Afghanistan Mein Qabeeh Riwayat Bacha Bazi
افغانستان میں قبیح روایت "بچہ بازی"
ہمارے پڑوسی ملک افغانستان میں باقاعدہ "بچہ بازی" کا گہرا رواج کئی دہائیوں سے مقبول ہے اور مقامی سماجیات پر نہ صرف اثر انداز ہوتا ہے بلکہ اسے نقصان بھی پہنچا رہا ہے۔ "بچہ بازی" کم عمر لڑکوں کا استحصال ہے، کیونکہ نوعمر لڑکوں کو باقاعدہ فحش پرفارمنس میں شامل کیا جاتا ہے۔ ایسی محافل جو 'بچہ بازی' کی رات گئے چلتی ہیں جن میں 10 سے 15 سال کی عمر کے لڑکوں کی محفلیں منعقد کی جاتی ہیں، جن میں لڑکوں کو زمانہ کپڑے اور میک آپ وغیرہ بھی کروایا جاتا ہے، اور ان میں اکثر برہنہ رقص بھی کروایا جاتا ہے۔ آج بھی شمالی افغانستان میں بہت سی ایسی مائیں ہیں جو تھانوں کے سامنے روتی نظر آئیں گی۔ جن کے بچے گمشدہ ہیں اور پولیس کو کم عمر لڑکوں کی گمشدگی کی متعدد شکایات موصول ہوتی ہیں، اور عملی طور پر ان میں سے چند ہی گھروں کو واپس لوٹتے ہیں۔ افغانستان میں، 10 سے 15 سال کی عمر کے لڑکوں کو لڑکیوں کے لباس میں رقص کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے، جس کے بعد جنسی استحصال بھی ہوتا ہے۔
بچوں کے لاپتہ ہونے اور "بچہ بازی" پر مجبور کیے جانے کا موضوع حال ہی میں افغانستان میں دوبارہ سامنے آیا ہے۔ اس ضمن میں اپنی وسیع تاریخ کے باوجود یہ عمل بدستور تشویش کا باعث ہے۔ افغانستان میں یہ کاروبار باقاعدہ ایک تجارت کی شکل میں موجود ہے اس تجارت پر کئی گروہوں کا غلبہ ہے، کئی مقامات "بچہ بازی" کے پروگرامز رات گئے ہونے کے لئے بدنام ہیں اور اکثر شادیوں وغیرہ کی تقریب میں بھی یہ کام ہوتے ہیں۔ یہاں تک کہ وہاں پر امیر و کاروباری افراد اپنی دولت کی نمائش کے طور پر بھی ایسے بچوں کو رکھتے ہیں، جو افغانستان کے امراء کے وقار کا ایک خاصہ سمجھا جاتا ہے۔ اکثر مالدار افراد اپنے ساتھ ایسے لڑکوں کو ساتھی بنا کر رکھتے ہیں، اور "بچہ بازی" کا شکار بننے والے بچے پسماندہ گھروں سے ہوتے ہیں، جن کے والدین اپنے بچوں کے لاپتہ ہونے پر حکام پر دباؤ ڈالنے کے لیے اکثر کوشش نہیں کرپاتے، اس کی وجوہات میں غریب بچوں کا غربت کی وجہ سے "بچہ بازی" میں استحصال کیا جاتا ہے۔
افغانستان میں عملا یہ رواج دہائیوں سے موجود ہونے کی وجہ سے کئی اداروں اور محکمہ پولیس کے اندر بھی ایسے عناصر موجود ہیں جو "بچہ بازی" میں مصروف ہیں اس کی وجہ سے ایسی تمام شکایات کو دبا دیا جاتا ہے اور چونکہ استحصال ہونے والا طبقہ زیادہ تر غریب ہوتا ہے اس وجہ سے اس پر کوئی کاروائی بھی نہیں ہو پاتی، بچوں کی حقوق سے متعلقہ تنظیموں اور پولیس نے بارہا اس پریکٹس کو ختم کرنے اور سخت سزائیں دینے پر زور دیا ہے، لیکن یہ معاملات پورے افغانستان میں جاری ہیں کچھ زرائع کا کہنا ہے کہ ایسے گروہوں میں سے کچھ کے طالبان سے بھی تعلقات ہیں، اور طالبان بھی اس عمل میں شریک ہیں۔ ویسے میں ہمیشہ سے طالبان حکومت کا کئی امور جیسے خواتین کی تعلیم اور بہت ساری فکری آزادیوں کے حوالے سے سخت ترین ناقد ہونے کے باوجود یہ رائے رکھتا ہوں کہ طالبان بچہ بازی کے اس امر کے سخت خلاف ہیں لیکن اس جرم کی جڑیں بہت گہری ہیں، اور یہ روایت وہاں پر دہائیوں سے موجود ہونے کے سبب آج بھی زندہ ہے، یہ ممکن ہوسکتا ہے کہ طالبان کے گروہ کے کچھ لوگ اس میں ملوث ہوں مگر بالمجموع طالبان اپنے منشور کی سطح پر اس امر کے خلاف ہیں۔ امید ہے کہ شائد وہ اس پر قابو پالیں۔