Hua Kya Hai?
ہوا کیا ہے ؟
امریکی صدر جوبائیڈن آن کیمرہ پرسکون بیٹھ کر کہہ رہا ہے کہ ہم نے ترکی کے صدر ایردغان کو اپنی مرضی نہیں کرنے دینا۔ ہم کوشش کر رہے ہیں کہ ترکی میں حکومت تبدیل ہو جائے۔ اور ایسا ہم کسی حملے قبضے سے نہیں کریں گے، ہم تو صرف یہ کریں گے کہ اس کے سیاسی مخالفین سے رابطے کریں گے، اور انکی مدد کریں گے (کہ ترکی میں حکومت الٹ دی جائے)۔
امریکہ ترکی میں حکومت کیوں بدلنا چاہتا ہے؟ کیا اس لیے کہ وہاں مہنگائی زیادہ ہو گئی ہے۔ اور عام آدمی کی زندگی اجیرن ہو گئی ہے؟ کیا اس لیے کہ وہاں عام ترکی کو انصاف نہیں مل رہا؟ کیا اس لیے کہ وہاں قانون کی حکمرانی ایسی نہیں کہ عام آدمی کی زندگی بہتر ہو سکے۔۔ اس لیے امریکہ کے درد اٹھ رہا ہے کہ وہ ترکی میں ایسا رجیم لائے جو عام آدمی کی زندگی بہتر بنا سکے۔
یقیناً آپ سب جانتے ہونگے کہ امریکہ اپنے مفادات کے تحت ان ممالک میں حکومتیں بدلتا ہے جن خطوں میں اس کے اسٹریٹجک مفادات جڑے ہوں۔ ترکی بھی ان میں سے ایک ملک ہے۔
ترکی کے لیے امریکی صدر کے اس بیان کے بعد کیا ترکی کی کسی عدالت کو یہ ثابت کرنے کی ضرورت ہے کہ امریکہ ترکی میں حکومت کی تبدیلی چاہتا ہے اور ایردغان کو تبدیل کر کے اپنی مرضی کی پتلی لگانا چاہتا ہے؟ اور اسکے لیے وہ "سفارتی زرائع" استعمال کریگا، جس کے لیے وہ پوری دنیا میں پہلے سے بدنام ہے۔ ان سفارتی زرائع میں دھونس، دھمکی، دھاندلی، پیسہ، عہدے، وزارتوں کا لالچ، ڈالرز، امریکی دورے، اور کسی مشکل میں پھنس جانے کی صورت میں "نکال لے جانے کی ضمانت شامل ہوتے ہیں۔
اسی تناظر میں پاکستان کو ایک امریکی سفیر کے ذریعے بالکل وہی دھمکی عمران خان کے لیے دی جاتی ہے۔ اور یوں لگتا ہے جیسے امریکی صدر خود بیٹھ کر وہی بیان لکھوا رہا ہو کہ ہم عمران خان کے اقدامات سے خوش نہیں ہیں، اور اسکو سیاسی طور پر تنہا کر کے حکومت سے بیدخل کرنا چاہتے ہیں۔ اس کے لیے ہم اپنے سفارتی زرائع کے ذریعے عمران حکومت کے مخالفین سے رابطے میں ہیں تاکہ عمران خان کو حکومت سے ہٹایا جا سکے"۔
اس سارے عرصے میں امریکہ کے "سفارتی زرائع" بہت تندہی سے ہمارے پارلیمنٹیرینز سے ملاقاتیں کر رہے ہیں، ہمارے اپوزیشن کے لیڈرز سے ملاقاتیں کر رہے ہیں۔ ایک پارلیمینٹرین قران کی قسم کھا کر کہتی ہے کہ اس کو "ایک فارن ملک" کی ایمبیسی میں بلایا گیا اور تین گھنٹے تک اس سے پوچھا جاتا رہا کہ وہ مولانا فضل الرحمٰن کے بارے میں کیا رائے رکھتی ہے؟ وہ نواز شریف کے بارے میں کیا رائے رکھتی ہے؟ وہ بلاول کے بارے میں کیا رائے رکھتی ہے؟ چونکہ اس کے جوابات سے اطمینان نہیں ہوا اس لیے اسکو آفر نہیں دی گئی۔
بچپن میں اگر آپ نے نقطے ملانے والا کھیل کھیلا ہے تو بس اتنی سی عقل درکار ہے باقی نقطے ملا کر تصویر بنانے کے لیے۔ مگر اگر آپ کا ذہن کشادہ اور عقل آزاد ہو تو۔
