Gorastan Ki Yaadein (5)
گوراستان کی یادیں (5)
صبح نو بجے، ستمبر کی دھوپ یونیورسٹی کے درو دیوار کی خنکی کم کرنے کی کوشش میں تھی، برفیلی ہوائیں ابھی انگلینڈ کے میدانوں میں نہیں اتری تھیں، مگر موسم سردی کی آمد کا پتہ دے رہا تھا۔ انگلینڈ کا نیلا آسمان بے حد نیلا ہو رہا تھا۔ لیسٹر یونیورسٹی کے ایڈمن بلاک میں آٹھ سے دس منزلہ عمارتیں ایک دوسرے سے مناسب فاصلہ رکھے کھڑی تھیں۔
ان عمارتوں کے درمیانی حصہ میں پختہ اینٹوں سے بنا ہوا احاطہ تھا، جو ایک طرف وسیع فٹبال گراؤنڈ سے جڑا ہوا تھا۔ اس احاطے سے کچھ فاصلہ چھوڑ کر فالکن بلڈنگ تھی، جس کے ایک ہال میں میں اپنے پہلے ہفتے کی مصروفیات میں گم تھا۔ رجسٹریشن ہو گئی تھی، البتہ نئے قواعد کے مطابق تمام انٹرنیشنل طلباء کو ایک فارم مقامی پولیس کو جمع کروانا تھا۔
جسکے لیے میں ایک قطار میں کھڑا اپنی باری کے انتظار میں تھا، کہ ایک پنجابی لہجے نے مجھے اپنے خیالات سے چونکا دیا، ایک انڈین لڑکا مجھے پوچھ رہا تھا کہ پولیس فارم والی قطار یہی ہے، میں نے اثبات میں سر ہلایا تو وہ میری قطار کے آخر میں جا کر کھڑا ہو گیا۔ میرے اور اسکے درمیان تین اور لوگ کھڑے تھے۔ بھاجی، کتھوں؟ اس نے وہیں سے آواز لگائی، میں نے پہلے تو جھینپ کر ادھر ادھر دیکھا۔
مگر باقی سب لڑکے لڑکیاں دیکھ کر مطمئن ہو گیا کہ اسکی بات صرف میں ہی سمجھ سکا ہوں۔ لاہور میں نے مختصر جواب دیا۔ مینوں پہلاں ای اندازہ سیگا، تہاڈی شکل ای لاہوریاں ورگی ہیگی۔ وہ پھر اونچی آواز میں بولا۔ میرا ناں سندیپ سنگھ سینڈی، تے تہاڈا؟ وہ ٹلنے والا نہیں لگ رہا تھا۔ شہریارؔ میں نے پھر مختصر جواب دیا۔ وہ ہنسا، مجھے وجہ سمجھ نہیں آئی۔
مگر کچھ دنوں بعد اندازہ ہو گیا کہ وہ ایسے بھی ہنس لیتا تھا، خواہ مخواہ، میری باری آئی تو آفیسر نے میرے فارم اور باقی کاغذات کو دیکھنے سے پہلے ہی مجھ سے پوچھا، کہ آپ کس ملک سے ہو؟ پاکستان، میرے بتانے پر اس نے کہا کہ آپ کو یہ فارمیلٹی کرنے کی ضرورت نہیں، آپ کا کنٹری کامن ویلتھ میں آتا ہے۔ یعنی وہ ممالک جن پر کبھی ملکہ برطانیہ کی حکومت رہی ہے۔
اس لیے آپ اس فارم کو جمع کروانے اور دیگر مراحل سے آزاد ہیں۔ زندگی میں پہلی بار انگریز کی غلامی پر فخر محسوس ہوا، میاں محمد بخشؔ صاحب نے کان میں پکارا، او کتے دے گل پٹہ ہووے تے وٹہ کوئی نہ مارے، میں خوشی خوشی واپس آیا اور بغیر سوچے سندیپ کا ہاتھ پکڑ کر اسکو قطار سے باہر کھینچ لیا، آجا یار، تینوں چھٹی مل گئی اے، تہاڈے گل وچ وی پٹہ ایے۔
میں نے سندیپ کو کامن ویلتھ والی بات بتائی تو اس نے بھی ملکہ برطانیہ کا نعرہ بلند کیا، اور میرے ساتھ چل پڑا سندیپ اکیس بائیس سال کا کھلنڈرا سکھ تھا، جسکا باپ فوت ہو چکا تھا، ایک بہن اور بہنوئی انگلینڈ میں تھے، اسکی ماں صرف انڈیا میں تھی، جس کو سندیپ نے اپنے پاس بلالینا تھا۔ وہ آیا تو ایک سال کے اسٹوڈنٹ ویزے پر تھا، پر اسکو اب کبھی واپس نہیں جانا تھا۔
