Friday, 26 April 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Mahmood Fiaz/
  4. Gorastan Ki Yaadein (2)

Gorastan Ki Yaadein (2)

گوراستان کی یادیں (2)

لندن کے ہیتھرو ائیرپورٹ سے بس اسٹاپ تک پہنچنے میں مجھے تیس پینتیس منٹ لگے ہونگے، رات کے گیارہ بجنے والے تھے۔ پتہ چلا کہ یونیورسٹی کی جو بس میرے جیسے غیرملکی طلباء کو لینے آئی ہے۔ وہ تو کب کی جا چکی میں نے دل ہی دل میں چھاتی کا ایکسرے لینے والی نرس کو کوسا، جس نے مسکرا مسکرا کر وقت گذرنے کا احساس ہی نہیں ہونے دیا تھا۔ اگر میں امیگریشن سے جلدی نکل آتا تو بس پکڑ لیتا۔

لندن سے لیسٹر جانے والی پبلک بس کھڑی تھی۔ میں نے اس پر اپنا بیگ چڑھانا چاہا تو بغیر حیران ہوئے، بس کے قریب کھڑے گورے نے مجھے بتایا کہ ادھر اندر جا کر ٹکٹ لے لو۔ اب تو خیر لاہور میں میٹرو چلنے لگی ہے، بس میں سوار ہونے سے پہلے ٹکٹ لینے کا کانسیپٹ لوگوں کے لیے نیا نہیں ہوگا۔ میرے جیسے جنہوں نے ساری زندگی چلتی بس کو بھاگ کر پکڑا ہو اور پینڈولم کی طرح جھولا جھلاتے کنڈکٹر سے ٹکٹ وصول کیا ہو۔

یہ جہاز کا ٹکٹ لینے جیسا ہی تجربہ تھا۔ خیر بھاگم بھاگ ٹکٹ لیا، ٹکٹ لیتے وقت کھڑکی کے دوسری جانب بیٹھی گوری نے کچھ زیادہ انگریزی بولی، جس پر میں صرف مسکرا کر سر ہلاتا رہا۔ بس یہی خیال آیا کہ مستنصر کے بعد شائد دوسرا ہینڈسم پاکستانی اس دھرتی کی لڑکیوں سے برداشت نہیں ہو رہا، جس کو دیکھو مسکرائے چلی جا رہی ہے۔ مگر اب میں مزید وقت "ضائع" کرنے کے موڈ میں نہیں تھا۔

اس بار پھر گورے نے میرا ٹکٹ دیکھ کر مجھے روک دیا۔ اور رسان سے سمجھاتے ہوئے کہنے لگا کہ یہ ساڑھے گیارہ بجے والی بس ہے، جبکہ تمہارا ٹکٹ ساڑھے بارہ بجے والی بس کا ہے یہ بس فل ہو چکی ہے۔ تب مجھے کھڑکی والی گوری کی انگریزی کا مقصد سمجھ میں آیا۔ وہ بھی شائد ایسا ہی کچھ بتا رہی ہوگی، خیر اس کا ہرگز مطلب یہ نہیں کہ وہ مسکراتے ہوئے صرف ٹکٹ کا بتا رہی تھی یہ گوریاں بہت گھنی ہوتی ہیں۔

مرد بھی نظروں کا مطلب خوب سمجھتے ہیں۔ گورے کنڈکٹر کا شکریہ ادا کرکے میں نے اردگرد نگاہ دوڑائی اور سامنے بس اسٹاپ کے بغل میں بنے ایک کافی ہاؤس کا بورڈ دیکھ کر ادھر کو چل پڑا۔ کافی ہاؤس نیم تاریک تھا، جس میں اکا دکا میز پر بیٹھے جوڑے کافی پی رہے تھے۔ میزوں کے درمیان سے گذر کر میں نے اپنے لیے ایک کافی اور ایک مفن خریدا۔ اور سائیڈ پر لگی ایک میز کے کنارے اپنا سامان لگا کر بیٹھ گیا۔

ڈیڑھ گھنٹہ، ہممم، میں نے جیسے ہی یہ سوچا یکدم لگا، جیسے تیز بھاگتی ٹرین کی چھکا چھک بند ہو گئی ہو، جیسے جہاز کے چاروں انجن خاموش ہو گئے ہوں۔ جیسے بھاگتے بھاگتے آپ یکدم آپ کو خیال آئے کہ میلوں ادرگرد ایک خاموشی کی چادر کے اور کچھ نہیں ہے۔ ایسی خاموشی میں خیال آتے ہیں۔ انسان کو سوچنے کا موقع ملتا ہے۔ بھاگتے قدم سوچنے نہیں دیتے۔

یہ میں کہاں آگیا ہوں؟ گاؤں کے ٹاٹ اسکول سے برطانیہ کی یونیورسٹی تک کا سفر کافی لمبا تھا۔ میرے لیے کچھ زیادہ ہی لمبا تھا۔ مگر حیران کن بھی میں نے اپنے اردگرد دیکھا، لوگوں کے لیے میں موجود ہی نہیں تھا۔ جیسے میں نے سلیمانی ٹوپی اوڑھی ہو۔ جو لوگ مجھے جانتے تھے، جن کے لیے میری زندگی اور موجودگی معنے رکھتی تھی، وہ مجھ سے ہزاروں کلومیٹر دور تھے۔

