Aik Lateefa
ایک لطیفہ
بہت گھسا پٹا، پرانا، لطیفہ ہے، کہ جہنم میں ہر ملک کے لوگوں کے لیے الگ الگ آگ کے کنوئیں بنائے گئے تھے۔ دیکھنے والے نے دیکھا کہ ہر کنوئیں پر دو دو جابر قسم کے جنات ڈیوٹی پر ہیں اور جیسے ہی کوئی جہنمی اس کنوئیں سے نکلنے کی کوشش کرتا ہے، وہ جنات اس کو ٹانگوں سے گھسیٹ کر واپس کنوئیں میں ڈال دیتے ہیں۔
ایک کنواں ایسا تھا کہ اس پر کوئی پہرے دار نہیں تھا۔ دیکھنے والے نے سوال کیا کہ یہ کیسا کنواں ہے۔ اس پر کوئی پہریدار نہیں ہے اور میں لوگ جل بھی رہے ہیں، چیخ چلا بھی رہے ہیں، مگر باہر کوئی نہیں آ رہا۔ کیا یہ لوگ اتنے ہی ایماندار ہیں کہ خود کو سزا کا حقدار سمجھ کر باہر نکلنے کی کوشش نہیں کرتے۔
بتایا گیا، نہیں۔۔ یہ پاکستان کے جہنمیوں کا کنواں ہے۔ یہاں پہریدار لگایا گیا تھا۔ مگر وہ کئی دنوں تک کھڑا رہا اور اس کو کوئی کام نہ ملا۔ یعنی کوئی پاکستانی باہر نہیں آیا۔ تب پتہ چلا کہ جیسے ہی کوئی پاکستانی اس جہنم سے نکلنے کی کوشش کرتا ہے تو کنوئیں میں موجود باقی پاکستانی اس کو خود ہی ٹانگوں سے پکڑ کر واپس گھسیٹ لیتے ہیں۔
یہ لطیفہ ہی سمجھتا تھا میں بھی لیکن افسوس اور دکھ یہ ہے کہ واقعی ہم پاکستانی اس لطیفے پر پورا اترتے ہیں۔
گنہگار، بدکردار، یا معاشرے کے دھتکارے ہوئے، ہارے ہوئے لوگ ایسا کریں تو وجہ بنتی ہے کہ ایسے محروم لوگ باقی سب سے حسد ہی کرتے ہیں، مگر میں نے دیکھا ہے کہ ہر شعبے میں پاکستانیوں نے یہ "کمال" پایا ہے کہ کسی کا کام نہیں چلنے دینا۔ کسی کی جاب نہیں چلنے دینی۔ کسی کی ہٹی، کسی کا کاروبار، کسی کا گھر، کسی کی دکان، کچھ بھی ہو، ہم نے اپنی چار آنے کی خواہش کے لیے اگلے کی چار نسلوں کا کاروبار تباہ کرنے میں چار سکینڈز کی سوچ بھی نہیں لگانا۔
کچھ سال پہلے بھی میں نے ایک تحریر لکھی تھی۔ جس وقت جعلی ڈگریوں کا کوئی اسکینڈل چلا تھا۔ تب بھی میں نے ہمسایہ ملک کی مثال دی تھی۔ میں خود گواہ ہوں سعودیہ میں ملازمت کے دوران اس ملک سے آئے لوگوں نے محض کاغذ پورے کیے ہوئے تھے۔
مگر مجھے حیرت اس بات پر تھی کہ ہمارے ہمسایہ ملک نے کبھی اپنے شہریوں کو گندہ نہیں کیا۔ نہ حکومت نے، نہ خود لوگوں نے۔ یہ پریکٹس خاموشی سے چلتی جا رہی ہے۔ ایک پلمبر واپس اس ملک گیا، کچھ عرصے بعد ڈاکٹر کی ڈگری لے کر نئے ویزے پر سعودیہ آ گیا۔
اس وقت بھی آپ میں سے جو تحقیق کرنا چاہے شوق پورا کر لے۔ اس ملک سے لوگ نکل کر پوری دنیا میں جا رہے ہیں اور ہر طرح کا طریقہ اختیار کرکے جا رہے ہیں اور کوئی شور نہیں مچا رہے۔ صرف کینیڈا میں جا کر چیک کر لیں۔ کیسے کمپنی بنتی ہے۔ کیسے LMIA ملتا ہے۔ کیسے اس پر جاب آفر لیٹر بنا کر وہ لوگ اپنے لوگوں کو وہاں بلا رہے ہیں۔ سب قانونی تقاضے بھی پورے کر رہے ہیں اور کوئی جھگڑا بھی نہیں ہے۔
2006 کے ستمبر میں، میں ہیتھرو ائیرپورٹ امیگریشن کاؤنٹر پر کھڑا اپنی باری کے انتظار میں تھا۔ میرے سامنے والے کاؤنٹر پر ایک سکھ آفیسر تھا۔ اس نے ہمارے ہمسایہ ملک سے آئے ایک طالب علم سے پوچھا، یہاں کیا کرنے آئے ہو؟ اس نے فوری جواب دیا، جی پڑھنے آیا ہوں۔ اس پر سکھ نے کچھ اور سوالات کیے۔ پھر اونچی آواز میں اس سے مخاطب ہو کر پنجابی میں بولا، میں سب جانتا ہوں۔ پڑھائی وڑھائی کچھ نہیں، کل سے تم نے کام پر لگ جانا ہے۔ یہ کہہ کر اس نے اس کے پاسپورٹ پر مہر لگائی اور اسکو جانے دیا۔ کیونکہ وہ جانتا تھا کہ کاغذ پورے ہیں اور اس کے ملک کے اسٹوڈنٹ ویزے والے کو وہ برطانیہ میں داخلے سے روک نہیں سکتا۔