Farhatullah Babar
فرحت اللہ بابر

اسلام آباد میں ریڈیو پاکستان کے باہر کھڑا تھا۔ گرے رنگ کی ایک سوزوکی swift گاڑی ریورس میں آئی اور ہلکے سے میری گاڑی کو ہٹ کرگئی۔
فورا swift کا ڈرائیونگ سائیڈ دروازہ کھلا اور تھری پیس سوٹ میں میانہ قد ایک بزرگ نیچے اتر آئے۔ سفید مونچھیں سفید بال۔ متانت بھری آنکھیں اور معصوم سی مسکراہٹ۔
مجھ تک پہنچے نہیں تھے کہ میں جھٹ پٹ نیچے اتر آیا۔ اس سے پہلے کہ میں کچھ کہتا وہ بولے، بیٹا میں معافی چاہتا ہوں میں نے دیکھا نہیں۔
میں مسکراتا ہوا انہیں دیکھنے لگا۔ اب ہاتھ میرے چہرے پر شفقت سے رکھ کر کہا، بہت معذرت بیٹے۔ میں نے وہی ہاتھ پکڑ کے جلدی سے بوسہ دیا اور کہا
آپ نے میری گاڑی کو ہٹ کیا میرے مقدر سنور گئے۔ گاڑی نہ ہٹ کی ہوتی تو آپ کی دست بوسی کا موقع کیسے ملتا؟ بزرگ ارے ارے کہہ کر ہنس پڑے۔
یہ سینیٹر فرحت اللہ بابر صاحب تھے۔۔!
گلے ملے، دوچار باتیں ہوئیں۔ بولے، ضروری اجلاس میں جا رہا ہوں ورنہ آپ کی خدمت کرتا۔ اپنی چھوٹی سی گاڑی میں بیٹھے، گئیر لگایا اور پارلیمنٹ کی طرف نکل گئے۔
میں پیچھے حیران کھڑا رہ گیا کہ یہ کس موڑ پر کس ولی سے ملاقات ہوگئی۔
فرحت اللہ بابر صاحب کو پھر زمانے بعد اکادمی ادبیات میں دیکھا۔ مجھے لگا وہ کسی تقریب میں مہمان آئے ہیں۔ وہ محض شرکت کے لیے آئے تھے۔ فارغ ہوئے تو چپ چاپ اسی سوفٹ گاڑی میں نکل گئے۔
پھر انہیں بلیک ہول میں دیکھا۔ وہ ایک کتاب کی تقریب رونمائی میں بطور سامع شرکت کرنے آئے تھے۔ سوال جواب کے سیشن میں انہوں نے کتاب پر اپنی رائے بھی دی۔ ان کی گفتگو میں مطالعے کا تنوع صاف نظر آرہا تھا۔
میں نے انہیں کئی بار پریس کلب کے باہر دیکھا۔ جب دیکھا کسی بے آواز کی آواز بنتے ہوئے دیکھا۔
ابھی کچھ ہی عرصہ پہلے مادری زبانوں کے میلے میں ہمارا ایک سیشن چل رہا تھا۔ ہال پر نظر ڈالی تو فرحت اللہ بابر ایک طرف چپ چاپ بیٹھ کر اہل علم کی گفتگو سن رہے تھے۔
سیشن کے بعد انہیں اسی شان بے نیازی سے جاتے ہوئے دیکھا جس شان بے نیازی سے انہیں ہمیشہ آتے ہوئے دیکھا ہے۔
مجھے زمانہ یاد نہیں ہے، مگر فرحت اللہ صاحب جب سینیٹ کے لیے نامزد ہوئے تو ان کے پاس الیکشن کمیشن میں جمع کروانے کے لیے فیس نہیں تھی۔ معلوم ہوا کہ کچھ دوستوں نے مل کر ان کی فیس ادا کردی ہے۔
وہ سینیٹ کی تنخواہ پر ہی گزر بسر کرتے رہے۔ کسی اجلاس سے غائب نہیں ہوئے کسی ذمہ داری سے فرار نہیں ہوئے۔
راولپنڈی کے 'کسی شہری' کی درخواست پر ایف آئی اے نے ان کے خلاف کرپشن اور ٹیکس چوری کی انکوائری کھول دی ہے۔
انکوائری میں کیا نکالیں گے؟
انہوں نے پورے سیاسی کیرئیر میں تین ہی چیزیں تو کمائی ہیں۔ عزت، عزت اور عزت۔ گوشوارے یہ بتاتے ہیں کہ عزت جیسی یہ دولت بھی انہوں نے عاجزی اور جرات کے عوض کمائی ہے۔
ایف بی آر کے کچھ دوستوں سے معلوم کیا تو پتہ چلا کہ عزت اور عاجزی پر تو کسی قسم کا کوئی ٹیکس لاگو ہی نہیں ہوتا۔ جب ٹیکس لاگو ہی نہیں ہوتا تو پھر یہ ٹیکس چوری کا الزام چہ معنی دارد؟
میں نے دیکھا ہے، طاقت کے کاروبار میں سب ٹھیک ہی چل رہا ہوتا ہے۔ رسوائی تب آپ کے گھر کا راستہ دیکھ لیتی ہے جب آپ غلطی سے فرحت اللہ بابر جیسے کسی درویش پر ہاتھ ڈال دیتے ہیں۔
درویش معاف کردے تو بھی رسوائی پیچھا نہیں چھوڑتی۔

