Arhai Saal Baad
اڑھائی سال بعد
پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کا نصف دورانیہ پورا ہونے کے بعد آنے والے ضمنی انتخابات کے نتائج نے مستقبل کا نقشہ واضح کر دیا ہے عام طور پر ضمنی انتخابات میں حکومتی امیدوار ہی کامیابی حاصل کرتے ہیں مگر 19 فروری کو پنجاب اور خیبر پختون خواہ کے دو قومی اور دو صوبائی حلقوں میں ہونے والے ضمنی انتخابات میں تین نشستوں پر اپوزیشن جماعت پاکستان مسّلم لیگ ن کو برتری حاصل ہے جبکہ ایک پر پاکستان تحریک انصاف نے کامیابی حاصل کی خاص طور پر کے پی کے ضلع نوشہرہ میں پاکستان تحریک انصاف کا گڑھ سمجھے جانے والے حلقے میں پاکستان مسّلم لیگ ن کے امیدوار کی کامیابی نہ صرف ایک بڑا اپ سیٹ ہے بلکہ پاکستان تحریک انصاف کے لیے نوشتہ دیوار بھی ہے۔
پنجاب اسمبلی کی نشست پی پی 51 وزیر آباد مسلم لیگ ن کے ایم پی اے شوکت منظور چیمہ کی وفات کے باعث خالی ہوئی تھی یہاں مسلم لیگ ن نے مرحوم ایم پی اے کی بیوہ بیگم طلعت منظور چیمہ کو اپنا امیدوار نامزد کیا جبکہ پاکستان تحریک انصاف نے چوہدری محمد یوسف کو میدان میں اتارا جو کہ بیگم طلعت منظور سے 5 ہزار سے زائد ووٹوں سے شکست سے دوچار ہوۓ۔
سیالکوٹ میں پاکستان مسلم لیگ ن کے ایم این اے سید افتخار حسین شاہ کے انتقال کے باعث خالی ہونے والی نشست این اے 75 ڈسکہ میں مسلم لیگ نے مرحوم ایم این اے کی صاحبزادی سیدہ نوشین افتخار کو اپنی امیدوار نامزد کیا جبکہ ان کے مقابلے میں علی اسجد ملہی پاکستان تحریک انصاف کے امیدوار تھے یہ وہ حلقہ ہے جسے حکومت اور اپوزیشن دونوں نے انا کا مسئلہ بنا لیا جس کی وجہ سے انتخابی مہم کے دوران اس حلقے میں مسلسل کشیدگی دیکھنے کو ملی جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ پولنگ کے روز فائرنگ کے نتیجے میں دو معصوم قیمتی جانیں ضائع ہوگئیں جو کہ ہماری سیاسی غیر سنجیدگی اور سیاست میں در آنے والی شدت پسندی کی عکاسی کرتی ہیں اس کی جتنی بھی مزمت کی جائے کم ہے حکومت اپوزیشن انتظامیہ الیکشن کمیشن سمیت کسی کو بھی بری الزمہ قرار نہیں دیا جاسکتا دوسری طرف اسی حلقے میں مبینہ طور پر 23 پولنگ اسٹیشنوں کا عملہ غائب ہونے اور تاخیر سے پہنچے پر اس کا نتیجہ روک دیا گیا ہے جبکہ غیر حتمی اور غیر سرکاری نتائج کے مطابق یہاں مسلم لیگ ن کو 4 ہزار ووٹوں کی برتری حاصل ہے تاہم حکومت اور اپوزیشن دونوں اپنے اپنے امیدواروں کی کامیابی کے دعوے کر رہے ہیں۔
