Nayi Sehar Ke Khwab Falasteen
نئی سحر کے خواب "فلسطین"

دنیا میں المیہ، بس المیہ ہی ہوتا ہے، اس کا تعلق کسی خطے، کسی مذہب، کسی قوم، کسی کی ذات، یا کسی کمیونٹی سے نہیں ہوتا، یہ آج کا غزہ بھی ہوسکتا ہے اور 9/11 کا نیویارک بھی، 7 اکتوبر کا تل ابیب بھی، یا ماضی کا بغداد بھی، ویسے مجھے لگتا ہے کہ زندگی کی رغبت میں ہر نئی نسل کو تھوڑا سا حیرت کی ضرورت ہوتی ہے، چاہے یہ صرف ایک اقتباس ہی کیوں نہ ہو، خوابوں، امنگوں اور امیدوں کے شعلوں کو بلند رکھنے کے لیے ہی سہی اور یہی حیرت ایک ایسے کل کے لیے کوشش کرنے، برداشت کرنے اور جدوجہد کرنے کا محرک بنتی ہے، جس کے حصول کی خوشی کا خیال نوجوانوں کو امید دلاتی ہے۔
تاریخ کا مطالعہ کر لیں، ماضی اور حال دونوں میں بس یہی نظر آئے گا، کہ ایسی ہر حیرت انگیزی، امید، جوش ولولہ ہر عہد کے اشرافیہ اور نئی نسلوں کے پیچھے محرک ہے اور ہر تاریخی کامیابیوں کے پیچھے محرک قوت ہوتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ کامیابی کا تعلق حیرت سے ہی ہے۔ جو لوگ نظریات سے مرعوب ہوتے ہیں وہ ان کے روشن پہلو کو حاصل کرنے اور فکری تعلق اور اس کے مشکل سفر کا تجربہ کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں۔
یہ حیرت یا مطلوبہ جذبہ وہ ہے جو نوجوانوں کو خوش کرتا ہے اور حقیقتاََ اس حیرت کے مطلوبہ جذبے کے لیے نوجوان ہی موزوں ہیں۔ جس کے لیے وہ اپنی زندگی کو بھی پیش کر دیتے ہیں اور اپنے نظریات کے معنی حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور اس کے لیے اپنی زندگی بھی وقف کر دیتے ہیں۔ لیکن ایک اور تکلیف دہ سچ یہ ہے کہ ان نظریات کو پھیلانے والے، ان کے لیے آواز بننے والے، ان نظریات کو پیش کرنے والے اور ان کے لیے لوگوں کو موٹیویٹ کرنے والے زیادہ تر میچور لوگ ہوتے ہیں اور وہ اپنے اندر نہ ایسا کوئی جذبہ رکھتے ہیں نہ ہی ایسی کچھ خواہش وہ صرف ان نظریات کی اشرافیہ ہوتے ہیں۔
یہ بھی سچ ہے کہ آج بہت سے نظریات منہدم ہو چکے ہیں، درحقیقت نظریات خود ہی مردہ قرار دے دیے گئے ہیں، دنیا میں ہر نظریے کو مکمل طور پر ظاہر ہونے کے بعد ہمیشہ اس کے منفی پہلوؤں کے علاوہ کوئی چیز باقی نہیں رہتی اور نظریات کے لیے جانیں دینے والے اور وہ سحر جو نسل در نسل کتنی ہی نسلوں کو اس کی طرف راغب کرتی تھی وہ ختم ہو جاتی ہے۔ دیکھ لیں ماضی قریب میں کتنی نسلیں سوشلزم پر یقین رکھتی تھیں، دنیا نے سوشلزم کو ڈوبتے دیکھ لیا، لبرلزم کا دور آیا، ان حالات میں سرد جنگ کے دوران سوشلسٹ کیمپ کی طرف بڑھنے کے ساتھ ساتھ قوم پرستوں کو بھی اپنے خیالات پھیلانے کا موقع مل گیا۔
