بھی احساس نہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ وزیر اعظم اپنے اعلانات کے مطابق واقعی ملک کو فلاحی ریاست بنانے کے لیے سنجیدہ ہیں اور عوام کی حالت زار بہتر کرنا چاہتے ہیں۔

تو خدارا اس عوام پر رحم کرتے ہوئے اپنی معاشی پالیسیوں اور اپنی معاشی ٹیم پر نظر ثانی کریں، کیونکہ اب غریب عوام کی قوت خرید اور قوت برداشت دم توڑ چکی ہے۔ عوام کے اندر مزید طوفانوں کو برداشت کرنے کی سکت باقی نہیں رہی، عوام اب حالات سے ہی نہیں زندگی سے بھی گھبرا رہے ہیں۔ لوگ خود کشیوں پر مجبور ہوچکے ہیں۔ حالات دن بدن خراب سے خراب تر ہورہے ہیں۔ سوال تو یہ ہے جب دو وقت کی روٹی کا حصول مشکل ہو چکا ہو، لوگوں کے اندر زندہ رہنے کی امید ہی باقی نہ ہو زندگی کارڈ ہی بیکار نظر آرہا ہو تو وہ صحت کارڈ کا کیا کریں گے؟

Check Also

Fahash Tarkari

By Zubair Hafeez