DC Layyah Aur Tabdeeli
ڈی سی لیہ اور تبدیلی
ملک کے ممتاز مزاح نگار مشتاق احمد یوسفی مرحوم لکھتے ہیں کہ" ہمارے ملک میں سرکاری ملازم کام نہ کرنے کی تنخواہ لیتے ہیں اور کام کرنے کی رشوت لیتے ہیں "۔ یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس سے کوئی بھی انکار نہیں کر سکتا کہ، افسر شاہی ایک الگ شاہی ہوتی ہے۔ ہر سرکاری ملازم کی اپنی ایک حکومت ہوتی ہے اور اپنی ایک ریاست ہوتی ہے، جس میں کوئی بھی پوچھنے والا نہیں ہوتا۔ کلرک بادشاہ سے ڈی سی تک ہر اہلکار اپنے اختیار سے کہیں زیادہ بااختیار ہوتا ہے، افسر تو افسر ہوتے ہیں مگر عوام کے لیے تو سرکاری چپڑاسی بھی افسر ہوتا ہے۔
عوام کے ٹیکسوں کے پیسوں سے تنخواہ لینے والے سرکاری اہلکار ہوتے تو عوام کے ملازم ہیں، مگر وہ عوام کو اپنی رعایا سمجھتے ہیں۔ حالانکہ عوام کی خدمت کرنا، مسائل حل کرنا اور دفتری معاملات میں آسانیاں پیدا کرنا، سرکاری ملازمین کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ مگر کوئی بھی اہلکار اپنی ذمہ داری، ذمہ داری سے ادا نہیں کرتا بلکہ دانستہ طور پر عوام کے لیے مشکلات پیدا کی جاتی ہیں۔ سرکاری اہلکاروں کی یہی کام چوری اور رشوت ستانی اس قدر ہمارے معاشرے اور روز مرہ معمولات میں سرائیت کر چکی ہے کہ، عام لوگ پہلے تو کوشش کرتے ہیں کہ کسی سرکاری دفتر میں جانا ہی نہ پڑے، اور اگر باامر مجبوری کسی دفتر میں جانا بھی پڑے، تو عام لوگ سب سے پہلے رشوت اور سفارش کا بندوبست کرتے ہیں۔
سرکاری دفاتر میں رشوت اور سفارش دو ایسے پہیے ہیں، جن کے بغیر کوئی فائل ایک انچ بھی آگے نہیں بڑھ سکتی ہے۔ سرکاری اہلکاروں کی مٹھی اور جیب گرم ہوتی ہے، تو نہ ہوسکنے والے کام بھی ہونا شروع ہوجاتے ہیں۔ ایسی صورتحال میں جب سرکاری دفاتر میں سرکاری ملازمین کی کام چوری، سست روی، غفلت، نااہلی اور غیر ذمہ داری ایک عام سے بات ہو اور اچانک کوئی سرکاری اہلکار یا کوئی افسر کام کرنا شروع کر دے، اور ذمہ داری سے بڑھ کر ذمہ داری ادا کرنا شروع کر دے، تو خوشگوار حیرت تو ہوتی ہے۔ لیہ میں آج کل کچھ ایسی ہی صورتحال ہے، حال ہی میں تعینات ہونے والے ڈپٹی کمشنر شہباز حسین موضوع بحث بنے ہوئے ہیں، مقامی سطح پر اخبارات اور سوشل میڈیا پر ان کا تذکرہ ہورہا ہے۔
شہباز حسین، اپنے پیش رو او ایس ڈی بنا دئیے جانے والے اظفر ضیاء کی جگہ تعینات ہوئے ہیں۔ ڈپٹی کمشنر کا چارج سنبھالنے سے پہلے جب شہباز حسین لیہ کی حدود میں داخل ہوئے، تو انھوں نے لیہ کی پسماندہ ترین تحصیل چوبارہ کے تحصیل ہسپتال کا ایک شہری کی حیثیت سے وزٹ کیا، اور اس موقع پر غیر حاضر اور غیر اخلاقی رویہ اپنانے والے ملازمین کو برطرف کیا۔ جبکہ چارج سنبھالنے کے بعد انھوں نے ڈسٹرکٹ ہسپتال، تھل ہسپتال کروڑ لعل عیسن سمیت مختلف ہسپتالوں کے دورے کیئے اور صحت کی سہولیات کا جائزہ لیا۔ اس کے ساتھ ساتھ ڈپٹی کمشنر صبح سویرے شہر کی مختلف شاہراؤں اور مختلف گلیوں، محلوں کے دورے کر کے صفائی کی صورتحال کا مسلسل جائزہ لے رہے ہیں۔
