Baba Mehar Deen
بابا مہر دین
پانچویں جماعت میں پڑھتا تھا۔ اس زمانے میں بچے شام کو گلیوں میں کھیلا کرتے تھے۔ کمپیوٹر پر ورچوئل رئیلٹی گیمز دستیاب ہوتیں،تو کون کافر گلیوں میں پکڑن پکڑائی کھیلا کرتا؟جس کی باری ہوتی اس کو بھاگ کر کسی دوسرے کو پکڑنا ہوتا تھا، اور پھر اس پکڑے جانے والے کی باری ہوتی۔ سادہ سا کھیل، مگر گلیوں میں چھپنے، مخالف کے ہاتھ آتے آتے بھاگ نکلنے، چستی پھرتی اور ٹانگوں کی بھرپور ورزش، شائد اب بچے ساری زندگی محسوس نہ کر سکیں۔ اللہ جانے اگلی نسلیں فائدے میں ہیں یا نقصان میں؟
پکڑنے والا لڑکا میرے پیچھے آ رہا تھا اور میں ایک گلی مڑا، جہاں سامنے سے ایک دوست جو کھیل میں شامل نہیں تھا چلا آرہا تھا، اس نے مجھے روکنے کی کوشش کی کہ جان سکے کہ ماجرہ کیا ہے؟ وہ نہیں جانتا تھا کہ ہم کھیل رہے ہیں۔ وقت کم تھا، میں نے اس سے بچ کر بھاگنا چاہا، تو اس نے بڑھ کر بازوؤں میں دبوچ لیا۔ پیچھے آنے والا کسی بھی لمحے گلی مڑ سکتا تھا، اس ڈر سے وضاحت کا وقت نہیں تھا، میں نے اس کی کمر پر زور لگا کر اسکو دہرا کر کے زمین پر گرانے کی کوشش کی۔ وہ اس اچانک داؤ کے لیے تیار نہیں تھا، ایک کٹے درخت کی طرح زمین پر گرنےلگا۔
آخری لمحے میں مجھے احساس ہوا کہ،وہ ایسے گرا تو اسکا سر پکی زمین پر بری طرح پٹخے گا۔ بچانے کے لیے اپنا بازو اس کے بھاری جسم کے نیچے رکھ دیا، جو اسکے وزن سے کہنی کے جوڑ سے بل کھا گیا۔ بازو سے درد کی ایک ناقابل بیان لہر نکلی اور آنکھوں کے آگے اندھیرا چھانے لگا۔ باقی قصہ مختصر، کیسے دوستوں نے سہارا دیکر گھر پہنچایا اور کیسے گھر والے کسی سیانے کے مشورے پر کینٹ صدر میں موجود ہڈی جوڑ پہلوانوں میں سے ایک کی دکان پر لے گئے؟اس نے میرے سوجے ہوئے بازو کو ایک جھٹکا دیا، میری چیخ نکلی اور اگلے لمحے وہ میرے کہنی کے جوڑ پر نرم و ملائم ملحم مل رہا تھا، اور مجھے سکون آ رہا تھا۔ پٹی باندھ دی گئی اور میں بازو لٹکائے گھر آ گیا۔
اگلے ہفتے امتحان شروع تھے۔ میں بازو گلے میں لٹکائے پیپرز دیتا رہا اور ہر دوسرے چوتھے روز پہلوان سے جا کر پٹی لگواتا رہا۔ اب وہ صرف کہنی پر ملحم مل کر پٹی تبدیل کر دیتا اور میں بھی خوش کہ، اب درد نہیں ہوتا۔ البتہ بازو اسی طرح میرے گلے میں پٹے کے ساتھ لٹکا رہتا۔ امتحانات ختم ہوئے،تو نہ جانے کیوں میرے دادا جی کو میرے گلے میں پڑا بازو پسند نہ آیا۔ وہ اپنے ایک کسان دوست کو، جو کیولری گراؤنڈ کے کھیتوں (جی وہاں کبھی کھیت ہوا کرتے تھے، جہاں آج ایک ملین روپے مرلہ بھی زمین دستیاب نہیں) میں سبزیاں اگایا کرتے تھے، گھر لے آئے۔
بابا مہر کے نام سے جانے والے، اس کسان چہرہ شخص کو میں نے بالکل پسند نہ کیا۔ اوپر سے اس نے میرے بازو کی پٹی کھولتے ہی فیصلہ سنا دیا کہ کہنی کا جوڑ غلط جڑ گیا ہے ،اور جوڑ کے اندر خون کے جماؤ سے حرکت بھی بند ہو چکی ہے۔ اگر اس کا بروقت علاج نہ کیا گیا، تو ساری عمر کے لیے یہ بازو اسی مڑی ہوئی حالت میں گلے میں لٹکائے رہنا ہوگا۔ دوستو،یقین کیجیئے مجھے ساری زندگی میں اس سے برا شخص کوئی نہیں لگا۔ میرے خیال میں میرا علاج بہترین طریقے سے ہو رہا تھا۔ میں جس پہلوان کے پاس جاتا تھا، وہاں پٹی کروانے میں بالکل درد نہیں ہوتا تھا۔
