Cholistan Ki Ardas Aur Behis Hukmran
چولستان کی ارداس اور بے حس حکمران
ملک بھر میں پچھلے کئی ہفتوں سے پڑنے والی شدید گرمی نے جہاں ہر زی روح کو تڑپا کر رکھ دیا ہے وہاں سب سے زیادہ سنگین صورتحال کا سامنا صحرائے چولستان اور اس کے باسیوں کو ہے۔ جنوبی پنجاب کے اضلاع بہاول پور، بہاول نگر اور رحیم یار خان سے ملحقہ 29 ہزار مربع کلو میٹر پر مشتمل پاکستان کے سب سے بڑے صحرا چولستان کو پیاس کا صحرا بھی کہا جاتا ہے۔
معمول سے زیادہ گرمی، بارشیں نہ ہونے، نہروں کی بندش اور پانی کے ٹوبے خشک ہو جانے کی وجہ سے چولستان میں بھوک، پیاس اور موت کا رقص جاری ہے، آنے والی خبروں کے مطابق اب تک سینکڑوں مویشی ہلاک ہو چکے ہیں اور چولستانی پانی کی تلاش میں مارے مارے پھر رہے ہیں، خشک سالی اور غذائی قلت کی وجہ سے لوگ نقل مکانی کرنے پر مجبور ہو چکے ہیں، ہر روز سنگین ہوتی صورتحال کسی بڑے انسانی المیے کو جنم دے سکتی ہے۔
یہ بات درست ہے کہ چولستان میں خشک سالی، پانی کی قلت، مویشیوں کی ہلاکت اور چولستانیوں کی بے بسی کوئی نئی بات نہیں مگر سوال یہ ہے کہ آخر کب تک ہم اس طرح کی سنگین صورتحال سے دوچار رہیں گے؟ کب تک ہمارے صحراؤں میں موت کا رقص جاری رہے گا؟ کب تک تھل کے لوگ بنیادی سہولیات کے لیے حکمرانوں کی راہ تکتے رہیں گے؟ کب تک تھر میں زندگی تھر تھر کانپتی رہے گی؟ کب تک روہی کے معصوم چند گھونٹ پانی کے لیے میلوں سفر کرتے رہیں گے؟
کب تک چولستانی پانی کی بوند بوند کو ترستے رہیں گے؟ کب تک ہمارے صحراؤں کی مٹی زندوں کا قبرستان بنتی رہے گی؟ دنیا کہاں سے کہاں پہنچ گئی ٹیکنالوجی کے اس دور میں ایسا کون سا کام ہے جو ناممکن ہو اگر ہم اپنے ہمسائے میں بھارت کو ہی دیکھ لیں جس نے چولستان سے ملحقہ صحرا جو بھارت کے حصے میں ہے اسے راجستھان کہا جاتا ہے وہاں کی حکومت نے اندراگاندھی نہر کے ذریعے پورے راجستھان کو نخلستان میں بدل دیا ہے۔
جہاں چولستان کی نسبت کئی گنا زیادہ ترقی، خوشحالی اور آسودگی ہے جبکہ کبھی وہاں کے لوگوں کو اس طرح کی خشک سالی کا سامنا بھی نہیں کرنا پڑا۔ اسی طرح اسرائیل جس کا ستر فی صد رقبہ صحرا پر مشتمل ہے مگر انھوں نے اپنے صحراؤں کو قابل کاشت بنایا اور آبپاشی کے جدید نظام ڈراپ ایری گیشن سسٹم کے ذریعے نہ صرف اپنی زراعت کو مضبوط کیا بلکہ ہر قسم کی سبزیاں اور پھل برآمد کر کے اپنی معیشت کو مضبوط بھی کر رہا ہے۔
اسی طرح دبئی کو دیکھ لیں آج سے چالیس سال پہلے کیا تھا مگر آج دنیا کی ہر سہولت وہاں موجود ہے۔ مگر ہم کہاں کھڑے ہیں؟ لکھتے ہوئے بھی شرم آتی ہے کہ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ ہم اپنے صحراؤں کو بنیادی سہولیات سے آراستہ کرتے صحرائی اراضی کو کار آمد بناتے، صحراؤں میں پانی پہنچانے کے لیے پائپ لائنیں بچھاتے یا نئی نہریں نکالتے مگر ہمارے حکمران تو پورے ملک کو صحرا بنانے پر تلے ہوئے ہیں اس وقت پانی کی کمی پورے ملک کا مسلہ بن چکا ہے۔
زیر زمین پانی کی سطح مسلسل نیچے گر رہی ہے، ہمارے دریا خشک ہو رہے ہیں، نئے ڈیمز کی تعمیر سست روی کا شکار ہے آبی ماہرین 2025 میں پانی کے شدید بحران کے خدشے کا اظہار کر چکے ہیں مگر ہمارے حکمرانوں کے کانوں میں جوں تک نہیں رینگتی۔ ملک میں اقتدار کی جنگ چل رہی ہے، کان پڑی آواز سنائی نہیں دیتی جس کی طرف دیکھو وہ ملک کا سب سے بڑا خیر خواہ ہے مگر پاکستان کے بنیادی مسائل سے کسی کو کوئی غرض نہیں۔
