Friday, 19 April 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Mazhar Khokhar/
  4. Akhir Kab Tak? (2)

Akhir Kab Tak? (2)

آخر کب تک؟ (2)

وہی پرانی کہانی ہے وہی پرانی باتیں ہیں۔ خزانہ خالی ہے ملک دیوالیہ ہونے کے قریب ہے، آئی ایم ایف سے قرض نہ لیا گیا تو معاشی صورتحال بگڑ سکتی ہے یہ سب باتیں کوئی نئی نہیں، جب سے ہوش سنبھالا ہے ہر آنے والی حکومت سے یہی سنتے آئے ہیں کہ سابقہ حکومت کی غلط معاشی پالیسیوں کی وجہ سے قومی خزانہ خالی ہو چکا ہے۔ جب پی ٹی آئی کی حکومت اقتدار میں آئی تو اس نے بھی ہمیں ایسی ہی کہانیاں سنائیں تھیں۔

اس سے قبل بھی ہر حکومت اقتدار میں آتے ہی پہلا رولا یہی ڈالتی رہی کہ لٹ گئے، کھا گئے کچھ نہیں بچا، خزانہ خالی ہے مگر خزانہ خالی ہو کر بھی ان کے خالی پیٹ اس طرح بھرتا رہا کہ ان کی نسلیں سنور گئیں اور پوری قوم کی آنے والی نسلیں مقروض ہو گئیں۔ البتہ ایک بات ماضی سے کہیں زیادہ مختلف اور تشویش ناک ہے کہ پہلے تمام سیاسی جماعتیں اور ہر آنے والی حکومت یہ چورن بیچا کرتی تھیں کہ ہم ملک اور قوم کو قرضوں سے نجات دلائیں گے اور آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک سے جان چھڑائیں گے۔

اس حوالے سے مسلم لیگ ن نے 1998 میں قرض اتارو ملک سنوارو کی مہم چلائی جس میں ہر شخص نے اپنی حیثیت سے بڑھ کر حصہ ڈالا یہاں تک کہ بچوں نے جیب خرچ اور عورتوں نے زیورات بھی دئے مگر کتنا قرض اترا اور کتنا ملک سنورا؟ سب کے سامنے ہے مگر وہ پیسہ کہاں گیا آج تک سامنے نہیں آ سکا۔ جنرل مشرف نے بھی آئی ایم ایف سے نجات کے لیے سادگی اپنانے کا اعلان کیا اور پھر سادگی کے ساتھ قوم کو مزید قرضوں میں جکڑ کر چلتے بنے۔

اور پھر عمران خان نے اقتدار میں آنے سے قبل آئی ایم ایف کے پاس جانے کے بجائے خودکشی کرنے کا اعلان کیا مگر پھر انہیں بھی آئی ایم ایف کے پاس جانا پڑا اور خودکشی کے لیے قوم کو مجبور ہونا پڑا مگر آج صورتحال کچھ ایسی بدلی ہے کہ حکمران آئی ایم ایف کے پاس جانے اور قرض ملنے کی امید کو اپنی بڑی کامیابی قرار دے رہے ہیں۔

گزشتہ روز حکمران اتحاد کے وزیر خزانہ نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ پروگرام کی بحالی کے لیے آئی ایم ایف نے کچھ شرائط رکھی تھیں جن میں بجلی کے نرخوں میں اضافہ، پیٹرولیم مصنوعات پر دی جانے والی سبسڈی کا خاتمہ، ٹیکس ایمنسٹی سکیم کا خاتمہ اور ٹیکس وصولی کی شرح میں اضافہ شامل ہیں۔ آئی ایم ایف کے ساتھ یہ پروگرام پاکستان تحریک انصاف نے شروع کیا جس کے تحت 6 ارب ڈالر ملنے تھے جس کی پہلی قسط 3 ارب ڈالر پاکستان وصول کر چکا ہے۔

جس کے بعد یہ پروگرام تعطل کا شکار تھا اب جبکہ موجودہ حکومت نے آئی ایم ایف کی شرائط پر عمل درآمد کا آغاز کر دیا ہے جس کے تحت پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں یک مشت 30 روپے کا اضافہ کر دیا گیا ہے جو کہ پاکستان کی تاریخ کا ایک ہی بار کیا گیا سب سے زیادہ اضافہ ہے جبکہ وفاقی وزیر خزانہ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں مزید اضافے کی بد خبری بھی دے رہے ہیں۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق 40 سے 50 روپے مزید اضافہ ہو سکتا۔

اسی طرح آئی ایم ایف کی شرائط کے مطابق بجلی کی قیمتوں میں 4 روپے فی یونٹ اضافہ کر دیا گیا ہے جس سے بجلی کے صارفین پر مزید 40 ارب روپے کا بوجھ پڑے گا۔ یہ بات تو واضح ہے کہ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ ہو یا بجلی کے نرخوں میں اضافہ، اس کے براہ راست اثرات عام آدمی پر پڑتے ہیں مگر حیرت اس وقت ہوتی ہے جب حکمران قیمتوں میں اضافہ کر کے کہتے ہیں اس سے عام آدمی متاثر نہیں ہو گا۔