ملحم انتہائی سکون آوور تھا، پھر پٹی کرنے کے بعد تو میرا بازو انتہائی سکون میں رہتا تھا۔ اور اس نے ہمیں یقین دلایا تھا کہ، اسی طرح پٹیاں کرتے کرتے ایک دن بازو ٹھیک بھی ہو جانا تھا۔ مگر میرے انتہائی پیار کرنے والا دادا، اور میری ہر تکلیف پر آنسو بہانے والی ماں نے عجیب فیصلہ کیا۔ انہوں نے مجھے اس ظالم کسان چہرہ شخص کے حوالے کر دیا۔ جس نے میری پٹی کھول کر میرے بازو پر تیل کی مالش شروع کر دی، اور کہنی سے اٹکے ہوئے جوڑ کو ہلانا شروع کر دیا۔ اسکی ہر حرکت سے میری چیخیں نکل رہی تھیں، میری آنکھوں کے سامنے اندھیرے رقص کر رہے تھے، میں چیخ رہا تھا، رو رہا تھا۔
میری ماں بھاگ کر پانی لا رہی تھی، دادا اور ابو مجھے پکڑے ہوئے تھے۔ مگر ان میں سے کوئی بھی مجھے اس ظالم کے ہاتھ سے رہائی نہیں دے رہا تھا۔ ایک گھنٹے کے ظالم "علاج" کے بعد اس بابا مہر نے میرا مڑا ہوا بازو بالکل سیدھا کر دیا، اور اسی ہاتھ سے پانی سے بھری بالٹی اٹھانے کا کہا۔ پھر بازو پر اسی طرح پٹی باندھ دی گئی۔ میں سوچ رہا تھا کہ اب یہ مکار کسان میرے دادا سے کتنے پیسے وصول کرے گا؟اس ظالمانہ اور اناڑی علاج سے۔ تبھی اس نے کہا کہ سوا روپے کا تیل کسی مسجد کے چراغ میں ڈال دیجیے گا۔ کہہ کر جانے لگا تو دادا جی نے "حقے کی واری" لگانے کی دعوت دی۔
جس پر اس نے بتایا کہ اسکے استاد نے، جس نے جوڑوں کے علاج کی تربیت دی تھی، کسی مریض کے گھر سے کچھ بھی لینے کو منع کیا ہے۔ وہ دادا جی کا دوست تھا۔ پہلے بھی گھر آتا تھا اور کھانا پانی اور حقہ سے کبھی انکار نہیں کیا تھا۔ مگر اس دن "علاج" کے وقت اس نے حقے کا دھواں بھی اپنے اوپر حرام کر لیا تھا۔ عجیب بات تھی۔ اگلے دو ماہ میرے اذیت میں گذرے۔ میری مرضی کے بغیر مجھے کیولری گراؤنڈ کے کھیتوں میں اس بابے مہر کے پاس لے جایا جاتا رہا، جہاں وہ میرے بازو کی مالش کرتا، میری چیخیں نکلتیں اور بالآخر وہ پٹی باندھ دیتا۔
دو ماہ کے بعد میرا بازو بالکل پہلے جیسا ٹھیک ہوگیا۔ میں اپنے ہاتھ سے اپنے اسی کاندھے کو چھو سکتا تھا اور وزن بھی اٹھا سکتا تھا۔ ایک ایسا بازو جو دو ماہ پہلے ساری زندگی کے لیے بیکار ہونے جا رہا تھا، اب مکمل صحتمند تھا۔ بابا مہر دین صاحب سے میرا تعلق اس کے بعد بھی رہا۔ وہ ہر طرح کے ہڈی و جوڑ کا علاج کرتے تھے۔ اور میں نے کبھی انکو کسی سے ایک پیسہ لیتے نہیں دیکھا۔ سوا روپے کا تیل مسجد کے چراغ میں، یہی انکی فیس رہی۔ آج برسوں بعد بھی میں انکی قبر کو دعائیں بھیج رہا ہوں۔
دوستو، زندگی میں ہمیں بہت سی تکلیفوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ایسے میں دو طرح کے لوگ ہمیں ملتے ہیں۔ ایک جو بظاہر ہمیں تکلیف سے بچانا چاہتے ہیں، ہم سے ہمدردی جتاتے ہیں، مگر درحقیقت وہ ہمارے کسی کام نہیں آتے بلکہ ان پر بھروسہ کر کے ہم اپنے کام مزید بگاڑ لیتے ہیں۔ اور دوسرے وہ لوگ جو بظاہر ہمیں تکلیف دیتے ہیں۔یہ تکلیف انکی نصیحت سے بھی ہو سکتی ہے، انکے مدد کرنے کے طریقے سے بھی۔مگر درحقیقت وہ ہمیں زندگی کے بہترین سبق دے رہے ہوتے ہیں۔ ہماری حقیقی مدد کر رہے ہوتے ہیں۔
ایسے دوستوں میں ہمارے والدین سب سے پہلے آتے ہیں۔ اکثر نوجوان اپنے والد کی نصیحتوں کا بہت برا مناتے ہیں۔ جبکہ وہ شخص انکی بہتری چاہنے میں سب سے زیادہ مددگار ہوتا ہے۔ جبکہ ایسے دوست جو ان کے ساتھ بیٹھ کر والدین کی نصیحتوں کا مذاق اڑاتے ہیں، وہ درحقیقت انکو اپاہج اور معذور بنا رہے ہوتے ہیں۔