Election Se Pehle
الیکشن سے پہلے
پاکستان میں 8 فروری کو ہونے والے انتخابات میں اب گنتی کے چند روز باقی رہ گئے ہیں۔ انتخابی مہم اپنے عروج پر ہے۔ ملک بھر میں تمام چھوٹی بڑی سیاسی جماعتیں انتخابی جلسے کر رہی ہیں۔ مگر اس بار انتخابی جلسوں کا وہ روایتی ماحول نظر نہیں آیا جو ہمارے انتخابی ماحول کا خاصہ ہوتا ہے۔
اس کی سب سے بڑی وجہ پاکستان کی ایک بڑی سیاسی جماعت پاکستان تحریک انصاف پر پے در پے لگائی گئی پابندیاں ہیں۔ کیونکہ جس وقت قوم نے سیاسی جماعتوں کی کارکردگی کو جانچ کر یہ فیصلہ کرنا تھا کہ اس نے کس جماعت یا کس امیدوار کو ووٹ دینا ہے اس وقت پوری قوم کی نظریں عدالتوں سے آنے والے فیصلوں پر لگی ہوئی تھیں۔ یہی وجہ ہے حالات کارکردگی سے کہیں زیادہ رویوں کی طرف پلٹ گئے ہیں۔ ایسا نظر آتا ہے کہ تمام عدالتیں فیصلے سنانے اور سزائیں دینے کے حوالے سے ایک پیج پر ہیں۔ کیونکہ الیکشن سے چند روز پہلے پاکستان تحریک انصاف کے بانی چیرمین عمران خان کے خلاف یکے بعد دیگرے سیفر، توشہ خانہ اور پھر عدت کیس میں سزائیں سنائی گئی ہیں۔
حالانکہ عدالتوں کے یہ فیصلے اس سے پہلے بھی آسکتے تھے یا پھر الیکشن کے بعد بھی یہ سزا سنائی جا سکتی تھی۔ مگر جس طرح جلد بازی اور 8 فروری سے پہلے پہلے یہ سزائیں سنائی گئی ہیں اس سے واضح ہوتا کہ مقصد صرف سزا دینا نہیں بلکہ الیکشن پر بھی اثر انداز ہونے کی کوشش کی گئی ہے۔ مگر یہ کوشش الٹی پڑتی نظر آرہی ہے کیونکہ ان کا خیال تھا کہ اس طرح کے فیصلے دے کر یہ ماحول بنایا جائے گا کہ عمران خان کے سیاسی مستقبل کی کہانی ختم ہوگئی ہے۔ ایسی صورت میں پاکستان تحریک انصاف کا ووٹر بدظن ہو جائے گا یا تو وہ باہر نہیں نکلے گا یا پھر کوئی تیسرا آپشن استعمال کرے گا۔
مگر یہاں صورتحال مختلف نظر آتی ہے۔ تحریک انصاف کا ووٹر بالکل بھی بدظن نظر نہیں آرہا بلکہ پہلے سے زیادہ چارج نظر آرہا ہے۔ جبکہ دلچسپ پہلو یہ بھی ہے کہ جہاں تمام سیاسی جماعتیں اپنی اپنی انتخابی مہم چلا رہی ہیں وہاں ایسا نظر آتا ہے کہ تمام ادارے، عدالتیں اور مقتدر قوتیں تحریک انصاف کے خلاف کارروائیاں کرکے در حقیقت اس کی انتخابی مہم چلا رہی ہیں۔ ایسی صورتحال میں خاموش ووٹر کی توجہ بھی تحریک انصاف کی طرف مبذول ہوگئی ہے۔ ایسے میں اب مظلومیت کا ووٹ بھی تحریک انصاف کی طرف منتقل ہونے کے امکانات بڑھ گئے ہیں۔ کیونکہ پاکستان میں تیس فیصد خاموش ووٹر ہوتا ہے جو زیادہ تر مظلومیت کی طرف جاتا ہے۔ ایسی صورتحال میں اس پہلو کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ ممکنہ طور پر 8 فروری کا فیصلہ فیصلے دینے والوں کی سوچ سے مختلف ہو سکتا ہے۔