کوئی اقتدار میں آنے کے لیے لڑ رہا ہے، کوئی اقتدار کو بچانے کے لیے لڑ رہا، عوام مہنگائی کے طوفان سے لڑ رہے ہیں اور چولستانی موت سے لڑ رہے ہیں مگر کسی حکومت اور کسی سیاسی جماعت کو اس سے کوئی غرض نہیں۔ مسلم لیگ نواز چوتھی بار اقتدار میں موجود ہے جبکہ پاکستان تحریک انصاف کے ساڑھے تین سالہ اقتدار کو دیکھ لیں یا پیپلز پارٹی کے تین مرتبہ کی حکومتوں کو سامنے رکھیں تو تھر، تھل اور چولستان کسی کی ترجیح نظر نہیں آتی۔
یہی وجہ ہے ہر چند سال بعد خشک سالی، غذائی قلت، پانی کی کمی اور ادویات کی کمی کے نتیجے میں سینکڑوں قیمتی جانیں ضائع ہو جاتی ہیں۔ ماضی میں جنرل پرویز مشرف کے دور میں چولستان میں پانی کی سپلائی کے لیے پائپ لائن بچھائی گئی تھی خبروں کے مطابق یہ پائپ لائن بھی مناسب دیکھ بھال نہ ہونے کی وجہ سے ناکارہ ہوچکی ہے، دوسری طرف چولستان 1700 کے قریب وہ ٹوبے ہیں جو بارش کا پانی ذخیرہ کرنے کے کام آتے ہیں۔
جنہیں انسان اور جانور مشترکہ طور پر استعمال کرتے ہیں مگر یہ تمام ٹوبے بھی خشک ہو چکے ہیں جبکہ چولستان کے آبادی والے علاقوں کو سیراب کرنے والی تینوں نہریں سلاری، ڈاہری اور ڈیراور بھی دھول اڑا رہی ہیں۔ ویسے بھی یہ نہریں سال بھر نہیں چلائی جاتیں مگر آج جب چولستانی پانی کی بوند بوند کو ترس رہے ہیں ایسی اذیت ناک صورتحال میں بھی اگر یہ نہریں نا چلائی جائیں تو ان کے ہونے نہ ہونے کا کیا فائدہ ہے؟
حکومت پنجاب ہر سال کروڑوں روپے خرچ کر کے چولستان جیپ ریلی منعقد کرتی ہے جس کا مقصد ٹورازم کا فروغ اور دنیا بھر میں چولستان کی ثقافت کو اجاگر کرنا بتایا جاتا ہے مگر اس سے پہلے تھل اور چولستان کے لوگوں کو بنیادی سہولیات کی فراہمی اور خشک سالی کے خاتمے کے لیے اقدامات کرنے کی بھی ضرورت ہے حیرت تو اس بات پر ہے کہ جیپ ریلی کے امیر زادوں اور پرندوں کے شکار کے لیے آنے والے غیر ملکی شہزادوں کی عیاشی کے لیے تو سب کچھ مہیا ہو جاتا ہے مگر مقامی لوگوں کو پانی فراہم کرنے کے لیے حکومت کے پاس فنڈ ہی نہیں؟
کاش جیپ ریلی کے امیر زادوں اور پرندوں کا شکار کرنے والے غیر ملکی شہزادوں کو کوئی بتا دے کہ ان کی مہمان نوازی کرنے والے چولستانی پانی کی ایک ایک بوند کی عیاشی کے لیے ترس رہے ہیں مگر کہاں جب ہمارے اپنے حکمران بے حس ہو چکے ہیں تو کسی اور کو کیا احساس ہونا ہے؟ اب جبکہ سینکڑوں مویشیوں کی ہلاکت اور لوگوں کی چیخ و پکار کے بعد حکومت نے کچھ حد تک ریلیف کے کام کا آغاز کر دیا ہے۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ حکومت کو چولستان کا مسلہ مستقل بنیادوں پر حل کرے کیونکہ چولستانیوں کو پانی بوتلوں میں نہیں نہروں میں چاہئے۔ جب پوری دنیا اپنے صحراؤں پر خصوصی توجہ دے کر انہیں سر سبز بنا سکتی ہے تو ہمارے حکمرانوں کو بھی اس پر غور کر لینا چاہئے مگر کہاں پچھلے کچھ عرصے سے ہماری سیاست اور جمہوریت جس طرح اخلاقی طور پر بنجر ہوتی دکھائی دے رہی ہے خدشہ ہے کہ چولستان کی خشک سالی دور کرنے کے بجائے کہیں یہ لوگ پورے ملک کو ہی بنجر نہ کر ڈالیں۔