اس سارے عمل کے بعد پاکستان میں بیس پچیس حکومتی پارلیمینٹرینز کا ضمیر جاگ جاتا ہے، اور اپوزیشن قائدین کو تحریک عدم اعتماد کا اشارہ مل جاتا ہے۔ چونکہ ہماری اپوزیشن کے عناصر ترکی کی اپوزیشن کی طرح اپنے ملک سے وہ کمٹمنٹ نہیں رکھتے جو آزاد قوموں کے افراد رکھتے ہیں۔ بلکہ ہماری اپوزیشن کے گٹھ جوڑ کو اگر غور سے دیکھیں تو ان سب کے سارے کے سارے مفادات امریکہ سے جڑے ہوئے ہیں، انکی جائیدادیں بیرون ملک ہیں، انکی کاروبار اور اولادیں بیرون ملک ہیں۔ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ یہ سب لیڈر کی کھال میں بوزنے ہیں، بونے ہیں، غلام ہیں۔ امریکہ کی اترن بھی انکے لیے خلعت فاخرہ ہے۔۔ اس لیے یہاں امریکہ کو آسانی سے وہ لوگ میسر آ جاتے ہیں جو اس حکومت کا پانسہ پلٹنے میں مددگار ہو سکیں۔
یہاں ایک بات کہنا ضروری ہے۔ آپ یہ مت سمجھیں کہ دو تین گھنٹے کی ملاقات میں جب پالیمنٹرینز سے اپوزیشن رہنماؤں کے بارے میں پوچھا جاتا ہوگا، اور مناسب خیالات پا کر ان پارلیمنٹرینز کو آفر دی جاتی ہوگی تو وہ ان الفاظ میں ہوگی کہ "ہم آپ کو بیس کروڑ دیں گے، آپ نے بس یہ کرنا ہے کہ ان اپوزیشن لیڈرز کے ساتھ مل کر حکومت کا بیڑہ غرق کر دینا ہے تاکہ ہم خطے میں اپنی مرضی کے مہرے رکھ کر چال چل سکیں "۔۔
نہیں نہیں۔۔ بلکہ ان الفاظ کا استعمال کیا جاتا ہے۔ "آپ ایک محب وطن پاکستانی ہیں جو پاکستان کی بہتری کے آگے کسی شخصیت پرستی میں نہیں پڑتے۔ آپکا آزاد سوچنے کا انداز ہمیں اچھا لگا۔ ہمارے خیال میں عمران خان پاکستان کے لیے اچھا نہیں ہے۔۔ اگر وہ چند ماہ بھی اور رہا تو ہمارے لیے مشکل ہو جائیگا کہ پاکستان کی کچھ مدد کر سکیں۔ یہ ملک دیوالیہ ہو جائیگا، اور ہم کچھ بھی نہ کر سکیں گے۔۔ مگر آپ اگر اپوزیشن کے ساتھ مل کر اس ملک کو عمران خان سے بچانا چاہیں گے تو ہم آپ کے اس عظیم مقصد میں مددگار ہونگے، کیونکہ خطے میں ایک مضبوط پاکستان ہی ہماری خواہش ہے۔۔ اس کے لیے آپ کو فوری طور پر مالی مدد بھی فراہم کی جائیگی اور آئندہ حکومت میں بھی آپکی اچھی پوزیشن کے لیے ہم سفارش کریں گے"۔
اس کے بعد وہ اپوزیشن جو بھان متی کا کنبہ بنی ہوئی تھی۔ جن کو مولانا فضل الرحمن اپنی پوری کوششوں کے باوجود اکٹھا نہیں کر پایا تھا، اب سب یکجان ہو جاتے ہیں۔ یقیناً ان سب کو بھی یہی سبق اچھے الفاظ میں پڑھایا گیا ہوگا کہ سب مل کر پاکستان کو بچانے کے لیے اکٹھے ہوجاؤ، ہم آپ کے ساتھ ہیں۔۔ ہم جانتے ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ آپکے تعلقات اچھے نہیں ہیں، مگر اس کا بندوبست بھی ہو جائیگا۔۔ مگر آپ سب کو ایک ساتھ کام کرنا ہوگا۔۔ یہ پاکستان کے لیے اور آپکی سیاست کے لیے بہتر ہوگا۔
