Aam Intikhabat Aur Khas Aqdamat
عام انتخابات اور "خاص اقدامات"
ملک بھر میں 8 فروری کو ہونے والے انتخابات کے سلسلے میں روایتی انتخابی اور سیاسی ماحول تو ابھی تک شروع نہیں ہوسکا۔ حالانکہ انتخابات میں تین ہفتوں سے بھی کم وقت باقی رہ گیا ہے۔ اس سے قبل ملک میں جتنے بھی انتخابات ہوئے ہمیشہ کئی ماہ پہلے انتخابی مہم شروع ہوجاتی تھی۔ مگر اس بار ہونے والے عام انتخابات میں ایسا نہیں ہے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ وہ "خاص اقدامات" جو اس سے پہلے کبھی دیکھنے کو نہیں ملے۔
حقیقی جمہوریت کے قیام اور استحکام کے لیے بروقت اور شفاف انتخابات کا انعقاد کلیدی حیثیت کا حامل ہے اور آزادانہ ماحول میں اپنے نمائندوں کے چناؤ کے لیے ووٹ ڈالنا عوام کا بنیادی حق ہے۔ مگر پاکستان میں انتخابات کتنے شفاف ہوتے ہیں اور ووٹر کتنے آزادانہ ماحول میں اپنا ووٹ کاسٹ کرتے ہیں، اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے۔ انتخابات کے نتائج آنے سے پہلے معلوم ہوجاتا ہے کہ اس بار کس جماعت کو نوازہ جارہا ہے۔ لوگوں کو پہلے سے پتا چل جاتا ہے کہ مقبولیت کس کی ہے اور قبولیت کس کی ہے۔ کیونکہ ہمارے ہاں سیاسی جماعتوں کے سربراہ اقتدار میں آنے کے لیے عوام کے پاس جانے سے پہلے گیٹ نمبر چار کا طواف کرتے ہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ 1971 کے انتخابات کے علاوہ کوئی انتخابات ایسے نہیں جنہیں صاف اور شفاف قرار دیا جاسکے۔ یہ بات کوئی ڈھکی چھپی نہیں کہ ملک میں عام انتخابات سے قبل اس طرح کے خاص اقدامات کیے جاتے ہیں کہ جس جماعت کو اقتدار میں لانا مقصود ہو وہ با آسانی اقدار میں آجاتی ہے اور جس جماعت کو ہرانا مقصود ہو اسے گنتی کی چند سیٹیں ہی مل پاتی ہیں۔ اس پہلے یہ "خاص اقدامات" الیکشن سے پہلے ماحول سازی، الیکٹیبلز کی مخصوص و مطلوب جماعت کی طرف پروازوں اور کامیابی کے بعد آزاد اراکین کی مخصوص و مطلوب جماعت میں شمولیت یا پھر زیر اعتاب پارٹی میں دھڑے بندی تک محدود تھے۔ مگر اس بار صورتحال بہت ہی مختلف ہے۔ بات صرف الیکٹیبلز کو توڑنے تک محدود نہیں۔ بلکہ پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ایک بڑی سیاسی جماعت کو انٹرا پارٹی الیکشن کی بنیاد پر انتخابی نشان سے محروم کر دیا گیا ہے۔
ملک میں جمہوریت کی علمبردار سیاسی جماعتوں کے اپنے اندر کتنی جمہوریت ہے اور ملک میں صاف شفاف انتخابات کا مطالبہ کرنے والی سیاسی جماعتیں اپنے انٹرا پارٹی انتخابات کتنے صاف اور شفاف طریقے سے کراتی ہیں اس سے ہر شخص بخوبی آگاہ ہے۔ مگر اس کے باوجود محض ایک جماعت کو نشانہ بنا کر اسے انتخابی نشان سے محروم کرنا اس نام نہاد جمہوریت کی بچی کھچی ساکھ کو تباہ کرنے کے مترادف ہے۔ یہی وجہ ہے پاکستان تحریک انصاف کے امیدوار آزاد حیثیت سے انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں۔
معاملات انتخابات میں محض آزاد حیثیت سے حصہ لینے تک ہی محدود نہیں بلکہ تحریک انصاف کی حمایت یافتہ امیدواروں کے لیے آزادانہ ماحول میں انتخابی مہم چلانا بھی تقریباََ ناممکن دکھائی دیتا ہے۔ ایسی صورتحال میں جب تمام سیاسی جماعتیں آزادی کے ساتھ انتخابی مہم چلا رہی ہوں اور دوسری طرف باہر نکلنا بھی محال ہو تو ایسی صورتحال میں انتخابات کی کیا ساکھ باقی رہ جائے گی۔
آج مختلف اداروں اور مقتدر قوتوں کی جانب سے پاکستان تحریک انصاف کے ساتھ جو رویہ اپنایا جا رہا ہے وہ پاکستان کے سیاسی مستقبل کے لیے تشویشناک ہے۔ 1971 کے الیکشن میں بھی ایک بڑی جماعت کو دیوار کے ساتھ لگایا تھا جس کے سنگین نتائج بھگتنا پڑے۔ الله نہ کرے ملک کو دوبارہ ایسی سنگین صورتحال کا سامنا کرنا پڑے۔ مگر سیاسی صورتحال کوئی بہتری کی طرف نہیں جارہی ہے اور اس وقت تک بہتر نہیں ہوسکتی جب تک عام انتخابات کو خاص اقدامات کے ذریعے من پسند جماعتوں کے لیے آسان اور من مخالف جماعتوں کے لیے مشکل بنایا جاتا رہے گا۔
مگر اس طرح کے اقدامات سے نا پسندیدہ جماعت کو شکست تو دی جاسکتی ہے اور پسندیدہ جماعت کو اقتدار میں بھی لایا جا سکتا ہے مگر اس طرح کے اقدامات سے عوام کی نظروں میں ختم ہوتی ساکھ کو بحال نہیں کیا جاسکتا۔ قومی اداروں اور مقتدر قوتوں کو سنجیدگی کے ساتھ اس پہلو پر غور کرنا چاہئے کیونکہ یہ اس ملک اور قوم کے مستقبل کا معاملہ ہے اسے اپنی انا کی بھینٹ نہیں چڑھانا چاہئے۔ اسے ذاتی پسند و نا پسند نہیں بنانا چاہئے بلکہ عوام کو آزادانہ ماحول مہیا کیا جانا چاہئے تاکہ اگلے پانچ سال کے لیے اپنے نمائندوں کا انتخاب کر سکیں۔