نوجوانوں میں چونکہ حیرت ہوتی ہے، جذبہ ہوتا ہے، ولولہ ہوتا ہے تو ان نظریات کی دوڑ میں ان نوجوانوں کے لئے ایک خاص قسم کا سحر ہوتا ہے، (وہی بدقسمتی سے ان نظریات کا چارہ ہوتے ہیں) اس پر سوچ فکر کرتے ہیں، کسی بھی وجہ سے متوجہ ہوتے ہیں اس کی اقدار پر کام کرتے ہیں، ریاستیں ان کے لیے راہیں ہموار کرتی ہیں، دانشور اور سیاسی شخصیات اس میں دلچسپی لیتے ہیں۔
مسلم دنیا میں ترکوں کی سلطنت کو ماضی بعید کی خلافت مان لیا گیا، بر صغیر والوں کی بدقسمتی کے انہوں نے اس خلافت کے نام پر کتنی تحریکیں چلا ڈالی، ان تحریکوں کو چلانے والی اشرافیہ مزید اشرافیہ ہی بنتی رہی، یہی حال عالم عرب میں رہا جس کی مثال بوکو حرام اور داعش رہی، ہمارے پڑوس میں ظالماں بھی اس کی مثال ہیں، جو بوقت ضرورت اپنی افکار بدلنے کے لئے امریکہ کے سامنے سر جھکا لیتے ہیں لیکن اپنی رعایا کے لیے وہ افکار بدلنے کے لیے تیار نہیں رہتے۔ بس آخری بات وہی یقینی ہے کہ ہمیشہ نوجوانوں میں وہ حیران کرنے والی چیز رہی ہے، جو ان لوگوں کو میسر رہتی ہے جو ان کی قوت بنتی ہے۔
عرب ممالک میں بھی یہی حیرت بدرجہ اتم رہی ہے بلکہ ماضی قریب میں یوں کہہ لیں کہ سنہء 1990 کی دہائی میں بھی عرب میں نوجوانوں کا ان سے متاثر ہونا ممکن تھا اور پہلی خلیجی جنگ سے لے کر اور اب تک، حیرت کی کیفیت ایک بحران سے دوسرے بحران کی طرف بڑھ رہی ہے، یہاں تک کہ یہ کسی ایسی چیز تک نہیں پہنچ جاتی جو کہ عدم سے ملتی جلتی ہو۔ ان نظریات کے زوال کے بعد جنہوں نے اپنی اہمیت اور طاقت کے عروج پر اشرافیہ پیدا کرنے میں کامیابی حاصل کی، فکری اور تنقیدی زندگی کو تقویت دی اور ایک طرح کی تعمیری نظریاتی جدوجہد کی، بعد کی نسلوں نے اپنی توجہ کا مرکز اپنے مداروں کی طرف منتقل کر دیا، جو کہ امریکی جمہوریت کے خوابوں سے باہر ہو گئے، انسانی حقوق کے خوابوں کی طرف بڑھ گئے۔ آج مسئلہ یہ ہے کہ نئے سحر کا مواد بحران کا شکار ہے۔ وہ سب ایک ہی وقت میں اور ایک ہی تاریخی لمحے میں غائب ہو گئے۔ واقعات کی ایک بہت بڑی مقدار نے چکاچوند کرکے نئے مواد کو بجھا دیا اور اس سے جڑے ہوئے جھوٹ کی حد کو آشکار کر دیا۔
بڑا مسئلہ یہ ہے کہ اس معدومیت نے حیران ہونے اور کسی سوچ اور خیال پر شرط لگانے کے خیال کو ختم کر دیا۔ نتیجہ آج مایوسی کا نقاب پہنے ہوئے حقیقت پسندی ہے۔ اگر ہم سحر کے ان نئے معانی کے معدوم ہونے کا بغور جائزہ لیں، ان انسانی حقوق کے حوالے سے جن کے لیے نسل در نسلوں نے جدوجہد کی ہے، خواہ بنیادی حقوق ہوں یا انفرادی حقوق، درحقیقت وہ دوہرے معیار کے کھیل کا نشانہ بنے ہوئے ہیں اور یہ تمام لوگوں کے حقوق نہیں ہیں۔ لوگوں کے حقوق بین الاقوامی نقشے پر ان کے ملک کے مقام کی عکاسی کرتے ہیں اور ان کا ملک جتنا مضبوط ہوتا ہے، اتنے ہی زیادہ ان کے حقوق کی ضمانت دی جاتی ہے، اس ملک کے لوگوں کے برعکس جس کی بڑی طاقتوں کے کلب میں کوئی طاقت یا رسائی نہیں ہے۔ اس لیے ہر زور آور انسانی حقوق کے عالمی منشور کی روح کی بار بار خلاف ورزی کرسکتا ہے۔
