Aage Kya Hoga?
آگے کیا ہو گا؟
آج ہر پاکستانی کے ذہن میں ایک ہی سوال ہے کہ آگے کیا ہوگا؟ یوں تو پاکستان کی 75 سالہ تاریخ اس سوال کے گرد گھوم رہی ہے اور گھومنے کا یہ عمل اس قدر تیز ہے کہ نہ تو ہم اس سوال سے آگے بڑھ سکے اور نہ ہی اس کا جواب مل سکا۔ اور پھر رواں سال میں تو پاکستان کچھ اس قدر اس گھمن گھیر میں پھنسا ہے کہ نکلنے کا نام ہی نہیں لے رہا۔ ہر گزرتا دن پہلے سے کہیں زیادہ اور مشکل تر ہوتا جا رہا ہے۔ ایک طرف سیاسی بحران ختم ہونے کا نام نہیں لے رہا اور دوسری طرف معاشی بحران سنگین سے سنگین تر ہوتا جا رہا ہے۔
یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں کہ ہم نے تحریک انصاف کی حکومت کی كاركردگی کو ہمیشہ تنقید کا نشانہ بنایا خاص طور پر ان کے انتخابی وعدوں اور منشور سے انحراف پر سوالات اٹھائے جو کہ میرے قلم کا اخلاقی فریضہ ہے۔ مگر اس کے باوجود میں ہمیشہ اس بات کا حامی رہا ہوں کہ کوئی بھی منتخب حکومت ہو اسے اپنی آئینی مدت پوری کرنی چاہئے اور اسے کام کرنے کا پورا پورا موقع ملنا چاہئے۔ مگر اپریل میں جب پی ڈی ایم کی اتحادی جماعتیں پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد لائیں جو کہ ایک آئینی پراسس ہے۔
یہ ایک الگ بحث ہے کہ اس آئینی کام کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لیے کس طرح کے غیر آئینی کام کئے گئے۔ کس طرح ضمیر کی منڈیاں لگیں، کس طرح ممبران کی بولیاں لگیں اور کس طرح ووٹ کا تقدس پامال ہوا۔ مگر پی ڈی ایم کی اتحادی جماعتوں کا دعویٰ تھا کہ وہ ملک کو بچانے، معیشت کی بحالی، بیرونی سرمایہ کاری، خارجہ پالیسی میں بہتری اور عام لوگوں کی حالت زار میں بہتری کے لیے تحریک عدم اعتماد لائے ہیں اور اس تباہ کن صورتحال کے باوجود حکومت حاصل کر کے ہم نے ملک اور قوم کی خاطر رسک لیا ہے۔
بہرحال یہ ایک حقیقت ہے کہ تحریک عدم اعتماد کے وقت تحریک انصاف کے پلڑے میں کچھ بھی نہیں تھا۔ نہ کارکردگی تھی، نہ معیشت تھی اور نہ ہی عام عوام کی ہمدردی تھی۔ مگر پی ڈی ایم نے حکومت کا طوق گلے میں ڈال کر تمام تر عوامی ہمدردی تحریک انصاف کے پلڑے میں ڈال دیں۔ جس کے نتیجے میں نہ صرف پاکستان تحریک انصاف نے مختلف ضمنی انتخابات میں کامیابی حاصل کی بلکہ مسلسل پاکستان کے مختلف شہروں میں بڑے بڑے جلسے کئے اور ریلیاں نکالیں۔ جن میں لوگوں کی کثیر تعداد نے شریک ہو کر موجودہ حکومت پر عدم اعتماد کا اظہار کیا۔
اب صورتحال یہ ہے کہ تحریک عدم اعتماد کے بعد پی ٹی آئی نے ضمنی انتخابات بھی جیت لیے، جلسے بھی کر لیے، دو صوبوں کی حکومت بھی اس کے پاس ہے۔ پی ڈی ایم اتحاد بھی مرکز اور دو صوبوں میں برسر اقتدار ہے۔ یعنی ملک کی تمام سیاسی جماعتیں بلواسطہ یا بلا واسطہ طور پر اقتدار میں ہیں مگر وطن عزیز میں بحران ختم ہونے کا نام نہیں لے رہا۔
پہلے آرمی چیف کی تعیناتی اور لانگ مارچ کی وجہ سے ملک ایک ہیجانی کیفیت میں مبتلا رہا اور اب عمران خان نے دو صوبوں کی اسمبلیاں تحلیل کرنے کا اعلان کر کے گوں مگوں کی صورتحال پیدا کر دی ہے۔ ایک طرف پاکستان تحریک انصاف کے لوگ دونوں صوبوں پنجاب اور خیبر پختون خواہ کی اسمبلیاں تحلیل کرنے کا اختیار عمران خان کو دیے جانے کا ڈھول بجا رہے ہیں اور دوسری طرف پنجاب کے وزیر اعلیٰ نے اسمبلی مارچ تک تحلیل کرنے کا اشارہ کر کے سیاسی صورتحال کو نئے رخ پر لا کھڑا کیا ہے اور پھر جب عمران خان مسلسل سابق آرمی چیف کو تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں۔
