Siyasat Dan Aur Zameer Ki Awaz
سیاستدان اور ضمیر کی آواز
جب آپ کسی غلط کام کرنے کا ارادہ رکھتے ہوں اور پھر اس سے عملی جامہ پہنانے لگتے ہوں تو اس وقت ایک آواز آپ کو جھنجوڑ کر روک دیتی ہے۔ زور زور سے کہہ رہی ہوتی ہے کہ یہ کام نہ کریں۔ یہ آواز بتا رہی ہوتی ہے کہ اگر آپ یہ کام کرو گے تو معاشر ہ آپ کو برا بھلا کہے گا۔ یہ آواز آپ کو بتا رہی ہو گی کہ یہ حق کا راستہ نہیں ہے۔ یہ آواز آپ کو بتا رہی ہو گی کہ آپ اپنے آپ کو دھوکا دے رہے ہیں۔ یہ آواز آپ کو بتا رہی ہو گی کہ آپ جھوٹ کی زندگی گزار رہے ہیں۔
در اصل یہ ضمیر کی آواز ہے یہ آواز آپ کو ہر برے کام سے روک رہی ہوتی ہے۔ اس آواز کا کسی مذہب سے بھی تعلق نہیں آپ مسلمان،ہندو،یہودی،عیسائی یا کسی بھی مذہب سے تعلق رکھتے ہوں یا پھر کسیمذہب سے بھی تعلق نہیں رکھتے ہوں۔ تب بھی یہ آواز آپ کو برے کاموں سے روک رہی ہو گی کیونکہ ضمیر کی آواز کا تعلق انسانیت سے ہے اور انسان فطری طور پر برائی سے نفرت کرتا ہے۔ حق اور سچ کو پسند کرتا ہے۔
لیکن یہ انسان ہمیشہ اس ضمیر کی آواز کو دبانے کی کوشش کرتا ہے کیونکہ اس سے ظاہری فائدہ نظر آ رہا ہوتا ہے۔ ایسی صورت حال میں بہت کم ہی ایسے لوگ ہوتے ہیں جو ضمیر کی آواز کو سنتے ہوئے برے کاموں کو چھوڑ دیتے ہوں۔ ہمارے معاشرے میں اکثریت ایسے لوگوں کی ہے جو ظاہری فائدہ کو مدنظر رکھتے ہوئے ضمیر کی آواز کو دبا لیتے ہیں۔ جب یہ کام بار بار کرنے لگیں گے تو ایک وقت ایسا آئے گا کہ یہ ضمیر کی آواز آپ کو سنائی نہیں دے گی پھر آپ کو اچھے برے،حق و باطل میں تمیز نہیں کر سکیں گے۔
بدقسمتی سے آج کل ہمارے ملک کے اکثر سیاست دانوں کا بھی یہی حال ہے بہرحال اب اکثر سیاستدان کہہ رہے ہیں کہ ان کا ضمیر جاگ گیا ہے، اب ضمیر جاگا تو بھی ایسے جاگا کہ جمہوریت شرمندہ ہو گئی قومی اسمبلی میں پانچ ممبر والی جماعت،150 پر بھاری پڑرہی ہیں۔ مطلب ق لیگ والے جن کے پاس صرف پانچ سیٹیں ہیں 150 سیٹوں والی پی ٹی آئی پر بھاری پڑ رہیں ہیں اور جناب چوہدری پرویز الہٰی صاحب وزیر اعلیٰ پنجاب منتخب ہوگئے ہیںمگر اب یہ ہوتا ہوا نظر نہیں آ رہا ہے لیکن جمہوریت نے یہ برا دن بھی دیکھا۔
دوسری جانب ایم کیو ایم جس کے پاس قومی اسمبلی میں صرف سات سیٹیںہیں وہ پی ٹی آئی اور ان کے اتحادی جماعت ق لیگ دونوں کو شکست دے رہی ہے، جن کے پاس ایک سو پچاس سے زیادہ سیٹیں ہیں ۔ایک طرف جمہوریت شرمندہ ہو رہی ہے دوسری طرف اتحادی جماعتوں کا ضمیر جاگ رہا ہے۔ان سیاست دانوں کا ضمیر جگانے کی وجہ سے جمہوریت کتنی شرمندہ ہوگی ؟اس کا اندازہ تو آپ اس وقت لگا سکتےہیں جب عدم اعتماد کامیاب ہوگی ۔پھر صورت حال یہ ہوگی کہ اپنے حلقے سے الیکشن ہار جانے والے جناب مولانا فضل الرحمان صاحب اسلامی جمہوریہ پاکستان کے صدر ہونگے۔
یہ تو اچھا ہو رہا کی آج کل سیاستدانوں کا ضمیر خود جاگ رہا ہے اس سے پہلے تو ان لوگوں کا ضمیر اسٹیبلشمنٹ جگایا کرتی تھی، بالکل اسی طرح جیسے رمضان المبارک میں گھر والے مجھے سحری کے لے جگایا کرتے ہیں لیکن فرق اتنا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ سیاست دانوں پر یہ روزے ہر پانچ میں ایک دفعہ فر ض کرتی تھی اور باقدہ سحری کے لے جگایا کرتی رہی ہے۔ اب یہ فیصلہ تو عوام ہی آنے والے الیکشن میں کرینگے جو مجھے قبل ازوقت ہوتے نظر آ رہےہیں کہ جن سیاست دانوں کا ضمیر جگا ہے کیا ان کی ٹایمنگ دوست ہے یا نہیں ہے؟
کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے۔
شرمندہ میری روح کی سچائیاں ہوئیں
وہ تبصرہ ضمیر نے کردار پر کیا۔