غزہ کے لوگوں کی مثال اور مردہ بچوں اور عورتوں کی تصویریں اور دوسرے غمگین اور خوف زدہ لوگوں کی مثالیں یاد کر لینا کافی ہے، اس بات کو سمجھنے کے لیے کہ جو دنیا اپنے بچوں کی حفاظت نہیں کرتی وہ انسانی حقوق سے بہت دور ہے، اسی طرح ایک ایسی دنیا جس میں بہادری کا فقدان ہے۔ جو چیز انسانی حقوق کی فکر میں دلچسپی کو مزید کم کرتی ہے وہ یہ ہے کہ جن اداروں کو اس کی ضمانت دینی چاہیے تھی وہ ایسا کرنے میں ناکام رہے ہیں، جس کا مطلب ہے کہ مسئلہ ساختی ہے اور انسانی حقوق کا مسئلہ طاقت کے توازن سے مشروط ہے، نہ کہ اصولی ہے جیسا کہ اس بات سے مرعوب ہونے والوں نے سوچا تھا۔ یا جنہوں نے پس پردہ (ھماس) یہ کھیل رچانے میں معاونت کی تھی۔ جہاں تک جمہوریت کا تعلق ہے، وہ جادوئی لفظ جس کے قیام کا ہمیں یقین تھا کہ اس کا مطلب ہر اس چیز کو ختم کرنا ہے جو آزادی اور بقائے باہمی کو مجروح کرتی ہے اور اشرافیہ کی گردش کے طریقہ کار کے ذریعے شہریت کے مدار کی طرف بڑھنا ہے۔
یہ واضح ہوگیا ہے کہ طاقتور ترین جمہوریتوں میں اقتدار تک رسائی ان قوتوں پر منحصر ہوتی ہے جو حکومتیں اپنے مفادات کی تکمیل کرتی ہیں۔ وائٹ ہاؤس ایک مثال ہے۔ اگر امریکی خوابوں کے ملک میں جمہوریت مشروط ہے اور دوسروں میں بھی، تو یہ جمہوریت کے خیال سے ہماری دلچسپی میں کمی کا باعث بنتی ہے۔ جہاں طاقت ہمیشہ لوگوں کے لیے نہیں ہوتی جتنی کہ یہ ہمیشہ عوام کے سب سے طاقتور اور معاون گروہ کے لیے ہوتی ہے۔ یورپ کو دیکھ لیں، ایک عوامی، کھلا یورپ جو ریپبلکن اصولوں پر بنایا گیا ہے۔
آج یہ تقریباً مکمل طور پر تارکین وطن مخالف حق کی گرفت میں ہے اور برسوں سے، یورپ کا ویزا ایک دور کے خواب سے زیادہ طاقتور چیز بن گیا ہے۔ یورپ، جو ماضی کے نوآبادیاتی لوگوں کے ہاتھوں بنایا گیا تھا، وہ آج افریقی نوجوانوں کے لئے اپنی زمینیں بند کر دیتا ہے جب وہ ان کی لاشوں کو سمندر کی لہروں سے اچھلتے ہوئے دیکھتا ہے۔ آہ مجھے انسانی حقوق کے جھوٹ سے کوئی چیز نہیں بھاتی، پس پردہ جمہوریت کی ان چونکا دینے والی جمہوریت سے ہمیں کچھ بھی نہیں ملتا، آج یورپ سے ہمیں کچھ بھی حیران نہیں کرتا۔ کیا سحر مکمل طور پر ختم ہوگئی ہے، یا اس بحران میں جاذبیت ہے جو عارضی بھی ہو سکتی ہے۔
یہ پوسٹ غزہ کا تفصیلی محاسبہ ہے، ان کے لئے جنہیں رقص کا شوق رہتا ہے، جو سات اکتوبر سے مسلسل رقص میں ہیں، کبھی مخالفین کے مرنے پر رقص کرتے ہیں کبھی غزہ کے مظلومین کی موت پر رقص کرتے ہیں، بائیکاٹ کے مطالبے کرتے ہیں، وہ اپنے ہی ملک کے لوگوں کے کاروبار کا بائیکاٹ کرنا چاہتے ہیں، وہ ان عرب ملکوں کے حکمرانوں کو گالیاں دیتے ہیں جن عرب کے حکمرانوں نے آج تک فلسطین کو سنبھالے رکھا۔
کاش اہل عقل اس کو سمجھ سکتے۔