Kon Hunde O?
کون ہوندے او؟
ایک ویڈیو کلپ ہے کہیں ڈھونڈ نکالو گے آپ۔۔ کسی گاؤں میں کوئی لڑکا اجڈ لہجے میں ایک میلے کپڑوں میں چمکتی آنکھوں والے بچے سے مخاطب ہے۔۔
اوئے ایدھر آ۔۔
جی۔۔ بچہ قیمض کے دامن کو چھوتا کیمرے کے سامنے ہے۔
اگلا سوال گاؤں کی "تہذیب" والے جانتے ہیں کہ اکثر پوچھا جاتا ہے۔
"کون ہوندے او " (ذات خاندان کیا ہے تمہاری۔۔ اپنی پہچان کراؤ)
بچے کا ریسپانس اور آنکھیں نظر والے دیکھ نہ پائیں شائد۔۔
"مصلی"۔۔ بچہ جواب دیتا ہے۔۔ اسکے لہجے میں شامل ہے کہ ہاں ہم "تہذیبی" طور پر تقسیم شدہ سماج میں ادنی زات کے لوگ ہیں۔۔ اسکا لہجہ اس کی روز مرہ کی کہانی بیان کرتا ہے، جب کوئی بھی اجڈ لڑکا اس سے پوچھتا ہوگا، اوئے کون ہندے او۔۔ اور وہ جواب دیتا ہوگا۔۔ مصلی۔۔ ممکن ہے یہ لہجہ، یہ شرمندگی، یہ ادنی و اعلئ کا احساس اس نے اپنے باپ یا ماں سے سیکھا ہو۔۔
ممکن ہے کسی روز اسکے باپ سے کسی نے پوچھا ہو جب یہ بچہ ساتھ تھا، اوئے کون ہندے او؟ اور اسکے باپ نے ایسے ہی نیویں پا کے شرمندگی والے لہجے، اپنی پیدائش کی شرمندگی والے لہجے میں کہا ہو۔۔ جی اسی مصلی ہوندے۔۔
یہ شرمندگی، یہ ادنی حیثیت پر آمادگی، یہ اشرف المخلوقات کے خود کو کیڑا سمجھ لینے والی سوچ خود بخود پیدا نہیں ہوتی۔۔ ایک پوری "تہذیب" اور اس سے وابستہ مراعات یافتہ طبقات کی حرمزدگیاں اس تفریق کو اس تقسیم کو پالتی ہیں، تاکہ انکو فرمانبردار غلام میسر آتے رہیں، تاکہ انکے نالائق بچے بھی حاکم اور باقی لوگ انکے محکوم رہیں۔۔
مگر قربان جاؤں کہکشاؤں والے خدا کے، جو اس میلے کچیلے، مصلی کے بیٹے میں بھی احساس ذلت احساس شرمندگی رکھ چھوڑتا ہے۔۔ جو خود پر زبردستی کی لگی چھاپ پر ناخوش ہوتا ہے، ۔۔ ممکن ہے اسکے دل سے یہ چنگاری کل کو اسے کسی آزاد دنیا میں جج یا بیرسٹر بنا دے۔۔ جیسے ہم عام طور پر واقعات سنتے ہیں۔۔
اس ویڈیو کلپ کو ذہن میں رکھ کر جب میں نے خواجہ آصف و دیگر کی باتیں سنیں کہ فلاں طاقتور ملک نہ چاہے تو ہم وینٹی لیٹر بھی نہ افورڈ کر سکیں۔۔ تو مجھے لگا کہ قوموں کے اس بین الاقوامی گاؤں میں خواجہ آصف سے پوچھا جا رہا ہے، اوئے کون ہو دے او؟ اور خواجہ آصف اپنے باپ دادا کی مجبوری و شرمندگی کو سامنے رکھتے ہوئے کہہ رہا ہے، جی اسیں مصلی۔۔ مائی باپ، تہاڈے نوکراں دے نوکر۔۔
فرق صرف اتنا ہے کہ۔ خواجہ آصف کے لہجے میں اس ادنی حیثیت میں ہونے کی کوئی شرمندگی نہیں تھی، وہ فخر سے باقیوں کو۔ بتا رہا۔ تھا کہ ہم۔ سب مصلی ہیں اور ہمیں دنیا کے اس گاؤں کے حاکم کی جوتیاں سیدھی کرنے کے عوض جو دانہ گندم۔ ملتا ہے، اس پر راضی رہنا چاہیے۔
ایسے ہی سوشل میڈیا پر آپ بیشمار لوگ جو پینٹ کوٹ اور انگریزی تعلیم سے آراستہ ہونگے، لمبے چوڑے سفارتی آداب بتاتے ہوئے آپ کو سمجھائیں گے کہ آپ اس گاؤں کے مصلی ہو، آپکو چوہدری کے ساتھ کیسے بٹھایا جا سکتا ہے؟ یاد رکھیے، یہ سفارتی آداب بھی انکو اسی "چوہدری" نے اپنی یونیورسٹیوں میں پڑھائے ہئں۔۔ جبکہ انکی ساری جنگی مہارت و مشینری کو اپنی آزاد شلوار قمیص اور بندوق کے ساتھ طلباء نے انکی پشت میں انڈیل دیا ہے۔
اپنے اردگرد ایسے شرمندہ حقیقت پسندوں سے مت الجھیے، انہوں نے باپ دادا سے لے کر اب تک آزادی و برابری کا کوئی۔ منظر نہیں دیکھا۔۔ آپ ان سے جب بھی پوچھیں گے کہ اوئے کون ہندے او۔۔ وہ بتائیں گے جی اسیں غلام ابن اغلام۔۔ کچھ شرمندہ اور کچھ ڈھیٹ۔