Medical Aur Engineering Aik Riwayat
میڈیکل اور انجینئرنگ ایک روایت
نوجوان نسل کو مختلف طعنے برداشت کرنے پڑتے ہیں موجودہ دور میں پب جی کھیلنے اور ارظعرل دیکھنے کا طعنہ بھی دیا جاتا ہے ایسے میں نوجوانوں کا لائبریری کی طرف رجحان یقیناً خوش آئند ہے۔ پچھلے دو سالوں سے میرا زیادہ تر وقت لائبریری میں گزر رہا ہے یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ میں نے یہ رجحان کم وقت کے لے وہ بھی خاص طور پر ان نوجوانوں میں دیکھا جن کا تعلق پری میڈیکل سے ہے اس کی وجہ یقیناً میڈکل کالجز میں داخلہ کے لے میریٹ کا بلند ترین سطح پر ہونا ہے۔ ای لائبریری پنجاب میں میری ملاقات احمد رضا ہوئی ان کا تعلق پنجاب سے ہے، یہ پچھلے تین سالوں سے ایم ڈی کیٹ کا امتحان دے رہے ہیں اور یہ ان کا چوتھا سال ہے اللہ کرے کہ ان کا اس سال کسی میڈیکل کالج میں داخلہ ہو جائے میں نے ان سے پوچھا آپ چار سال لگا کر کسی میڈیکل کالج میں داخلہ لے کر کیا کریں گے اب تک تو تمہارے پاش کوئی ڈگری ہوتی ان کا یہی جواب تھا کہ والدین کی یہی خواہش ہے۔ والدین کا نام لیتے ہی میں بھی یہی شوچ کے خاموش رہا کہ شاید احمد رضا اپنے والدین کی خواہش کو مقدم سمجھ کر اپنی خواہشات اور زندگی والدین کے نام کی ہوگی۔
دراصل ہمارے بڑے کبھی ان صلاحیتوں کو نہیں دیکھتے جن کے مالک ان کے بچے ہوتے ہیں ان کو میٹرک اور ایف ایس سی کے نمبرز نظر آ رہے ہوتے ہیں۔ یہ ضرور نہیں کہ جو بچے ایف اے سی میں اچھے نمبر حاصل کریں تو وہ میڈیکل اور انجینئرنگ کی طرف جائے بدقسمتی سے یہ ایک روایت بن چکی ہے جس کی چکی میں کچھ ایسے باصلاحیت بچے پس رہے ہے جو کہ ڈاکٹر یا انجینئر بننے کے لئے نہیں بنے۔ اگر کسی لڑکے یا لڑکی کا چار سالوں سے میڈیکل میں نہیں ہو رہا ہے تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ نالایق ہے یقیناً وہ اس شعبے کے نہیں بنا ہے۔
ترقی یافتہ ممالک میں والدین بچوں کے ٹیچر سے پوچھ کر ان کی مرضی اور صلاحیتوں کی بنیاد پر کسی شعبے میں بھیج دیتے ہیں۔ لیکن ہم بھول جاتے ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کو مختلف صلاحیتوں سے نوازا اور ہمارے بڑوں کا فرض ہے کہ وہ اپنے بچوں کے ان صلاحیتوں کو پہچان نے اور انہیں ان کی صلاحیتوں کے مطابق ان کی رضامندی سے جس شعبےمیں جانے چاہتے ہے آزاد چھوڑ دے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے آج ہمارے معاشرے میں ایسا بلکل بھی نہیں ہے۔ ایک طالب علم کے سامنے سیکڑوں راستے ہوتے ہین جس کا بھی انتخاب کرنا چاہتے اس کا حق بنتا ہے لیکن ہمارے بڑوں کو صرف دو ہی راستے نظر آتے ہیں۔ بچے کو ڈاکٹر یا انجنیئر بنتا ہے۔ اگر کسی بچے کا میڈیکل کالج میں داخلہ ہو جاتا ہے تو ایسا سمجھتے ہے جیسے کشمیر فاتح کرلیا ہوں۔ وہی بچہ پانچ سال بعد ڈاکٹر بن کر آجاتا ہے تو کسی فارمسوٹیکل کمپنی سے گاڑی، گھر یا پیسوں کے لے ڈیل کر کے ضرورت سے زیادہ دوا دیتا ہے یا پھر کسی ایسی کمپنی کےدوا دیتا ہے جو بین الاقوامی معیار کے مطابق دوا نہیں بناتی ہے افسوس کے ساتھ اکثر ڈکٹرز ایسا ہی کرتے ہے۔
ہمارے بڑوں نے سیاست، وکالت، صحافت اور دیگر بہت سے شعبوں نظر ہی نہیں آتے ہیں۔ آج بھی بہت سے لوگ ہی سوچتے ہے کہ سارے وکلا حرام کی کمائی کھا رہے ہے ہمارے بڑے یہ کیوں نہیں سوچتے ہے کہ میرا بیٹا کل ایک اچھا وکیل بن کر کسی مظلوم کو اس کا حق دلائے گا۔ کسی ظلم کو انجام تک پہنچائیں گا۔ ہم آج ہر معاملے میں انصاف کے لیے جیف جسٹس سے اپیل کرتے ہے آخر یہ چیف جسٹس کون ہوتا ہے یہ بھی کبھی وکیل ہی ہوتا تھا۔ اگر آپ اپنی اولاد کی اچھی تربیت کرتے ہے اور کل کو وہ قابل وکیل، جج، یا اٹارنی بن جاتا ہے تو پھر کسی غریب کو 21 سال کوٹ کے چکر لگانے کے بعد انصاف نہ ملنے پر خودکشی کرنے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔
آج افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ گلگت بلتستان کے نمائندے اتنی قابلیت نہیں رکھتے کہ پاکستانی میڈیا میں اپنی پارٹی کی نمائندگی کرسکے عوام ان کو پانچ سال کے اسمبلی میں بھیجتے ہے اور یہ لوگ پانچ سال کی ADP بھی نہیں لا سکتے ہیں۔ کیوں کہ ہم نے اپنے سب سے قابل بیٹے یا بیٹی کو ڈاکٹر یا انجینئر بننا ہوتا ہے اگر میڈیکل یا انجینئرنگ میں نہ جاسکے تو نہ تو بچے کو معلوم ہوتا یہ آگے کیا کرنا ہے اور نہ ہی والدین کو معلوم ہوتا ہے۔ ہمارے معاشرے میں اکثر سیاست دان ایسے لوگ بنتے ہیں جن کی تعلیمی صلاحیت کچھ خاص نہیں ہوتی ہے۔ سیاست ایک ایسا شعبہ ہے جس میں قابل لوگوں کی ضرورت ہے کیوں کہ یہی سیاست دان ہی بین الاقوامی سطح میں ہماری نمایندگی کر رے ہوتے ہیں۔
ہمارے بڑوں نے تو کبھی غلطی سے بھی اپنے بیٹے یا بیٹی کو صحافت کے شعبے میں بھیجنے کا سوچا ہو۔ جب کہ اس شعبے کی اہمیت سے بخوبی آگاہ ہے۔ سیکڑوں ایسے شعبے ہے جن کی طرف ہمارا رجحان نہ ہونے کے برابر ہے۔ سوشل سائنس، عمرانیات، اکنامکس، سماجیات، کامرس اور دیگر بہت سے شعبوں میں بھی ڈگری حاصل کرسکتے ہیں بی اے کرنے کے بعد سول سروسز کے امتحانات دے کر بیوروکریٹ بن سکتے ہیں لیکن اس کے برعکس میڈیکل اور انجینئرنگ لینا ایک روایت بن چکی ہے۔ ہمیں اس روایت کو ختم کرنے کی ضرورت ہے یقیناً یہ ایک مشکل کام ہی مگر ناممکن نہیں۔