حالانکہ تلخ حقیقت یہ ہے کہ اب عام آدمی کے لیے جینا مشکل ہو چکا ہے۔ حکومتیں بدلیں یا جماعتیں بدلیں عام آدمی کے دن نہیں بدلتے اور ہر گزرتا دن بد سے بد تر ہوتا جا رہا ہے۔ ان دنوں حکومت عام لوگوں کو ریلیف دینے کے بڑے بڑے دعوے کر رہی ہے جس کے تحت ایک کروڑ 40 لاکھ گھرانوں کو ماہانہ 2 ہزار وظیفہ دیا جائے گا۔ حکومت کا کہنا ہے کہ اس سکیم کے تحت 8 کروڑ 40 لاکھ افراد مستفید ہو سکیں گے یعنی فی خاندان 6 افراد شمار کئے گئے ہیں۔

اب اس سے بڑھ کر عام لوگوں کے ساتھ کیا مذاق ہو سکتا ہے کہ 2 ہزار فی خاندان یعنی ایک فرد کو ماہانہ 333 روپے ملیں گے جو کہ روزانہ کے 11 روپے بنتے ہیں۔ سمجھ نہیں آتی حاتم طائی کی قبر پر اتنی زور سے لات مارنے پر کس کا شکریہ ادا کیا جائے، حکومت میں آنے والوں کا شکریہ ادا کیا جائے یا حکومت میں لانے والوں کا؟ کیونکہ تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے بعد عوام کو کیا ملا وہی پرانی باتیں اور گھسے پٹے جملے۔ مگر کیونکہ حکومتیں بنانے اور گرانے والوں کی مرضی یہی تھی تو عوام کا کیا ہے ان کی پہلے کوئی اہمیت تھی نہ آگے ان کی مرضی ہونی ہے۔

غور طلب پہلو یہ ہے کہ ہماری حکومتیں ہوں یا عالمی مالیاتی ادارے جب یہ لوگ قرضوں کی واپسی کے طریقہ کار پر غور کرتے ہیں تو آخر کیا وجہ ہے کہ ہمیشہ عوام کو دی جانے والی سبسڈی ختم کر دیتے ہیں یا پھر عوام کی ضرورت کی اشیاء پر مزید ٹیکس لگا دیا جاتا ہے حالانکہ اگر ہمیشہ عوام کو قربانی کا بکرا بنانے کے بجائے اگر اشرافیہ تھوڑی سے خود قربانی دے دے تو ملک کے بہت سے مسائل خود بخود حل ہو سکتے ہیں۔

خاص طور پر ہمارے ایم این ایز، ایم پی ایز، وفاقی اور صوبائی وزراء اور مشیران کی تنخواہیں اور مراعات روک دی جائیں، ان سے پرتعیش اور قیمتی گاڑیاں واپس لے کر چھوٹی گاڑیاں دے دی جائیں، ساتھ ہی سیکیورٹی کے نام پر نا جائز پروٹوکول واپس لے لیا جائے اور غیر ترقیاتی اخراجات کو کم سے کم کیا جائے تو بہت حد تک بچت ہو سکتی ہے مگر کیا کیجئے شاہانہ ذہنیت سے اقتدار میں آنے والوں کے لیے سب سے مشکل کام تو سادگی اپنانا ہوتا ہے۔

کیونکہ جب تک ہمارے حکمران نمود و نمائش نہ کریں انہیں اپنے کام کا خود کو بھی یقین نہیں آتا جس کی ایک مثال یہ ہے کہ ایک طرف حکمران یہ رونا رو رہے ہیں کہ ہمارے پاس زہر کھانے جوگے پیسے نہیں اور دوسری طرف دورہ ترکی کے حوالے سے حکمرانوں نے اربوں روپے کے اشتہارات جاری کئے مگر سوال یہ ہے کہ آخر کب تک ہم قرض کی مئے پی کر خرمستیاں کرتے رہیں گے؟ حکمرانوں نے ماضی میں اس پر غور کیا اور نہ ہی آج سنجیدگی سے اس پر سوچ رہی ہے۔

اب بھی وقت ہے ہماری تمام سیاسی قیادت سول اور عسکری ادارے اس پر غور کریں کیونکہ اس قوم میں حکمرانوں کی عیاشیوں کا بوجھ اٹھانے کی مزید سکت باقی نہیں رہی۔ حالات جس طرح دن بدن خراب ہو رہے ہیں اور عام لوگوں کی مشکلات میں اضافہ ہو رہا ہے حکمرانوں نے اگر معاشی صورتحال میں بہتری کے لیے کوئی اقدامات نہ کئے تو ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ تنگ آمد بجنگ آمد کے مصداق عوام فیصلوں کا اختیار اپنے ہاتھ میں لے لیں۔ اگر ایسا ہوا تو پھر کسی کے ہاتھ کچھ نہیں ہو گا اور پھر حکومتیں محفوظ رہیں گی اور نہ ہی حکومتیں بنانے والے کچھ کر پائیں گے۔

Check Also

Palmistry Aur Ayyashi

By Saqib Malik