وہ ابلاغیات کی ماسٹرز ڈگری میں میرا کلاس فیلو تھا، فرق صرف یہ تھا کہ وہ صرف بی اے کر کے بائیس سال کی عمر میں سیدھا یونیورسٹی آدھمکا تھا، جبکہ مجھے اپنی زندگی میں فرصت اور یونیورسٹی کی فیس نکالتے تینتیس برس بیت گئے۔ جیسے ہی ہم دونوں اس بلڈنگ کے احاطے سے باہر نکلے سندیپ کو جیسے کوئی کھوئی ہوئی چیز یاد آ گئی۔ اک منٹ، کہہ کر وہ مڑا اور بلڈنگ کے اندر غائب ہو گیا۔
تھوڑی دیر بعد جب وہ مڑا تو اس کے ساتھ ایک یوروپین شکل والی لڑکی تھی، جس نے سر کے اوپر سے گزار کر اپنا بیگ کندھے سے کولہے پر لٹکا رکھا تھا۔ ناسیہ یہ فیاض ہے، یہ بھی ہماری کلاس میں ہے، اور فیاض، یہ ناسیہؔ ہے، یہ بھی ہماری کلاس میں ہے۔ سندیپ پورے رسمی الفاظ میں ہمارا تعارف کروا رہا تھا، کہ ناسیہؔ نے جیب سے سگریٹ کا پیکٹ نکالا اور ہمیں آفر کیا۔
ہم دونوں کے انکار پر اس نے بیتابی سے اپنا سگریٹ سلگایا اور ایک لمبا کش لے کر دھواں اگلتے بولی، ان کم بختوں نے ہر بلڈنگ کو نو اسموکنگ بنا دیا ہے، کتنی دیر سے میں انتظار میں تھی۔ کیا خیال ہے کافی پیئں؟ تھوڑی دیر میں ہم تینوں یونیورسٹی کینٹین میں بیٹھے، کافی کے مگ سامنے رکھے اپنے اپنے بارے میں بتا رہے تھے۔ ناسیہ یونان کے شہر ایتھنز کی ایلیٹ کلاس سے تعلق رکھتی تھی۔
مگر اپنے والدین کے کاروبار کی بجائے فلم اور تھیٹر کے خواب سجائے انگلینڈ میں ماسٹرز کرنے آئی تھی۔ اسکو فلم میں ایکٹرس بننے کی بجائے فلم بنانا پسند تھا۔ فیمینسٹ، میں نے سوچا۔ وہ اچھی خاصی خوش شکل تھی، مگر یورپ میں تھی، شائد اسکا حسن یونان میں افراط میں ہو، یا شائد وہ واقعی فلم ڈائرکشن یا پروڈکشن میں زیادہ دلچسپی رکھتی ہو، خیر مجھے کیا۔
میری آنکھوں کے سامنے چٹکی بجائی گئی تو میرے خیالات کا تسلسل ٹوٹ گیا۔ ناسیہؔ نے میری محویت کو توڑنے کے لیے چٹکی بجائی، کیونکہ میں بے خیالی میں اس کے چہرے کو مسلسل گھورے جا رہا تھا۔ سندیپ نے قہقہہ لگایا۔ تم بھی باقی پاکستانی مردوں کی طرح عورت کو بری طرح گھورنے میں مہارت رکھتے ہو، وہ مسکراتے ہوئے بولی۔ نہیں تو، میں نے شرمندگی سے کہا، میں تو، میں تو، مجھ سے کوئی جواب نہ بن پڑا۔
اس نے قہقہہ لگایا تم جانتے ہو ایتھنز میں کتنے پاکستانی ہیں؟ وہ بھی لڑکیوں کو ایسی ہی نظروں سے دیکھتے ہیں۔ ایک مسلسل گھومتے برمے سے سوراخ کر دینے والی نظروں سے میری جلد کے اندر ہڈیوں میں چیونٹیاں رینگنے لگتی ہیں تم لوگ ایسے کیوں دیکھتے ہو؟ وہ مسکراتے ہوئے کہہ رہی تھی، مگر میں شرم سے پانی پانی ہو رہا تھا۔ اس کے لیے یہ ایک معمولی سی بد اخلاقی تھی، مگر مجھے اندازہ ہو رہا تھا کہ بحیثیت قوم ہماری نظر کیسی ہے؟
اپنے اپنے ملکوں کی باتیں ہونے لگیں۔ باالآخر ناسیہؔ نے پوچھ ہی لیا کہ انڈیا اور پاکستان میں کیا فرق ہے، جبکہ ہماری شکلیں (اور عقلیں) ایک جیسی ہیں؟ اس پر میں نے اور سندیپ نے اپنا اپنا ورژن بیان کیا، اور بات نہ جانے کیسے کشمیر پر جا پہنچی پھر حالت یہ تھی کہ ناسیہؔ اپنی کرسی سے ٹیک لگائے مزے سے اپنی کافی کے سپ لے رہی تھی، جبکہ میں اور سندیپ اپنے اپنے موقف کے حق میں دلائل کو بانچھوں سے بہا رہے تھے۔