جبکہ انھوں نے مہینہ صفائی مہم کا آغاز بھی کیا ہے، جس کی وجہ سے عملہ صفائی مسلسل اپنے کام میں مصروف نظر آتا ہے۔ شہر کی صورتحال بہتر ہورہی ہے، مہینوں سے مختلف سڑکوں اور گلی محلوں میں پڑا کوڑا اٹھایا جارہا ہے۔ ڈپٹی کمشنر نے شہر کے پارکوں کا بھی وزٹ کیا اور سہولیات بہتر کرنے کی ہدایت کی، جبکہ جنرل بس اسٹینڈ سمیت شہر بھر سے تجاوزات کے خاتمے کی ہدایت کی ہے۔ اصولی طور پر یہ تمام کام ڈپٹی کمشنر کی ذمہ داری میں شامل ہیں۔ تمام محکمے براہ ِراست ان کے ماتحت کام کرتے ہیں۔ ان کے کام کا جائزہ لینا، ہدایات جاری کرنا اور کام میں سستی کرنے والے اہلکاروں کی سرزنش کرنا، ان کے فرائض اور ذمہ داری میں شامل ہے۔
مگر کیونکہ ہمارے ہاں ذمہ داری پوری کرنے کا کوئی کلچر نہیں، تو ایسے میں ڈپٹی کمشنر کے ان اقدامات کو سراہا جارہا ہے اور یہ توقع کی جارہی ہے کہ، ڈپٹی کمشنر کے یہ اقدامات صرف یہیں تک محدود نہیں رہیں گے۔ شہر کے گرین بیلٹ کو قبضہ گروپوں سے واگزار کرائیں گے، سرکاری محکموں سے رشوت، کرپشن کے خاتمے کے لیے سخت اقدامات کریں گے، اور شہر کی خوبصورتی اور تعمیر و ترقی اور خوشحالی کے لیے بھی اپنا بھر پور کردار ادا کریں گے۔ کسی بھی حکومت کو کامیاب کرنے یا ناکام کرنے میں، بیوروکریسی اور سرکاری مشینری کا بڑا اہم کردار ہوتا ہے۔
حکومت چاہے جتنے بھی اچھے فیصلے کر لے، مگر اس کے اثرات اس وقت تک عام آدمی تک نہیں پہنچیں گے، جب تک نچلی سطح پر تحصیل اور ضلعی انتظامیہ ایمانداری سے کام نہیں کرے گی۔ ہم تو پہلے بھی کئی بار انہی صفحات پر عرض کر چکے ہیں کہ، تبدیلی وہ نہیں ہوتی جو کاغذوں میں بتائی جاتی ہے، دعوؤں میں بتائی جاتی ہے اور وہ تبدیلی یا ترقی ہو ہی نہیں سکتی جو تقریروں اور پریس کانفرنسز کے زریعے بتانی پڑے، تبدیلی تو وہ ہوتی ہے جو عوام کے چہروں سے نظر آئے۔ خوشحالی تو وہ ہوتی ہےجو لوگوں کے رویوں سے نظر آئے، ترقی تو وہ ہوتی ہے جو حکومت کی کارکردگی سے نظر آئے۔
آج کل سرکاری دفاتر اور شہر میں ٹی ایم اےکے عملے کو مستعد دیکھتا ہوں، تو امید کرتا ہوں کہ تبدیلی آسکتی ہے۔ پاکستان تحریک ِانصاف جو اپنے منشور اور تبدیلی کے دعوؤں میں مسلسل ناکام نظر آتی ہے، اگر وہ ہر ضلعے میں اچھے ایماندار اور مخلص افسر ہی تعینات کر دے تو کم از کم کچھ حد تک تو تبدیلی آسکتی ہے۔