Tuesday, 14 May 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Malik Asad Jootah/
  4. Allah Dekh Raha Hai

Allah Dekh Raha Hai

اللہ دیکھ رہا ہے

ایک دفعہ کا ذکر ہے ایک گاؤں میں ایک کسان رہتا تھا اس کے چار بیٹے تھے۔ ایک کا نام تھا کامران، دوسرے کا سعید اور تیسرے بیٹے کا نام لقمان تھا۔ سب سے چھوٹے بیٹے کا نام موسیٰ تھا۔ کسان اپنے بیٹوں سے کافی محبت کرتا تھا اسنے اپنے بیٹوں کو ایک دن معمول میں بلایا اور بولا آج بیٹوں میں تمہاری عقلمندی اور ذہنی سوچ کا ٹیسٹ لینا چاہتا ہوں اور جو سہی عقل سوچ سے کام لے گا وہی میری آدھی جائیداد کا مالک ہوگا۔ بیٹے بڑے خوش ہوئے اور پوچھنے لگے ایسا کیا کام کرنا ہوگا ابا جی؟

کسان نے کہا۔ بیٹا یہ چار سیب ہیں یہ چار سیب ایسی جگہ پہ کھانے ہیں جہاں تمہیں کوئی نہ دیکھ رہا ہو۔ بیٹے بڑے پرجوش تھے اور سیب اٹھا کر چل دیے اور سوچنے لگے کہ ان سیبوں کو کہاں کھایا جائے جہاں کوئی نہ دیکھ رہا ہو۔ بیٹے گھر سے نکلے باہر کی جانب اور اپنی اپنی سوچ کے مطابق جگہ پہ چلے گئے۔ شام ہوئی تو سب بیٹے گھر کو لوٹے تو کسان نے بلایا اور اپنے سامنے بیٹھایا اور باری باری سے پوچھنے لگا کہ بتاؤ۔

سب سے بڑے بیٹے کامران نے کہا ابا جی میں نے سیب سب سے چھپ کے کھایا ہے جہاں کوئی نہیں دیکھ رہا تھا۔ میں سمندر کی طرف نکل گیا تھا اور تیرتے تیرتے میں سمندر کے بیچ پہنچ کر دیکھا جہاں چاروں طرف پانی تھا میں نے وہ سیب وہاں کھایا۔ پھر دوسرے بیٹے کی باری آئی اور وہ بتانے لگا کہ ابا میں نے ایک زمین کی نچلی سائیڈ کے مکان میں جو کہ زمیں بوس تھا میں نے سیب وہاں کھایا جو کہ وہاں کوئی بھی موجود نہ تھا۔

اور اب تیسرے بیٹے لقمان نے بتایا کہ میں نے سیب صحرا میں کھایا جہاں کوئی بھی نہ تھا ہر طرف ویرانہ تھا۔ سب سے چھوٹے بیٹے موسیٰ کی باری آئی تو وہ چپ ہوگیا اسکے والد نے پوچھا بیٹا تو بھی بتا تو نے کہاں کھایا؟ تو کھڑا ہوا اور بولا بابا مجھے ایسی کوئی جگہ ہی نہیں ملی جہاں میں اس سیب کو کھا پاتا۔ باقی بیٹے حیرانگی سے دیکھنے لگے۔ تو کسان نے پوچھا بیٹا کیا وجہ آخر؟ تو موسیٰ نے جواب میں قرآنی آیات سنائیں۔

يَسْتَخْفُونَ مِنَ النَّاسِ وَلَا يَسْتَخْفُونَ مِنَ اللَّـهِ وَهُوَ مَعَهُمْ إِذْ يُبَيِّتُونَ مَا لَا يَرْضَىٰ مِنَ الْقَوْلِ ۚ وَكَانَ اللَّـهُ بِمَا يَعْمَلُونَ مُحِيطًا ﴿108﴾ سورة النساء

"وه لوگوں سے تو چھپ جاتے ہیں، (لیکن) اللہ تعالیٰ سے نہیں چھپ سکتے، وه راتوں کے وقت جب کہ اللہ کی ناپسندیده باتوں کے خفیہ مشورے کرتے ہیں اس وقت بھی اللہ ان کے پاس ہوتا ہے، ان کے تمام اعمال کو وه گھیرے ہوئے ہے"۔ (108)

تو کسان اٹھا اور اپنے چھوٹے بیٹے کو گلے سے لگا لیا اور اس کو شاباشی دی کی بیٹا واقعی تیری سوچ اور تیری عقلمندی کو سلام ہے۔ اور اس کو آدھی جائیداد کا وارث بنا دیا۔

یہ کہانی لکھنے کا اصل مقصد یہ ہے کہ ہم جو بھی کرتے ہیں ہمیں ہمارا اللہ دیکھ رہا ہے۔ یہ جو بھی ہم عمل کر رہے ہیں وہ اللہ ہمیں دیکھ رہا ہے۔ ہم لوگوں کی نظروں سے تو چھپ جاتے ہیں لیکن وہ ذات ہر وقت ہمیں دیکھ رہی ہے۔ ہم جو یہ ظلم ڈھاتے ہیں جو لوگوں کے حقوق دبا کر خوش ہوتے ہیں ہمیں لوگ تو نہیں دیکھ رہے ہوتے لیکن وہ باری تعالیٰ ہمیں دیکھ رہا ہے۔ یہ جو یتموں اور غریبوں کے حقوق دبا کر ان کو رلا کر خوش ہوتے ہیں۔ حقوق العباد دبا کر لوگوں کی نظروں سے تو بچ جاتے ہیں کیونکہ دنیاوی نظام میں عہدے اور دولت زیادہ اہمیت رکھتے ہیں۔