اسی طرح خیبر پختون خواہ کے ضلع نوشہرہ میں ایم پی اے تحریک انصاف میاں جمشید الدین کی وفات کے باعث خالی ہونے والی نشست پی کے 63 میں پی ٹی آئی نے میاں عمر کاکا خیل کو اپنا امیدوار نامزد کیا جبکہ پاکستان مسلم لیگ ن سے تعلق رکھنے والے میاں اختیار ولی خان پی ڈی ایم کے مشترکہ امیدوار تھے یہاں بڑا اپ سیٹ دیکھنے کو ملا کیونکہ نوشہرہ کو پاکستان تحریک انصاف کا گڑھ سمجھا جاتا ہے اور پھر پاکستان تحریک انصاف دوسری بار کے پی میں حکومت میں ہے اس کے باوجود اپنی نشست نہ بچا سکی تاہم ضلع کرم کے حلقہ این اے 45 کرم ون میں جمیعت علمائے اسلام ف سے تعلق رکھنے والے منیر خان اورکزئی کی وفات سے خالی ہونے ولی نشست پاکستان تحریک انصاف کے فخر زمان نے جیت لی یوں دو قومی اور دو صوبائی حلقوں میں ہونے والے ضمنی انتخابات میں اپوزیشن جماعت مسلم لیگ ن کو تین نشستوں پر برتری حاصل ہے تحریک انصاف صرف ایک نشست جیت سکی اور ایک سے ہاتھ دھو بیٹھی۔
2023 کے خواب دیکھنے اور دکھانے ولی پاکستان تحریک انصاف کے لیے حالیہ ضمنی انتخابات ایک آئینہ ہیں اگر وہ اپنے مستقبل کا عکس دیکھنا چاہے کیونکہ حکومتی مشینری، سرکاری وسائل، ترقیاتی منصوبے، فنڈز کے باوجود اگر تحریک انصاف نمایاں کامیابی حاصل نہیں کر سکی تو اسے اپنی حکمت عملی اور کارکردگی کا از سر نو جائزہ لینا چاہئے گو کہ یہ بات درست ہے پنجاب میں مسلم لیگ ن کی گہری جڑیں ہیں اور اس کی یہ کامیابی بھی اپنی ہی نشستوں پر ہوئی ہے مگر کیا اس حقیقت کو نظر انداز کیا جاسکتا ہے کہ پاکستان تحریک انصاف اپنے اڑھائی سالوں میں کوئی ایسی متاثر کن کارکردگی سامنے نہیں لا سکی جس سے وہ مسلم لیگ کے قلعے میں دراڑ ڈال سکتی ایسی صورتحال میں جب اپوزیشن مکمل فعال نظر آتی ہے اور حکومت کی کارکردگی کو مسلسل تنقید کا نشانہ بنا رہی ہے ایسے میں اگر حکومت نے عوام کے بنیادی مسائل کو نظر انداز کیا اور عام لوگوں حالت زار میں بہتری کے لیے کوئی اقدامات نہ کئے تو اس بات کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ 2023 میں پی ٹی آئی کو کوئی قوت بھی شکست سے نہیں بچا سکتی اور یہ نوشہرہ کا حلقہ اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ اب عوام کو جھوٹے وعدوں اور دلفریب سپنوں سے زیادہ دیر تک دھوکے میں نہیں رکھا جا سکتا۔
اب بھی وقت ہے پاکستان تحریک انصاف کی حکومت اپنے بچ جانے والے اڑھائی سال میں اپنی ساکھ بچا سکتی ہے اپنی کارکردگی بہتر کر کے عوام کے دل جیت سکتی ہے پچاس لاکھ گھر اور ایک کروڑ نوکریاں بھلے نہ دیں مگر عوام کو سانس لینے جوگا تو رہنے دیں لوگوں کو اس مہنگائی کے طوفان سے تو نجات دلا دیں پاکستان تحریک انصاف کے ذمہ داروں کو اگر خوشامد اور خوشامدیوں سے نجات مل جائے تو کبھی اس بات پر بھی غور کر لیں کہ اڑھائی سال کی کارکردگی اگر آپ کو اڑھائی سیٹیں نہیں جتوا سکی تو ایسی ہی پانچ سال کی کارکردگی سے آپ اگلے پانچ سال کے خواب کس خوش فہمی میں دیکھ رہے ہیں۔۔ سوچئے گا ضرور۔۔۔ !