Kitni Mohabbatein
کتنی محبتیں
کچھ دن سے بارش ہو رہی ہے۔ جب بھی ایسے میں بھیگنا پڑتا تو کوئی لہر خیال سے چھوتی ہوئی گذر جاتی۔ لیسٹر میں گزری بارشیں ہلکے سے یاد پر دستک دیتی گذر جاتیں۔ آج بینک سے نکلا تو تیز پانی کی چادر کی جگہ ہلکی بوندوں نے ماتھے سے خیال اور خیال سے یادوں کی جانب بہنا شروع کردیا۔ لیسٹر یونیورسٹی کی لائبریری سے نکلتی یاد نے اسٹینڈرڈ چارٹرڈ بینک کی سیڑھیوں والی بارش کو بدل دیا۔
کتنی محبتیں۔ یکدم گداز نرم یادوں نے گاڑی کے وائیپر سے لپٹنا شروع کر دیا۔ میں نے انجانے میں گاڑی قریبی کافی شاپ کی طرف موڑ دی۔ چلو آج لیسٹر والے محمود کے ساتھ کافی پیتے ہیں، دل نے کہا۔ اب دیر سے گلوریا جینز کی گلاس وال سے اترتے قطروں کو لیسٹر کے بھاپ زدہ قہوہ خانے کی کھڑکی سے ملتے دیکھ رہا ہوں۔ خیال کو بھٹکنے کی پڑی ہوئی ہے اور یادیں ہیں کہ امڈ امڈ کر ہمکتی ہیں۔
کتنی محبتیں۔ اس ایک شہر اور ایک سڑک کے کنارے چند عمارتوں نے مجھ سے خواب دیکھنے والے کو حقیقت میں دے ڈالیں۔ مندیپ جیسا کھلنڈرا دوست جو برستی بارش میں برگر ہاتھ میں تھامے ہاسٹل کے کمرے کی کھڑکی بجاتا تو اس کی پھیلی چوڑی مسکراہٹ شیشے کی دھندلاہٹ میں بھی چمک چمک اٹھتی۔ انیسٹیزیا جیسی کلاس میٹ جو بڑی آپا کی طرح اس بگڑے اسٹوڈنٹ کا خیال رکھتی اور اسائنمنٹس کے وقت پر دینے کی زمہ داری سے لے کر کھانے والے ہر لقمے کا خیال رکھتی کہ کہیں اسکے مسلم فرینڈ کو بیکن نہ لگ جائے۔
کتنی محبتیں۔ کہ اب نام بھولتے ہیں۔ ناسیہ جو کبھی خاموش بیٹھے دیکھ کر بچوں کی مانند بہلانے لگتی۔ جسکی بے تکلفی کو مشرقی مرد بیباکی سمجھنے لگا تو اسکے آنسو رشتہ بن کر سینے سے لپٹ گئے۔ تب سمجھ میں آیا کہ رشتوں کے درمیان سے صنف نکل جائے تو وہ محرم ہو جاتے ہیں۔
کتنی محبتیں۔ کہ اب نام بھولتے ہیں۔ زیفی، جو بظاہر یونانیوں کے مخصوص احساس تفاخر سے لبالب بھری مغرور لڑکی۔ جب بھی اسکی ماں یونان سے آتی وہ اپنے دشمن پاکستانی کے لیے مٹھائی اور زیتون منگوانا نہ بھولتی۔ کافی بناتے ہمیشہ اسکے کپ سے زیادہ کافی بن جایا کرتی اور اکثر لانڈری میں ایکسٹرا سکے وہ غریب پاکستانی کو دے ڈالتی۔
کتنی محبتیں۔ اومان کا حسن، جس نے پہلی بار عربوں کی دوستی اور محبت سے آشنا کروایا۔ اسکی گرم جوش مسکراہٹ، جو کبھی ماند نہ پڑتی اور جب تک اسکے ساتھ رہتا اس کی قابل دید بے چینی کہ مزید کونسی عربی ڈش کھانے کو دے۔ اسکی کسی چیز کو استعمال کرنے کی اجازت پر وہ برا مان جاتا۔
کتنی محبتیں۔ کہ اب نام بھولتے ہیں۔ پال، ایک مغرور برطانوی۔ جو مخصوص برطانوی لہجے میں ایسی انگلش بولتا کہ میں کھلے منہ سے انیسٹیزیا کو ترجمہ کرنے کا کہتا اور وہ بے چارگی سے کاندھے اچکا دیتی۔ ہر وقت مصروف اور سڑا ہوا رہنے والا پال ہماری کمپنی میں گھنٹوں بیٹھا رہتا مگر کبھی مانتا نہیں کہ وہ خوشی سے بیٹھا ہوا ہے۔
کتنی محبتیں۔ کہ اب نام بھولتے ہیں۔ رودوپی، یونیورسٹی کی بیزار کردینے والی شاموں کی بہترین ساتھی۔ جن ہفتوں میں سب طالب علم کونوں کھدروں میں اسائنمنٹ کی ڈیڈلائن پر ماتم کر رہے ہوتے۔ رودوپی اطمینان سے شام کی چائے سے رات تین بجے کی کافی تک بات کرتی۔ جس کو کبھی وقت کا احساس نہ ہوتا۔ نہ وہ گھڑی کی جانب دیکھتی۔ فلسفہ ادب اور تاریخ۔ ہر بات کا اختتام ایک نئے سگریٹ پر کرتی۔ تم نہ پینا۔ اچھا نہیں ہوتا وہ مجھے بے طرح گھورا کرتی۔ اسکا ہندی بوائے فرینڈ ایک پاکستانی سے اسکی اتنی الفت سے جیلس ہو جاتا تو اسکو جلانے کے لیے سبز ستارے والی قمیص پہنتی اور چودہ اگست مناتی۔
کبھی کبھی سوچتا ہوں انسان کیا ساری زندگی ایک ہی زندگی جیتا ہے۔ مجھے تو لگتا ہے کہ اس کم عرصے میں میں کئی زندگیاں جی گیا۔ اس لیسٹر شائیر کے لیسٹر میں۔ یونیورسٹی روڈ کے کنارے برستی بارش کے قطروں میں۔ یونیورسٹی لائیبریری کے کاریڈورز میں۔ اور رودوپی مندیپ انسٹیزیا اور پال کے ساتھ میں۔
کتنی محبتیں۔ کہ اب نام بھولتے ہیں۔