اب اس میں غداری والی کونسی بات ہے؟ یقیناً بطور اپوزیشن ان تمام لوگوں کا حق تھا کہ اپنی سیاست، اپنی نسلوں کی حاکمیت، اور اپنی سات نسلوں کے لیے سیاست سے کمائی دولت کی حفاظت کے لیے کسی بھی حد تک جائیں۔۔ مگر یقیناً انکو بھی ننگے الفاظ میں کہا جاتا کہ "ہم آپ کو عمران خان کے خلاف اس لیے استعمال کرنے جا رہے ہیں کیونکہ عمران خان کی خارجہ پالیسی ہمارے لیے تھریٹ ہے، خطے میں اور دنیا میں عمران خان ہمیں ذلیل کر رہا ہے، اور ہماری عملداری کو چیلنج کر رہا ہے، اس لیے ہم اسکو ہٹانا چاہتے ہیں۔ اور پاکستان کو بطور ریاست ہمیشہ اپنا سرنگوں بنا کر رکھنا چاہتے ہیں "۔۔ میرا اب بھی یقین ہے کہ ایسے کہا جاتا تو ایک بار ان تمام کو بھی شائد سوچنا پڑتا۔۔ مگر دولت کی ہوس اور سروائیول پھر بھی یقیناً غلبہ پا لیتا۔
اس کے بعد تحریک عدم اعتماد پیش ہوتی ہے۔ عمران خان خط لہراتا ہے۔ قومی سلامتی کمیٹی خط کے مندرجات اور دھمکی کو درست قرار دیتی ہے۔ اسپیکر اسی بنیاد پر تحریک عدم اعتماد مسترد کرتا ہے اور وزیراعظم اسمبلیاں تحلیل کر دیتا ہے۔ وہ عدالت جو چند روز پہلے 69 آرٹیکل کے حوالے سے پارلیمانی کارروائی میں دخل اندازی سے معذرت کرتی ہے، فوری سوموٹو لیتی ہے۔
پاکستان کا مین اسٹریم میڈیا جو واضح طور پر ون سائیڈڈ ہوچکا ہے اور عوام اصل خبر کے لیے اب سوشل میڈیا دیکھتے ہیں، مسلسل پانچ روز تک عدلیہ پر نفسیاتی دباؤ ڈالتے ہیں، اور پورے ملک میں کسی وکیل، جج، جرنیل کی آواز نہیں نکلتی۔ اپوزیشن کا ایک ایک بیان عدلیہ کو انڈرپریشر کرنے والا ہوتا ہے۔ اور یہ ماحول بنا دیا جاتا ہے اور کھلم کھلا بیان دیے جاتے ہیں کہ اگر فیصلہ ہمارے خلاف آیا تو ہم ملک گیر احتجاج کریں گے۔
یہاں اسٹیبلشمنٹ (کسی وجہ سے) "نیوٹرل" ہو جاتی ہے۔ اور اسکے علاوہ اسٹریٹ پاوور کا ایک نیا پالا ہوا "کھلاڑی" جن کا کام ناموس رسالت تک تھا، اب وہ ناموس آئین کے لیے بھی باہر نکلنے کی دھمکی لگا دیتے ہیں۔ گویا سارے مہرے اپنی اپنی جگہ رکھ دیے گئے ہیں۔
اور بالاخر ہوتا وہی ہے۔ عدلیہ نہ صرف آرٹیکل 69 اور آرٹیکل 5 کو مقدے میں ڈسکس نہیں کرتی، بلکہ چند روز پہلے 69 کا حوالہ دیکر اپنی حیثیت پہنچاننے والی عدلیہ پارلیمان کو "ہدایات" دے رہی ہے کہ اجلاس کس وقت بلانا ہے، اور مزید کیا کیا کرنا ہے۔ (یہ ایک الگ کہانی ہے جیوڈیشیل ایکٹوزم ہے یا واقعی عدلیہ پارلیمنٹ کو ایسے احکام دے سکتی ہے، "نظریہ ضرورت" کے تحت)اور بالاخر عمران خان حکومت سے الگ کر دیا جاتا ہے۔
جوبائیڈن کے ویڈیو کلپ کو ایک بار پھر دیکھ لیجیے۔ اور اس میں ایروغان کی جگہ عمران خان لگا کر سمجھ لیجیے۔ بس یہ ہوا ہے۔۔ باقی سب کٹھ پتلیاں ہیں۔ جو اسکرپٹ کے مطابق اپنا اپنا کام کر رہی ہیں۔