Wednesday, 27 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Mahmood Fiaz
  4. Hassas Mozu

Hassas Mozu

حساس موضوع

میرے پاس متعدد ایسے کیسز آ چکے ہیں کہ میں اس پر لکھنے پر مجبور ہوگیا ہوں۔ حالانکہ میرا اب بھی گمان ہے کہ یہ کیسز بہت ہی کم تعداد میں ہونگے۔ لیکن جس ٹراما سے ایسے کپلز گزرتے ہیں اس کے پیش نظر میں اس پر فوکس کر رہا ہوں۔

یہ موضوع ہے شادی میں ازدواجی جنسی تعلقات قائم کرنے سے متعلق۔ ہر چند ہفتوں کے بعد ایک آدھ مسئلہ ایسا سامنے آجاتا ہے جس میں شوہر سے بیوی کی شکایت ہوتی ہے کہ وہ اپنے ازدواجی حقوق ادا کرنے سے قاصر ہے یا کرنے سے کنی کتراتا ہے۔ چند ایک کیسز ایسے بھی ہوئے جن میں شادی کے فوری بعد کئی ماہ تک یہ تعلق قائم نہیں ہو سکا۔

جنس کی نفسیات، انسانی نفسیات میں پیچیدہ سائنس میں شمار کی جا سکتی ہے۔ یہ وہ علم ہے جس کی گہرائی بھی کہکشاؤں اور کائنات کی عمیق ترین گہرائیوں جیسی نامعلوم ہے۔ جتنا اس میں ریسرچ کی جا رہی ہے انسانی جذبات کی اتنی ہی تہیں سامنے آتی جا رہی ہیں۔ لیکن ہمارا موضوع خوش قسمتی سے محدود اور میاں بیوی کے عام ازدواجی تعلقات میں جنسی کشش اور جنسی عمل تک محدود ہے۔ اس لیے بات کرنے اور سمجھانے میں آسانی ہے۔

بات یہ ہے کہ دو جنریشن پہلے تک جنسی معاملات میں نفسیاتی الجھنیں کم ہوا کرتی تھیں۔ بہت بڑا مسئلہ ہوتا تو واضح جسمانی نامردمی کے کیسز ہوا کرتے تھے، یا پھر شرم و حیا اور معاشرے کے دباؤ کی وجہ سے ہیجڑے مرد و عورت اپنی اصلی جنس کو بیان نہیں کر سکتے تھے تو ایسی الجھنیں اندر ہی اندر کچھ زندگیاں ضرور خراب کر دیتی تھیں۔

عمومی طور پر صحتمند جنسی صحت عام تھی اور اسکی وجوہات، سادہ طرز زندگی، سادہ خوراک، جنسی ہیجانیت کے مواقع انتہائی کم ہونا، اور نفسیاتی طور پر معاشرے کا صحتمند ہونا تھا۔ اس کے علاوہ بڑی وجہ شادی سے پہلے جنسی طور پر بالکل ایکٹو نہ ہونا، اور مرد و عورت کو آپس میں تنہائی ملنے کے کم مواقع بھی شامل کر لیں۔ ایسے میں شادی ہی واحد جنسی تعلق کا ذریعہ تھی۔ اس لیے شادی کے بعد یہ عمل فریقین کے لیے خوشگوار زندگی کا آغاز ثابت ہوا کرتا تھا۔

لیکن پچھلی دو تین دہائیوں میں معاشرے کی عمومی صحت کا معیار (ہمارے یہاں) گرا ہے۔ ہماری ہر آنے والی نسل پچھلی نسل سے کمزور اور مصنوعی اور ملاوٹ شدہ خوراک پر پلتی ہے۔ شوگر، بلڈ پریشر، ڈپریشن جیسی بیماریاں بہت کم عمر میں لوگوں کی زندگیوں پر اثر کر رہی ہیں۔ اس کے علاوہ جنسی ہیجانیت شائد تاریخ میں ریکارڈ سطح پر ہے۔ ڈیجیٹل میڈیم آنے کی وجہ سے جنسی ویڈیوز بچوں کو بھی آسانی سے دستیاب ہیں۔ اس کی وجہ سے پری میچور بلوغت لڑکوں، لڑکیوں میں عام ہے۔

ان وجوہات کی وجہ سے معاشرے میں کچھ تبدیلیاں آئی ہیں اور وہ یہ ہیں کہ نئی نسل کے لیے جنسیت اب کوئی شجر ممنوعہ نہیں ہے۔ زیادہ تر لڑکے لڑکیاں بلوغت کے فوری بعد جنسی طور پر ایکٹو زندگی گزارنے لگتے ہیں۔ لیکن یہ جنسی ایکٹوٹی ضروری نہیں نارمل ہو، کیونکہ ہمارے معاشرے میں جنسی معاملات پر ویسی آزادی نہیں ہے جیسی مغربی ممالک میں ہے۔ تو زیادہ تر یہ جنسی عمل غیر قدرتی، یا گناہ اور خوف کی نفسیات کے درمیان ہوتا ہے۔ ایک بڑی تعداد عملی طور پر جنسی عمل کرنے کی بجائے خیالی ہیجانیت سے لطف حاصل کرنے کے عادی ہو جاتے ہیں۔ اس کے لیے پورن ویڈیوز سے، یا کسی جنسی منظر کے دیکھنے سے ابتدا ہوتی ہے اور انتہا نامعلوم ہوتی ہے۔