ایسی صورتحال میں مونس الہٰی اور پرویز الہٰی کی طرف سے جنرل باجوہ کے حمایت میں دئے جانے والے بیانات ایک نئی دراڑ کی طرف اشارہ کر رہے ہیں جو مستقبل میں مزید بڑھ سکتی ہے۔ دوسری طرف پی ڈی ایم کے لیے اقتدار گلے کی ہڈی بن چکا ہے جسے نہ نگل سکتے ہیں اور نہ ہی اگل سکتے ہیں۔ فوری الیکشن کراتے ہیں تو عمران خان کی مقبولیت کی کھائی ہے اور اگر وقت پر کراتے ہیں تو کارکردگی کی دلدل ہے یعنی اب وہ نہ آگے کے ہیں اور نہ پیچھے کے۔
سیاسی بحران سے بڑھ کر وہ معاشی بحران ہے جو عوام کے لیے عذاب تو ہے ہی مگر حکمرانوں کی سیاست کے لیے بھی بدترین عذاب ہے۔ حالانکہ حکمران معاشی حوالے سے بڑے بڑے دعوؤں کے ساتھ عدم اعتماد کے بعد اقتدار میں آئے تھے۔ مگر ہر روز یہ بحران سنگین سے سنگین تر ہوتا جا رہا ہے۔ گو کہ سعودی عرب نے سٹیٹ بینک میں رکھے اپنے تین ارب ڈالر کی مدت بڑھا دی ہے۔ مگر معیشت کی بحالی کے دور دور تک اثرات دکھائی نہیں دیتے۔
کیونکہ آئی ایم کا پروگرام مسلسل تعطل کا شکار ہے۔ بیرونی سرمایہ کاری ختم ہو کر رہ گئی ہے۔ پاکستانی سرمایہ کار خوف اور بے یقینی کا شکار ہیں۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ سیاسی استحکام اور معاشی استحکام کا چولی دامن کا ساتھ ہوتا ہے۔ گزشتہ روز وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے نجی ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اگلے دو ہفتوں تک ایک دوست ملک سے تین ارب ڈالر مل جائیں گے جس سے ذرمبادلہ کے ذخائر بہتر ہو جائیں گے۔
مگر موصوف نے جب سے حلف اٹھایا ہے مسلسل خوشخبریاں دے رہے کہ معیشت جلد بہتر ہو جائے گی۔ اس سے پہلے اسحاق ڈار کو ارستو بنا کر پیش کیا گیا اور کہا گیا جیسے ہی وہ وزیر بنیں گے روپے کی قدر بڑھ جائے گی، ڈالر رل جائے گا، آئی ایم ایف والے بھی ہاتھ باندھے کھڑے ہونگے، مہنگائی کم ہو جائے گی اور پھر ڈالر کا ریٹ کچھ کم بھی ہوا موصوف نے کہا ڈالر 200 سے بھی کم ہوگا۔ مگر اب حالت یہ ہے کہ ڈالر سنبھالے نہیں سنبھل رہا آئی ایم ایف بات نہیں سن رہا۔
یہاں تک ان کے پیش رو لیگی رہنما مفتاح اسماعیل کہہ رہے ہیں ملک ڈیفالٹ ہونے کے قریب ہو چکا ہے۔ ایسی صورتحال میں بھوک، غربت، بیروزگاری، مہنگائی کا طوفان، ڈالر کی اڑان، معیشت کی بد حالی، آئی ایم ایف کی کڑی شرائط اور سیاسی رسہ کشی دیکھ کر سوال تو اٹھتا ہے کہ آگے کیا ہوگا؟
مگر اس سے بھی بڑھ کر دکھ یہ ہے کہ 75 سال سے اس سوال کے گرداب میں پھنسی قوم کو آج بھی اس سوال کا جواب ملتا دکھائی نہیں دیتا۔ یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ جب تک سیاستدان قومی مفادات کو ذاتی اور وقتی مفادات کی بهینت چڑھاتے رہیں گے اس وقت تک اس کا جواب ملنا ناممکن ہے۔ ماضی کی غلطیوں کا خمیازہ ہم بھگت رہے اور آج کی غلطیوں کا خمیازہ ہماری آنے والی نسلیں بھگتیں گی۔