اس حوالے سے ایک قرآنی آیت۔ (أن تعبد الله كأنك تراه، فإن لم تكن تراه فإنه يراك) [ متفق عليه]۔

"احسان یہ ہے کہ تو ﷲ کی عبادت اس طرح کرے گویا تو اسے دیکھ رہا ہے اور اگر تو (تجھے یہ کيفیت نصیب نہیں اور اسے) نہیں دیکھ رہا تو (کم از کم یہ یقین ہی پیدا کر لے کہ) وہ تجھے دیکھ رہا ہے۔ " [ متفق عليه]۔

اللہ ہر طرف سے ہمیں دیکھ رہا ہے۔

عمر بن عبدالعزیزؒ فرمایا کرتے تھے:

أصلحوا سرائركم تصلح لكم علانيتكم۔

[الكلم الطيب]

اپنے باطن کو ٹھیک کر لو تمہارا ظاہر بھی ٹھیک ہو جائے گا۔

عہد فارقیؓ کا ایک ایمان افروز واقعہ جسے ہم نے کئی بار پڑھا اور سنا ہوگا۔ ایک رات امیرالمومنین حضرت عمر بن خطابؓ اپنے خادم کے ساتھ گشت کے لئے نکلے وہ مدینے کی گلیوں میں لوگوں کے حالات معلوم کرنے کے لئے گھومتے پھر رہے تھے چلتے چلتے انہیں تھکاوٹ محسوس ہوئی تو وہ ایک گھر کی دیوار سے ٹیک لگا کر آرام کی غرض سے کھڑے ہوگئے اتنے میں صبح بھی روشن ہوگئی۔

اس گھر کے اندر سے ایک بوڑھی عورت کی آواز آ رہی تھی وہ اپنی بیٹی کو دودھ میں پانی ملانے کا حکم دے رہی تھی لیکن لڑکی ماں کے اس حکم کی تعمیل سے انکار کر رہی تھی وہ کہہ رہی تھی امیرالمومنین نے دودھ میں پانی ملانے سے منع کیا ہے اور بذریعہ منادی اس کا اعلان بھی کرا دیا ہے۔ ماں نے بیٹی سے کہا کیا اس وقت عمرؓ تمہیں دیکھ رہے ہیں جو تم ان سے ڈر رہی ہو؟ لڑکی نے جواب دیا۔ اگر عمر نہیں دیکھ رہا تو عمر کا رب تو دیکھ رہا ہے۔ سبحان اللہ۔ (بنو اُمیہ میں فاروقی رنگ) سے لیا گیا اقتباس۔

اسی طرح کا ایک قصہ ابن الجوزيؒ نے اپنی کتاب صفة الصفوة میں سیدنا نافعؒ کے حوالے سے نقل کیا ہے۔

سیدنا عبد اللہ بن عمرؓ ایک دن مدینہ کے قریب اپنے ساتھیوں کے ساتھ صحرا میں تھے اور بیٹھے کھانا کھا رہے تھے وہاں سے ایک چرواہے کا گزر ہوا۔ ابن عمرؓ نے اُسے کھانے کی دعوت دی۔ چرواہے نے کہا میں نے روزہ رکھا ہوا ہے۔ سیدنا ابن عمرؓ نے حیران ہو کر کہا کہ اتنے شدت کی گرمی ہے اور تو نے روزہ رکھا ہوا ہے اور تم بکریاں بھی چرا رہے ہو۔ پھر سیدنا ابن عمرؓ نے اُس کی دیانتداری اور تقویٰ کا امتحان لینا چاہا اور کہا: کیا تم ان بکریوں میں سے ایک بکری ہمیں بیچ سکتے ہو ہم تمہیں اس کی قیمت بھی دیں گے اور کچھ گوشت بھی دیں گے جس سے تم اپنا رزوہ بھی افطار کر سکتے ہو۔

چرواہا بولا: یہ میری بکریاں نہیں ہیں یہ میرے مالک کی بکریاں ہیں۔

سیدنا ابن عمرؓ فرمانے لگے: اپنے مالک سے کہنا کہ ایک بکری کو بھیڑیا کھا گیا۔

چرواہا غصے میں اپنی انگلی آسمان کی طرف کرکے یہ کہتے ہوئے چل دیا: پھر اللہ کہاں ہے؟

ابن عمرؓ بار بار چرواہے کی بات کو دہراتے جا رہے تھے کہ اللہ کہاں ہے، اللہ کہاں ہے اور روتے جا رہے تھے اور جب سیدنا عبداللہ بن عمرؓ مدینہ پہنچے چرواہے کے مالک کو ملے اُس سے بکریاں اور چرواہا خریدا اور اُسے آزاد کر دیا اور بکریاں بھی اُسے دے دیں اور اُسے کہا کہ تمہارے ایک جملے نے تجھے آزاد کروا دیا (اللہ کہاں ہے) اللہ سے دعا ہے کہ تجھے قیامت کے دن دوزخ کی آگ سے بھی آزاد کرے۔

(الراوي: زيد بن أسلم المحدث: الألباني - المصدر: السلسلة الصحيحة - لصفحة أو الرقم: 7/469)

اللہ کریم سے دعا ہے ہمیں سیدھے راستے پے چلنے کی توفیق دے۔ ہمارے دلوں میں ڈر اور تقویٰ پیدا فرمائے لوگوں کے ڈر سے نہیں بلکہ اللہ کے ڈر سے کہ یہ ہم چھوڑ دیں۔

Check Also

Maa Ko Hanoot Karna

By Syed Mohammad Zahid