Iss Se Pehle Ke Deir Ho Jaye
اس سے پہلے کہ دیر ہوجائے
اس سے پہلے کہ دیر ہوجائے ہماری سیاسی قیادت کو سیاسی مسائل سیاسی انداز میں اور آئینی مسائل آئین اور قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے حل کر لینے چاہیں۔ کیونکہ تصادم کی راہیں منزل کو کھوٹا کر دیتی ہیں اور جہاں معاملہ پورے ملک کا ہو وہاں منزل ہی نہیں راستے بھی کھو جاتے ہیں اور اگر ایک بار قوم اپنی راہ سے بھٹک جائے تو کئی نسلوں کو اس کا خمیازہ بھگتنا پڑتا ہے۔ وطن عزیز ایک بار پھر تاریخ کے نازک ترین دور سے گزر رہا ہے صورتحال میں در آنے والی کشیدگی ہر گزرتے دن تلخی اور تصادم کی طرف جارہی ہے بیانات سے شروع ہونے والی تلخی، کشیدگی اور تصادم کی یہ صورتحال اسی طرح برقرار رہی تو اس کی اثرات بہت جلد گلی محلوں میں بھی پہنچ سکتے ہیں اور اگر خدا نخواستہ ایسا ہوگیا تو ملک خانہ جنگی اور انتشار کی ایسی دلدل میں پھنس جائے گا جس سے نکلنا بہت مشکل ہوگا اور پھر حالات سیاستدانوں کے کنٹرول سے باہر ہوجائیں گے۔
مسلم لیگ ق کے رہنماء اور سینئر سیاستدان چوہدری شجاعت حسین نے گزشتہ روز اپنے ایک بیان میں تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ "حکومت ہمیشہ جلسے جلوس روکنے کی کوشش کرتی ہے یہ پہلی بار ایسا ہے کہ حکومت اور اپوزیشن ایک ہی ایشو پر جلسے کر رہے ہیں اپوزیشن حکومتی اعلانات دیکھتے ہوئے جلسوں پر اصرار کر رہی ہے۔ سابق وزیر اعظم چوہدری شجاعت حسین نے حکومت اور اپوزیشن دونوں سے اپیل کی ہے کہ وہ جلسے جلوس کا پروگرام ملتوی کر دیں ان جلسے جلوسوں میں کوئی مر گیا یا مروا دیا گیا تو سب پچھتائیں گے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ وفاقی وزراء کہتے ہیں کہ دس لاکھ کے مجمعے سے گزر کر عمران خان کے خلاف ووٹ دینا ہوگا مگر جب کوئی خلاف ووٹ دینے کا فیصلہ کر لے تو دس لاکھ تو کیا دس کروڑ کا مجمع بھی اسے نہیں روک سکتا۔
یقیناً چوہدری شجاعت کی ان باتوں کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا مگر تاریخ کا سب سے بڑا سبق یہ ہے کہ ہم نے کبھی تاریخ سے سبق حاصل نہیں کیا ماضی میں ایسے ہی سیاسی انتشار، رسہ کشی تصادم اور سیاسی عدم برداشت کے نتیجے میں ہمیں تین بار آمریت کا سامنا کرنا پڑا۔ میں کبھی بھی موجودہ فرسودہ اور استحصالی نظام کا حامی نہیں رہا کیونکہ یہ نظام ہمیشہ طاقتور کو مزید طاقتور بناتا ہے اور کمزور کو کچل کر رکھ دیتا اشرافیہ کا یہ نظام امیر کو تحفظ دیتا ہے اور غریب کا جینا محال کر دیتا ہے تاہم کچھ عرصے بعد ہونے والے انتخابات کچھ حد تک عام آدمی کو غصہ نکالنے کا موقع تو فراہم کر دیتے ہیں لیکن اگر یہ جیسے تیسے ہونے والے جھوٹے سچے انتخابات کا موقع بھی ہاتھ سے نکل گیا تو سب ہاتھ ملتے رہ جائیں گے۔
مگر ہماری حکومت اور اپوزیشن دونوں اس بات کی نہیں سمجھ رہے یا پھر سمجھنا ہی نہیں چاہ رہے کیونکہ ہمارے ہاں سیاست میں جو حقیقت ہوتی ہے وہ نظر نہیں آتی اور جو نظر آتی ہے وہ حقیقت نہیں ہوتی۔ اس لیے کچھ نہیں کہا جاسکتا کہ کون کس کی پچ پر کھیل رہا ہے کس نے میچ کے پیسے پکڑے ہوئے ہیں اور کس نے میچ فکس کر رکھا ہے اللہ کرے یہ میچ فکس نہ ہو۔