اوپر بیان کیے گئے حالات کے بعد بظاہر تو یوں لگتا ہے کہ نئی نسل کو اس عمل میں کوئی مشکل نہیں پیش آتی ہوگی اور پرانے زمانے کی بجائے وہ زیادہ بہتر اور صحت مندانہ جنسی زندگی گزارتے ہوں گے۔ افسوس کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ ایسا نہیں ہے۔ زندگی باقی معاملات میں جیسے پیچیدگی کا شکار ہوئی ہے، اس شعبے میں بھی بہت مسائل بڑھ گئے ہیں۔

یہاں تک پڑھنے والوں کو اندازہ ہوگیا ہوگا کہ میں جنسی تعلقات کے حوالے سے پاکستان میں جاری "نامردی کی ادویات"، یا سہاگ رات کے لیے اسٹرائیڈز کے استعمال جیسے موضوع پر بات نہیں کر رہا۔ بلکہ ایک عام میاں بیوی کے طور پر نئی نسل کے نفسیاتی و جسمانی ان مسائل کی بات کر رہا ہوں جن کی وجہ سے انکی کی ازدواجی زندگی کا آغاز ہی برا ہوتا ہے اور اکثر شادیاں ٹوٹ بھی جاتی ہیں۔

ایک بہت اہم پہلو، جس کے بغیر یہ موضوع نامکمل رہیگا، وہ مرد و عورت کے بدلے ہوئے کردار بھی ہیں۔ جن کا ہماری نسل کے جنسی رویوں پر بھی فرق پڑا ہے۔ وہ یہ ہے کہ عورتیں جنسی معاملات میں پہلے سے زیادہ بے باک اور کھل کر اظہار کرنے والی بن چکی ہیں اور مردوں کو اپنے مردانہ جنسی رویوں کو دبانے کا پریشر ہے۔ اس کی وجہ سے میں دیکھتا ہوں کہ مرد جنسی معاملات میں نفسیاتی پریشر کا شکار بھی ہیں۔ جبکہ نفسیاتی پریشر مرد کی جنسیت کے لیے انتہائی خطرناک قاتل ہے۔

جیسا میں نے تحریر کے شروع میں کہا، ایسے جوڑے ابھی کم ہیں (یا میرے پاس آنے والوں میں انکی تعداد تین سے پانچ فیصد ہوگی) لیکن نفسیاتی اثرات ایسے ہیں کہ میرا خیال ہے یہ بہت سے جوڑوں میں مسائل یا پیدا ہونگے یا موجود ہیں، مگر لوگ اس کو رپورٹ نہیں کر رہے۔

میرا مشورہ ایسے تمام جوڑوں کو یہ ہوگا کہ مغربی انداز زندگی، جو آپ گذار رہے ہیں، اس کا ایک لازمی حصہ جنسی نفسیاتی مسائل پر باقاعدہ اپنی صحت کا جائزہ لینا بھی ہے۔ اس لیے بجائے ان مسائل کی وجہ سے اپنی شادی شدہ زندگی کو خراب کر لینے کے، آپ کو اس کے لیے پروفیشنل مدد لے لینا چاہیے۔ نفسیاتی طور پر ایسے اکثر رویوں کے لیے کچھ نہ کچھ تھراپی موجود ہے۔ پاکستان میں کم کم ہے مگر موجود ہے۔

والدین سے بھی درخواست ہے کہ بچے بچیوں کی شادی کرتے وقت انکی کونسلنگ کیجیے۔ پہلے وقتوں میں یہ کونسلنگ لڑکیوں کے لیے گھر کی خواتین کیا کرتی تھیں، اور لڑکے کے لیے اس کے بزرگوں میں سے کوئی بےتکلف چچا، کزن وغیرہ۔ اور انکو نارمل اور ایبنارمل رویوں کے بارے میں آگاہ کیا کرتے تھے۔ موجودہ طرز زندگی میں بچے بچیوں کو شادی کے وقت کوئی سنجیدہ صلاح دستیاب نہیں ہوتی بلکہ میڈیا پر موجود جنسی ہیجانیت پر مبنی نفسیاتی بگاڑ پیدا کرنے والی معلومات ہوتی ہیں۔

Check Also

Aaj Soop Nahi Peena?

By Syed Mehdi Bukhari