میں نے اپنی بیوی اور بیٹی کا سوچا، جو اس وقت لاہور کینٹ میں اوپری منزل کے کمرے میں سو رہی ہونگی نچلے پورشن میں میں امی ابو اور دادا دادی کا خیال آیا، جیب سے بٹوا نکال کر دادا کا دیا پچاس کا نوٹ ایک بار پھر دیکھا، "یہ لو پچاس کا نوٹ اور کچھ کھا لینا"، دادا کی آواز میرے کان میں گونجی، دادی نے حسب معمول دعائیں دیں اور چوم چوم مزید دعائیں دیں۔

تب ہی خیال آیا کہ آخری سفر بھی شائد ایسا ہی ہوتا ہو۔ اگلی منزل کا کچھ پتہ نہیں کیا ہوگا اور پیچھے کی ساری زندگی آنکھوں کے سامنے گھوم رہی تھی۔ جیسے پاورپوائنٹ کی سلائیڈز ایک ایک کرکے بدلتی ہیں۔ لاہور کے مضافات میں بوڑھ کے درخت کے نیچے پڑھتا ہوا ایک بچہ ٹیکنالوجی کالج، کمپیوٹر کالج، اور پھر ملازمت در ملازمت، اٹک، کوئٹہ، کشمیر، سعودیہ، سفر در سفر، قدم قدم۔

ڈیڑھ گھنٹہ جو بہت زیادہ لگ رہا تھا، ماضی کی ان ساری تصویریرں میں پتہ بھی نہ چلا کہاں چلا گیا۔ بس اندھیرے میں جانے کہاں کو جارہی تھی۔ ڈیڑھ گھنٹے کے سفر میں ایک جگہ رکی اور مسافروں کو کچھ اسنیکس لینے کی اجازت ملی، رات کے دو بج رہے تھے۔ جب لیسٹر یونیورسٹی کے ہاسٹل پر میری ٹیکسی رکی تو وہاں ایک اور ٹیکسی پہلے سے موجود تھی۔

جس میں سے ایک جاپانی لڑکی اتر کر وہاں موجود سیکیورٹی گارڈ سے وہی سوال پوچھ رہی تھی، جو میں پوچھنے والا تھا کہ اس ہاسٹل میں میرا کمرہ کہاں ہے؟ گارڈ کے بار بار فون کھڑکانے پر ہاسٹل کے اندرون کہیں سے ایک کالا جوان نمودار ہوا اور بتایا کہ وہ ہاسٹل نایٹ ڈیوٹی پر ہے۔ اور اسکے پاس کوئی ریکارڈ نہیں ہے کہ کون کہاں جائیگا پہلے بھی چند اسٹوڈنٹ "بے وقت" آئے تو اس نے انکو خالی کمروں میں گھسا دیا ہے کہ کل دیکھا جائیگا۔

اس نے "بے وقت" کہتے ہوئے برے منہ کے ساتھ ہم دونوں کی طرف دیکھا، جاپانی لڑکی اسکو اپنے دیر سے آنے کی وجوہات بتانے لگی، جبکہ میں ایکسرے والی نرس کو کوسنے کے لیے اسکی مسکراہٹ ذہن میں لانے لگا، خیر۔ خیر۔ کالے جوان نے ہاتھ اٹھاتے ہوئے ہمیں روکا، اور کہا، بس ایک ہی آپشن ہے، میرے پاس آخری کمرہ ہے، جس میں دو بیڈ ہیں، چند گھنٹے ہیں تم وہاں گزار لو، صبح یونین آفس جا کر اپنا کمرہ الاٹ کروا لینا۔

ہمارا جواب سنے بغیر وہ آگے چل پڑا اور ہم اسکے پیچھے، چند منٹ بعد ایک چھوٹے سے کمرے میں ڈیڑھ فٹ کے فاصلے پر بچھے دو بستروں میں سے ایک پر میں چت لیٹا تھا۔ میرے ساتھ دوسرے بستر پر جاپانی لڑکی بھی غالباً سونے کی ناکام کوشش میں تھی، اندھیرے میں اسکی آواز آئی، وئیر آر یو فرام؟ می؟ آئی ایم فرام پاکستان، اینڈ یو؟ آئی ایم فرام جاپان، اس نے بتایا۔

آٹھ گھنٹے کی فلائیٹ، چوبیس گھنٹوں کا مسلسل سفر اور کئی دنوں کی تھکان، نیند تو سولی پر بھی آجانا تھی۔ بس سوتے سوتے صرف یہ خیال آ سکا کہ مستنصر نے سفر ناموں میں ایسا کچھ جھوٹ بھی نہیں لکھا۔

Check Also

Hojamalo

By Rao Manzar Hayat