اب صورتحال یہ ہے کہ اسپیكر نے قومی اسمبلی کا اجلاس 25 مارچ کو طلب کیا ہے جبکہ وزیر اعظم عمران خان نے تحریک عدم اعتماد سے ایک روز قبل ڈی چوک اسلام آباد جلسے کا اعلان کر رکھا ہے وفاقی وزراء کا کہنا ہے کہ عمران خان کے خلاف ووٹ دینے والوں کو اس مجمعے سے گزر کر جانا ہوگا دوسری طرف اپوزیشن جماعتوں نے بھی اسلام آباد میں جلسے کا اعلان کیا ہے اس سے قبل تمام اپوزیشن سیاسی جماعتیں لاہور اور دیگر شہروں سے لانگ مارچ کی صورت میں اسلام آباد پہنچیں گی جس سے واضح طور پر سیاسی جماعتوں کے کارکنوں کو درمیان تصادم کا خطرہ نظر آرہا ہے جس کی ایک جھلک گزشتہ دنوں اسلام آباد میں دیکھنے کو ملی جب تحریک انصاف کے کارکنوں نے سندھ ہاؤس پر دهاوا بول دیا جہاں تحریک انصاف کے منحرف اراکین موجود تھے۔
تحریک عدم اعتماد پیش کرنا اپوزیشن کا آئینی حق ہے جبکہ اپنی رائے کے اظہار اور آزادانہ طریقے سے ووٹ کا استعمال ووٹر کا حق ہے مگر فلور کراسنگ کے قانون کی موجودگی میں پارٹی کے مخالفت میں سامنے آنے والا ممبر ڈی سیٹ ہوسکتا ہے مگر حکومت کے غیر منتخب مشیروں کی طرف سے جس طرح کا لب و لہجہ استعمال کیا جارہا ہے وہ انتہائی تشویشناک ہے۔ حالانکہ پارلیمنٹ کے معاملات پارلیمنٹ میں ہی حل کیے جائیں تو بہتر ہوتا ہے دلچسپ بات یہ ہے کہ ماضی میں اپوزیشن سڑکوں پر تھی اور حکومت اسے پارلیمنٹ میں بلاتی تھی آج کل اپوزیشن پارلیمٹ میں بلا رہی ہے اور حکومت سڑکوں پر جانا چاہ رہی ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں الیکٹیبلز، موقع پرست، مفاد پرست اور ضمیر فروش لوگ کسی بھی معاشرے میں کلنک کا ٹیکا ہوتے ہیں جو ہمیشہ برائے فروخت کا اشتہار بن کر ووٹ کا تقدس پامال کرتے ہیں مگر ایسا نہیں ہوسکتا کہ یہی لوگ اگر تحریک انصاف میں شامل ہونے کے لے پارٹی بدلیں تو باضمیر کہلائیں اور اگر پی ٹی آئی کو چھوڑیں تو ضمیر فروش ہوجائیں۔ ہم نے تو اس وقت بھی مخالفت کی تھی جب الیکٹیبلز دھڑا دھڑ تحریک انصاف میں شامل ہورہے تھے اور آج بھی غلط کہہ رہے ہیں جب ضمیر جاگنے کا نعرہ لگا کر دوسری جماعتوں میں جارہے ہیں حیرت تو اس بات پر کہ پہلے عمران خان نے حکومت بنانے کے لیے ان کو ساتھ ملایا اور اب حکومت بچانے کے لیے دوبارہ ان کو واپس بلایا جارہا ہے۔
ایک طرف انہیں ضمیر فروش، بکاؤ مال اور گھوڑوں خچروں سے تشبیہ دی جارہی ہے اور دوسری طرف کہا جارہا ہے صبح کا بھولا شام کو لوٹ آئے تو اسے بھولا نہیں کہتے ہیں حالانکہ سچ تو یہ ہے دوسری جماعت کے کیمپ میں چلے جانے کے بعد اگر حکومت کے دباؤ یا منت سماجت کے بعد اگر تحریک عدم اعتماد میں وزیر اعظم کے حق میں ووٹ دے بھی دیں تو ان کے ووٹ کی اخلاقی حیثیت کیا ہوگی اور اس حکومت کی کیا اخلاقی حیثیت باقی رہ جائے گی۔
بہر حال تحریک عدم اعتماد کی کوکھ سے کیا جنم لیتا ہے آنے والے دنوں میں واضح ہوجائے گا مگر اس سے پہلے قابل غور پہلو یہ ہے کہ حالات جس طرح کشیدگی اور تصادم کی طرف جارہے ہیں وہ انتہائی تشویشناک ہے ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت اپوزیشن تمام سیاسی جماعتوں اور تمام اسٹیک ہولڈر کو تحریک عدم اعتماد کے حوالے سے تمام مراحل کو آئین و قانون کے مطابق مکمل کریں اس سے پہلے کہ دیر ہوجائے اور کوئی خفیہ ہاتھ اپنا ہاتھ دکھا جائے اور تمام سیاسی جماعتیں ہاتھ ملتی رہ جائیں اگر ایسا ہوا تو نہ تو سیاستدانوں کے ہاتھ کچھ آئے گا اور نہ ہی بچی کچھی جمہوریت بچ پائے گی۔