Attay Ka Mazak Nahi Saheb
آٹے کا مذاق نہیں صاحب
وطن عزیز کی سیاست، ریاست اور حکومت میں وعدوں، دعووں، بیانات اور اعلانات کے کالے بادل اس قدر گہرے ہیں۔ کہ یقین کا سورج نظر آنا مشکل ہی نہیں ناممکن دکھائی دیتا ہے۔ ہر حکومت کی كاركردگی بیانات سے شروع ہو کر اعلانات پر ختم ہو جاتی ہے۔ جبکہ غریب عوام کے شب و روز ایک نئی امید سے شروع ہوتے ہیں اور ایک نئی مایوسی کے ساتھ ختم ہو جاتے ہیں۔
ہر حکومت عوام کو طوفانوں سے بچانے کے نام پر اقتدار میں آتی ہے اور پھر طوفانوں کے رحم و کرم پر چھوڑ کر چلتی بنتی ہے۔ گزشتہ ستر برسوں سے یہی مذاق چل رہا ہے۔ روٹی کپڑا مکان کا مذاق، بھوک غربت بے روزگاری کے خاتمے کا مذاق، قرض اتارو ملک سنوارو کا مذاق، سب سے پہلے پاکستان کا مذاق۔ المیہ تو یہ ہے کہ ہر بار کا مذاق پہلے سے کہیں زیادہ سنگین اور جان لیوا ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ غریب اور عام آدمی سمجھ ہی نہیں پاتا کہ اس کے ساتھ کیا ہوا ہے۔
ستر سال کی یہ سنگین کہانی آج خطرناک رخ اختیار کر چکی ہے۔ ایک پہر کے کھانے کے لیے چار پہر پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں اور اس کے باوجود روٹی کا حصول ناممکن ہے۔ شدید معاشی بحران، ڈالر کی اڑان، منہ زور مہنگائی اور آٹے کی قلت کے دوران گزشتہ روز وزیر اعظم کی طرف سے یہ بیان جاری ہوا کہ رمضان پیکج کے تحت غریب اور مستحق گھرانوں کو مفت آٹا فراہم کرنے کی منظوری دے دی گئی ہے۔ بیان میں کہا گیا کہ غریب گھرانوں کو مفت آٹے کی فراہم کا یہ اپنی نوعیت کا پہلا پیکج ہے۔
پہلے مرحلے میں صوبہ پنجاب میں غریب ترین لوگوں کو خصوصی رمضان پیکج کے تحت مفت آٹا فراہم کیا جائے گا۔ اور یہ کہ حکومت روزہ داروں کو زیادہ سے زیادہ ریلیف دینا چاہتی ہے۔ یہ خبر پڑھ کر بے حد خوشی ہوئی کہ وزیر اعظم نے غریب لوگوں کے لیے مفت آٹے کی فراہمی کا اعلان کیا ہے۔ جس سے غریب لوگوں کو کچھ حد تک ریلیف مل جائے گا۔ یہ مفت آٹا کیسے ملے گا، غریب کا تعین کیسے ہوگا، کون کرے گا اور کیا گھر گھر پہنچایا جائے گا یا گھر بھر کو بھاگ دوڑ کرنی پڑے گی۔
اس بارے کچھ واضح نہیں، حکومت کی حکمت عملی کیا ہے، ابھی مکمل خاموشی ہے۔ مگر اس سے پہلے آج جب ہم ملک بھر میں آٹے کے بحران کی سنگین صورتحال کو دیکھتے ہیں۔ تو یہ خدشات سر اٹھانے لگتے ہیں۔ کہ آج جب پیسے دے کر بھی آٹے کا حصول ناممکن ہے تو مفت آٹے کی فراہمی کو کیسے یقینی بنایا جائے گا؟ گو کہ حکومت کے لیے کچھ بھی ناممکن نہیں ہوتا مگر، آج آٹے کی قلت کے دوران سستے آتے کی فراہمی کی صورتحال یہ ہے۔
حکومت نے ہر شہر میں مختلف ٹریکنگ پوائنٹ بنائے گئے ہیں۔ جہاں پر سینکڑوں ہزاروں کی تعداد میں کھڑے حال سے بے حال لوگ حکومت کی پلاننگ اور حکمت عملی کا منہ چڑاتے نظر آتے ہیں۔ یہ بات درست ہے کہ پاکستان زراعت کے لیے وسیع و عریض رقبہ رکھنے والے دس بڑے ممالک میں شامل ہے۔ اور سب سے زیادہ گندم پیدا کرنے والا آٹھواں بڑا ملک ہے۔ مگر افسوس ناک پہلو یہ ہے، پاکستان غذائی قلت کے حوالے سے بھی ان چند ممالک میں شامل ہے۔
