Hamara Media Content Aur Aurat Par Zulm
ہمارا میڈیا کانٹینٹ اور عورت پر ظلم
عورتوں کے ڈراموں کے لیے مخصوص چینل پر ڈرامہ چل رہا تھا، ایک خوبرو اداکارہ دلہن کے کپڑوں میں بیٹھی تھی، پاس ایک وجیہہ مرد اداکار محبت بھرے مکالمے بول رہا تھا۔ یکایک وہ چیخ کر رونے لگی، اسکو اپنا بچہ یاد آ گیا جو اسکی ماں نے اسکی دوسری شادی کرتے ہوئے گھر میں رکھ لیا تھا۔ وہ بھاگ کر باہر نکلتی ہے، نیا شوہر اس کو گاڑی میں بٹھا کر واپس آدھی رات کو میکے لے جاتا ہے، اور کچھ مزید جذباتی ڈائیلاگ بول کر وہاں سے بچے کو ساتھ لے آتے ہیں۔
اگلی صبح ناشتے کی میز پر رات والی دلہن نوالہ چباتے ہوئے پیار سے شوہر کی طرف دیکھتی ہے اور کہتی ہے، "آپ واقعی بہت مزیدار آملیٹ بناتے ہیں "۔ یہ ہے وہ خواب جو ہماری عورت کو میڈیا ایجوکیشن سے مل رہا ہے۔ اس خواب اور ہمارے معاشرے کی حقیقت میں کتنا فاصلہ ہے، وہ جاننے والے جانتے ہیں۔ جو گلی محلے اور گاؤں گوٹھ میں زندگی کو اپنی آنکھ سے دیکھتے ہیں۔ اس نوے سیکنڈز کے "فلمی منظر" میں پہلے بچے والی عورت کی دوسری شادی ایک پیسے والے، خوبرو، سمجھدار، حساس، اور سب سے بڑھ کر مخلص مرد سے ہو جاتی ہے جو شادی کی اگلی صبح اس کو اپنے ہاتھ سے کھانا بنا کر کھلاتا ہے۔
یہ ایک ایسا خواب ہے جو ہمارے جیسے سماج میں ابھی کوسوں دور ہے، اور اگر آپ مجھے کہنے کی اجازت دیں تو بتاؤں کے مغربی معاشرہ جو عورت کو برابری کی سطح پر دیکھنے اور لانے میں ایک صدی آگے ہے، وہاں بھی یہ خواب ہی ہے۔ ایک بچوں والی عورت کو اگلا مرد ملنا بھی دشوار ہوتا ہے، ایک مغربی معاشرے میں بھی۔ جہاں وہ ہر ویک اینڈ سج سنور کر بار یا کلب میں جا کر اپنی پسند ناپسند کا فیصلہ خود کر سکتی ہے۔ وہاں بھی اس کو مردوں کی اس لائن میں سے انتخاب کرنا پڑتا ہے جو "بیگیج والے رشتے" میں انٹرسٹڈ ہوں۔ جن کو بیگیج والی اصطلاح کا نہیں پتہ، وہ مغربی معاشرے کی ڈیٹنگ فلاسفی نہیں سمجھ پائیں گے۔
مگر مختصراً یہ کہ عورت کی برابری والے اس معاشرے میں بھی بچہ فقط رسمی حد تک دونوں کی زمہ داری ہوتا ہے، نوے فیصد کیسوں میں صرف ماں ہی بچے کی زمہ دار اور گارڈین کہلاتی ہے۔ ایسی زمہ داری کو اس عورت کا (یا مرد کا) بیگیج خیال کیا جاتا ہے، جو اپنے لیے بہتر چاہنے والے معاشرے میں ایک برائی سمجھا جاتا ہے کہ ایک ایسی عورت سے تعلق رکھا جائے جو بچوں والی ہو۔ ہمارے معاشرے میں کبھی نوجوان لڑکوں کے گروپوں میں جھانک کر تو دیکھیے۔
خود دنیا بھر کی حرامزدگیاں کرتے لڑکے کو بھی گاؤں کی وہ الہڑ دوشیزہ چاہیے ہوتی ہے، جس کو کسی نے میلی آنکھ سے نہ دیکھا ہو۔ ہاں شہروں میں اب ڈیٹنگ اور گرل فرینڈز والی وبا کی وجہ سے بظاہر کچھ لڑکے یہ سمجھتے ہیں کہ عورت کا جسم اسکی اپنی مرضی ہوتا ہے، مگر اندر سے سب وہی پاکستانی مرد ہیں، جو شادی کے دو سال بعد بھی ڈیپریس رہتے ہیں کہ ان کو لگتا ہے انکی بیوی سہاگ رات کو کنواری نہیں تھی۔
ہمارے ہی معاشرے کی دوسری تلخ حقیقت یہ ہے کہ طلاق یا بچوں والی عورت کی شادی کے لیے ایسے رشتے آتے ہیں جو ماں باپ چاہ کر بھی کڑوا گھونٹ نہیں بھر سکتے۔ کوئی کاروباری اور کھاتا پیتا ہوگا، تو دوسری یا تیسری شادی ہوگی، اور عمر کا دوہرا فرق ہوگا۔ کوئی ہم عمر ہوگا، تو بیروزگار، اور اکثر حالات میں نکما اور نکھٹو ہوگا، جسکی شادی ویسے ناممکن ہوگی۔ یہ دو نہ ہوں تو تیسرا ایسا گھرانہ ہوگا جن کو بہو کے نام پر ایک کام کرنے والی مشین چاہیے ہوگی، زیادہ تر کیسز میں پہلی شادی کے بچے نانا نانی ہی سنبھالتے ہیں۔
ایک ایسے معاشرے میں جہاں ہر لحاظ سے قابل لڑکیوں کی شادی ایک بھیانک عفریت بن چکا ہے، وہاں ایک بچے والی ماں کی ایسی شادی اور ایسے شوہر کا خؤاب دکھانے والا میڈیا معاشرے کی عورت کو کن نفسیاتی الجھنوں کا شکار کرتا ہے اسکا اندازہ کرنا مشکل نہیں ہے۔ ایسے ڈرامے دیکھنے والی لڑکی اپنے ذہن میں بیرونی دنیا میں ایک شہزادے کا جو تصور پال لیتی ہے، یا کم از کم اپنے ہونے والے شوہر سے جو توقعات باندھ لیتی ہے، حقیقت کو اسکے بالکل برعکس پا کر ہزار طرح کے ذہنی تکلیف و تشدد کا شکار ہوجاتی ہے۔ جس کا زیادہ حصہ اسکے شوہر سے نہیں، میڈیا کے ایسے خوابوں کی وجہ سے ہوتاہے۔