مگر ہمارے ملک میں ایک المیہ یہ بھی ہے۔ فیصلے ووٹر کے ووٹ سے نہیں بلکہ کہیں اور سے ہوتے ہیں۔ اپنے ہوش و حواص میں ہم نے جتنے بھی انتخابات دیکھے ہیں۔ ان تمام یہ بات مشترک اور واضح ہے۔ کہ جو سیاسی جماعتیں اپنے معاملات "خواص" کے ساتھ طے کر لیتی ہیں تو ان کے انداز ہی بدل جاتے ہیں اور سرکاری مشینری اور اداروں کی جانب سے اس جماعت کے لیے دیدہ دل فرش راہ کر دیا جاتا ہے اور مخالفین کے لیے باہر نکلنا بھی مشکل بنا دیا جاتا ہے۔ مگر ایسی صورت میں جو بھی حکومتیں بنتی ہیں نہ تو وہ اپنی مدت پوری کر پاتی ہیں اور نہ اس کے نتیجے میں ملک میں سیاسی طور پر کوئی استحکام آتا ہے۔ آج الیکشن سے پہلے کی صورتحال کو دیکھ کر یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ حالات ماضی سے کہیں زیادہ گھمبیر ہیں۔ اور اس کے کیا نتائج سامنے آتے ہیں اس کا فیصلہ 8 فروری کے بعد سامنے آئے گا۔
گو کہ اس تمام صورتحال میں ووٹر کا کردار محض ووٹ ڈالنے تک محدود ہے۔ مگر پھر پانچ سال تک ووٹر کو کسی خاطر میں نہیں لایا جاتا اور پھر نہ ہی حکومتیں بنانے اور گرانے میں ووٹر کے ووٹ کو کوئی اہمیت دی جاتی ہے۔ تاہم الیکشن کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے امیدوار جس انداز سے متحرک ہوتے ہیں ایسے میں الیکشن سے پہلے کے چند دن عام آدمی کو خاص بنا دیتے ہیں۔ جس طرح کہا جاتا ہے چار دن کی چاندنی پھر اندھیری رات۔ اس طرح ووٹر کی بھی چار دن کی خوشامد اور پھر دھکوں کی بھر مار ہوتی ہے اور آجکل ووٹر کی ووٹری کے چار دن چل رہے ہیں۔ ہر طرف سے ووٹر کی خوشامد ہوربی ہے کوئی ووٹر سے ہمدردی کر رہا ہے کوئی دکھ درد بانٹ رہا ہے کوئی مسائل سن رہا ہے کوئی مسائل کے حل کی یقین دہانی کرا رہا ہے۔ کوئی قسمت بدلنے کی بات کر رہا ہے کوئی تقدیر بدلنے کا کہہ رہا ہے کوئی روزگار دینے کی بات کررہا ہے کوئی انصاف کی یقین دہانی کروا رہا ہے کوئی مہنگائی کم کرنے کی بات کر رہا۔
مگر یہ سب 8 فروری تک ہے اس کے بعد یہ سب باتیں دعوے وعدے اور ہمدردیاں کرنے والے ایسے غائب ہوجائیں گے جیسے گدھے کے سر سے سینگ غائب ہو جاتے ہیں۔ اس ملک کا سب سے بڑا المیہ یہی ہے کہ ووٹر کی اہمیت ٹشو پیپر سے بڑھ کر نہیں جسے پولنگ ڈے تک استعمال کیا جاتا ہے اور پھر ڈسٹ بین میں پھینک دیا جاتا ہے۔ ہارنے والے اس لیے نزدیک نہیں آتے کہ وہ ہار گئے ہیں اور جیتنے والوں کے پاس فرصت ہی نہیں ہوتے کہ ووٹر سے کئے گئے وعدے پورے کریں۔
سچ تو یہ ہے جب تک اس ملک کی سیاسی جماعتیں عام عوام اور ووٹرز کے ساتھ اس طرح کا رویہ رواء رکھتی رہیں گی۔ جب تک ووٹر کے بجائے "سپورٹرز" کے سہارے حکومتیں حاصل کرتی رہیں گی، جب تک آئین و قانون کے بجائے مرضی اور ضرورت کے مطابق فیصلے دئیے جاتے رہیں جب تک الیکشن میں حصہ لینے والی جماعتوں کے لیے دوہرا معیار اپنایا جاتا رہے گے، جب تک الیکشن سے پہلے سلیکشن کی جاتی رہے گی اور جمہوریت کے نعرے مارنے والے لوگ غیر جمہوری قوتوں کے آلہ کار بنتے رہیں گے اس وقت تک چاہے جتنے الیکشن ہو جائیں جتنی بھی حکومتیں تبدیل ہوجائیں جتنے بھی وزیر اعظم بدل دئیے جائیں اس وقت تک نہ تو ملک و قوم کی حالت بدل سکتی ہے اور نہ ہی اس ملک میں حقیقی جمہوریت قائم ہوسکتی ہے۔