Ik Soch Unkahi
اک سوچ ان کہی
سر آنکھوں پر ہم اس کو بٹھا لیتے ہیں اکثر
جس کے کسی وعدے کی صداقت نہیں ہوتی
اک روز جو لکھنے بیٹھی اک سوچ کو سوچ نہیں شاید گمان تھا گمان بھی نہیں شاید اشتعال تھا تھوڑا اور جو لکھ کے دیکھا معلوم ہوا یہ تو ملال تھا۔ ملال اقبال کے خواب پر، محمد علی جناح کی تعبیر پر اور ان انتھک قربانیوں پر جو اس وطن عزیز کے لیے وقف کی تھیں۔ غور و فکر کیا جائے تو انسانی حقیقت پانی کے بلبلے کی طرح ہے جس کا ختم ہونا امر ہے پھر اتنی لا پرواہیاں کیوں۔ اک قوم کو ہمیشہ ایک حکمران ہی سنوارا ہے۔ عقیدے کے مطابق دنیا میں دو حکمران ہیں اک وہ جو حکمرانوں کا بھی حکمران ہے دوسرا جس کو ہم نے ہمارے لیے چنا ہوتا ہے۔
یہ حکمران آتے جاتے رہتے ہیں اور معصوم قوم کو ہر کوئی اپنے طریقے سے چلانے کی کوشش میں لگ جاتا ہے۔ وہ کہتے ہیں نہ پہلے گرتے پھر سنبھلتے ہیں اور پھر سنبھل کے گرتے ہیں بس یہی حال ہے ہماری سیاست کا بھی۔ ہمارے حکمرانوں نے بہت سنجیدگی سے اس بات کو لیا ہے کہ گرتے ہیں شہ سوار ہی میدان جنگ میں۔ لیکن جب یہ شہسواری کی امید معصوم عوام کواقتدار میں دیکھنے کو نہیں ملتی تو ان کے ارمان پھر مٹی میں مل جاتے ہیں۔ کب تک یہ تماشہ بنے گا کہ پہلے سرکار بنائیں گے پھر اسے گرائیں گے اور گرانے کے لیے ہر حد تک جائیں گے دھرنے دیں گے، جلسے نکالیں گے، عوام کی دلجوئی کے لیے ایسے ایسے قصے ابھارے گے، اور پھر اقتدار کے بعد عوام کی دل آزاری کر کے چلتے بنیں گے۔
کتنا عجیب اتفاق ہے نا رزق کا ذخیرہ بھی انسان کے ہاتھوں ہوتا ہے اور بھوک سے بھی انسان مرتا ہے۔ پہلے پیپلز پارٹی نواز لیگ کے پیچھے تھی پھر نوازلیگ نے پیپلز پارٹی کو اس کی غلطیاں بتائی اب دونوں مل کر تبدیلی کے پیچھے ہیں اور ان کی غلطیاں سدھروانا چاہتے ہیں۔ ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالنا، کھری کھری سنانا، اوقات کو مدنظر رکھنا بس یہی تو ہے سیاست پھر وہ چاہے اپوزیشن کی طرف سے ہو یا اقتدار کی طرف سے بس لفظوں کے تیر سے گھائل کرنا ہے۔ کافی نظریات کو پرکھ کر نتیجہ نکلا کے پستا صرف غریب آدمی ہی پھر وہ چکی چاہے مہنگائی کی ہو یا ڈیموکریسی کے نام پر فریبی کی کیا فرق پڑتا ہے۔ وہ غربت کا مارا ہوا آدمی جو سیاسی جماعتوں کے لیے صرف ایک مہرہ ہے جس کا ذکر اقتدار میں آنے کے بعد کوئی سننا بھی گوارا نہیں کرتا۔
پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ جس میں 11 سیاسی جماعتوں نے شرکت کی ہے اور پرکھنے چلی ہیں تبدیلی کو۔ تبدیلی کی امید تو ہر قوم کو ہوتی ہے اس وقت بھی تھی جب یہ جماعتیں اقتدار میں تھیں اور آج بھی ہے جب تبدیلی خود اقتدار میں ہے۔ محض ایک کرسی اور اقتدار کے پیچھے بھاگنا ڈیموکریسی نہیں ہے۔ ڈیموکریسی لوگوں کے لیے ہوتی ہے لوگوں کی طرف سے ہوتی ہے۔ اور لوگوں کی ایک یا دو دن کے لیے نہیں بلکہ پانچ سال پر مبنی ہے۔ کہتے ہیں دھرتی ماں ہوتی ہے اور مجھے دیکھ کر بہت خوشی محسوس ہوتی ہے کہ ماں کے لئے اس کا خیال رکھنے کے لیے کتنے فرزند امیدواری کے میدان میں اترتے ہیں لیکن ماں کا اقتدار حاصل کرنے کے بعد اس کا خیال کیوں رکھنا چھوڑ دیتے ہیں۔
بہت سے سیاست دانوں کو کہتے سنا ہے کہ ٹرمپ نے اپنی ہار نہیں تسلیم کی ہم کیسے کرلیں۔ امریکہ میں اور ہماری ریاست میں واضح فرق ہے امریکہ ایک طاقتور قوم کی حیثیت سے دنیا کے نقشے پر ابھر چکا ہے اور ہم نے ابھی میلوں فاصلے طے کرنے ہیں۔ اس لیے حکومت اور اپوزیشن دونوں کو چاہیے مزاکرات سے اپنے مسائل حل کریں اور عام، بے بس آدمی کو مدنظر رکھتے ہوئے تجاویز کا تبادلہ کریں۔ ایسا نہ ہو کہ لفظوں کی تکرار اور بیان بازی کے پینترے ایک دوسرے پر بھاری پڑ جائیں۔