جن کی کثیر آبادی غذائی قلت کا شکار ہے۔ تھر، چولستان کی خشک سالی اور سیلاب کے نتیجے میں جنم لینے والی غذائی قلت اپنی جگہ مگر پاکستان بھر کا کوئی شہر ایسا نہیں جہاں غریب اور مفلوک الحال لوگ ایک وقت کے لیے سارا سارا دن ذلیل نہ ہوتے ہوں۔ کیونکہ اس وقت غریب کے لیے سب سے بڑا مسلہ آٹے کا حصول ہے۔ اس کا سب سے بڑا سبب رٹ آف دی گورنمنٹ ہے۔
یقیناً درپیش معاشی بحران کی وجہ سے اشیاء خورد و نوش عوام کی پہنچ سے دور ہو چکی ہیں، مگر آٹے کا تو یہ عالم ہے کہ پیسے دے کر بھی اس کا ملنا محال ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ملک میں حکومت نام کی کوئی چیز نہیں، جس کا جب جی چاہتا ہے، قیمتیں بڑھا دیتا ہے۔ جبکہ آنے والے دنوں، خاص طور پر رمضان کے مہینے میں تو ان قیمتوں میں مزید کئی گنا اضافہ ہونے کا امکان ہے۔
ایسی صورتحال میں جب حکومت نے رمضان میں مفت آٹا فراہم کرنے کا اعلان کیا ہے۔ اللّه کرے بہتر انداز میں اس اعلان پر عمل درآمد بھی ہو جائے۔ مگر اس سے پہلے حکومت کو یوٹیلٹی سٹورز پر اپنے اعلانات اور اقدامات کا بھی جائزہ لے لینا چاہئے۔ جہاں حکومت 19 اشیاء ضروریہ پر سبسڈی دے کر عوام کو ریلیف دینے کا اعلان کر چکی ہے۔ مگر اس پر کتنا عمل درآمد ہو رہا ہے۔ اس کا اندازہ شاید حکمرانوں کو نہیں ہو پائے گا۔
انہیں کیا معلوم لائن میں لگ کر گھی چینی خریدنا کتنا اذیت ناک ہے۔ وہ کیا جانیں شناختی کارڈ دیکھا کر آٹا خریدنا کتنا ذلت آمیز ہے۔ ہاں مگر غریب اور بے بس لوگوں کے پاس اس ذلت آمیز اذیت کی درجنوں نہیں سینکڑوں کہانیاں ہیں۔ گھنٹوں قطاروں میں کھڑے رہنے کے بعد جب کاؤنٹر پر پہنچتے ہیں تو کبھی چینی غائب، کبھی گھی نایاب اور کبھی آٹا نادرد اور پھر ایک یوٹیلٹی سٹور سے دوسرے یوٹیلٹی سٹور تک دن اسی پریشانی میں گزر جاتا ہے کہ آج بچوں کے کھانے کا کیا بنے گا۔
ایسی صورتحال میں حکومت کی طرف سے رمضان میں مفت آٹے کی فراہمی کا اعلان خوش آئند ضرور ہے۔ مگر یہ کس طرح ممکن ہوگا اور اس کا طریقہ کار کیا ہوگا، اس کا جواب فی الحال تو ملتا دکھائی نہیں دیتا۔ مگر اس سے قبل سستے آٹے کی فراہمی کے طریقہ کار کو دیکھتے ہیں تو ڈر لگتا ہے کہ غریب عوام کے ساتھ ایک بار پھر مذاق نہ ہو جائے۔ کیونکہ اس سے قبل غریب عوام کو ریلیف دینے کے جتنے بھی اعلانات ہوئے، ان سے ریلیف کم اور تکلیف زیادہ ملی ہے۔
مگر پھر بھی ہم حکمرانوں سے گزارش کریں گے کہ آپ نے غریب عوام کے ساتھ ریلیف کے نام پر جتنے مذاق کر لیے سو کر لیے مگر آٹے کا مذاق نہ کیجئے گا صاحب، اگر بھوک کا لاوا کبھی پھٹ پڑا تو تمہیں منہ چھپانے کی جگہ بھی نہیں ملے گی۔