Zuban Ke Neeche
زبان کے نیچے
ارسطو کے پاس بیش قیمت و فاخرانہ لباس میں ملبوس ایک شخص آیا۔ اس کا انداز ایسا تھا گویا ارسطو پر احساسِ برتری جتا رہا ہو۔ ارسطو نے اس پر ایک نگاہ ڈالی اور بہت اطمینان کے ساتھ اس سے یوں مخاطب ہوا: کچھ کلام کیجئے تاکہ آپ پہچانے جائیں کہ آپ کی اصل و حقیقت کیا ہے؟ یہ سن کر وہ شخص بیچارگی کےساتھ بغلیں جھانکنے لگا۔
ہر دور میں ہر معاشرے کے مختلف شعبہ ہائے زندگی میں ایسے لوگ موجود رہے ہیں جنہوں نے اپنے قبیح باطن کو خوشنما ظاہر کے لبادے میں چھپایا۔ چونکہ ہماری تحریر کا عنوان ہے، "زبان کے نیچے" لہٰذا ہم نے موضوعِ سخن ان افراد کو قرار دیا ہے جو اپنے مخصوص حلقہ احباب میں اپنی دلکش تقاریر یا تحاریر کا جامہ پہنے، ایک سخن ور کی حیثیت سے جانے جاتے ہیں مگر حقیقی زندگی میں جب ان سے پالا پڑتا ہے تو وہ اپنے قول و فعل میں شدتِ تضاد کی وجہ سے اپنے اصل و حقیقت کے اعتبار سے پہچانے جاتے ہیں۔
پس ہم اپنی تحریر کے عنوان کو حضرت امیرالمومنین علی ابنِ ابی طالب ؑکے درج ذیل فرمان کی روشنی میں اختصار کےساتھ ڈسکس کریں گے۔
آپ (ع) فرماتے ہیں:الْمَرْءُ مَخْبُوءٌ تَحْتَ لِسَانِهِ۔ انسان اپنی زبان کے نیچے چھپا ہوا ہے۔ (نہج البلاغه حکمت 148)
درج بالا فرمان ذیشان پر ہم صرف دو پہلوؤں سے گفتگو کریں گے۔
1۔ عالم جب زبان کھولتا ہے تو اپنے علم کے کمال کی وجہ سے جانا جاتا ہے اورجاہل جب زبان کھولتا ہے تو اپنی جہالت کے وبال کی وجہ سے پہچانا جاتا ہے۔ گویا خاموشی، عالم کا زیور اورجاہل کا پردہ ہوتی ہے۔ کاش جاہل خاموش رہتا تو دنیا میں اضطراب نہ پھیلتا اور کاش کہ جھوٹے اورعیار لوگ، سادہ لوح سچے انسانوں کو دھوکہ نہ دیتے تو دنیا میں اعتماد اور اعتبار کی خوبصورت فضا قائم رہتی۔
معاشرے میں جب تعلیم و تربیت کا فقدان ہو، برائیاں ظاہر ہونے لگیں، بےراہ رویاں فروغ پا رہی ہوں، حق داروں کا حق غصب کیا جا رہا ہو، ظلم و ستم اپنی سنگینی کے ساتھ جب عدل و انصاف پر غالب آ رہا ہو، اور مظلوم کی داد رسی نہ ہو رہی ہو، دین دشمن اور سماج دشمن عناصر جب اپنے باطل مفادات کے لیے یا ان مفادات کے تحفظ کے لئے عام الناس کو پکاریں اور جاہل اور کمینے ان کے گرد جمع ہو جائیں، جہلاء جب محراب و منبر سنبھال لیں اور دین اور اخلاق کی روح کو بےروح کرنے لگیں، اور فتنے اور بدعتیں سر اٹھانے لگیں تو عالم پر ازروئے حدیث یہ فرض ہو جاتا ہے کہ اپنے علم کو ظاہر کرے، اور اگر وہ ایسا نہیں کرتا تو اللہ اسے اپنی رحمت سے دور کر دے گا۔ اور اب یہاں اس کی خاموشی سنگین جرم متصور ہوگی۔
2۔ جب کوئی انسان تقریراً یا تحریراً اپنی زبان کھولتا ہے، لوگوں میں خوبصورت جذبات و نظریات سے مہکتے ہوئے مصنوعی پرفیومڈ پھول بکھیرتا ہے تو ایک مرتبہ اہل اخلاص و مروت کے دلوں میں اتر سکتا ہے، لیکن جب اس کے اس خوشنما ظاہر کو دیکھ کر اس کے ساتھ کوئی معاملہ کیا جائے، یا کسی مقدس رشتے کی ڈور میں بندھا جائے اور وہ انسان اپنی زبان کے نیچے چھپے ہوئے مطلب پرست حیوان کی صورت میں پوری طرح سے آشکار ہو جائے تو دلوں سے اتر جاتا ہے۔
ارسطو کے سامنے اسے مرعوب کرنے کے لئے بیش قیمت لباس پہن کر جب ایک ناخواندہ انسان آتا ہے تو اپنے ظاہری خوشنما لبادے کے مطابق کلام نہ کر سکنے کی وجہ اس کی جہالت کی قلعی کھل جاتی ہے، اور دوسری طرف لوگوں کو محض مرعوب کر کے ان کا شکار کرنے کے لیے، خوبصورت الفاظ کا جامہ پہن کر دو چہرے رکھنے والا کوئی انسان نما شکاری معاشرے میں آتا ہے اور لوگوں کا اس کے ساتھ پالا پڑنے کی صورت میں اس کا کردار و عمل اس کے خوبصورت الفاظ کی نہ صرف یہ کہ تصدیق نہیں کرتا بلکہ الٹا اس کا آلودہ باطن اگلے انسان پر سرپرائزنگلی ظاہر ہو جاتا ہے تو اس کی انسانیت کی قلعی کھل جاتی ہے۔
اور جب اپنی زبان کے نیچے چھپے ہوئے اس برے انسان کی انسانیت کسی ایک فرد یا چند افراد پر فاش ہوتی ہے تو اسے اس بات کی شدید فکر لاحق ہو جاتی ہے کہ اس کے اصل اور حقیقت کا پردہ کہیں اس کے دیگر فینز اور فالورز پر بھی فاش نہ ہوجائے، کہ جن کی نظر میں وہ بہت محنت اور تگ و دو سے ایک اچھے سخن ور اور ایک مقدس گائے کی حیثیت سے اپنا مقام بنا چکا ہے۔
ایک ظالم انسان ظلم و استبداد کی بنیادوں پر قائم اپنے جھوٹ و فریب سے تعمیر کردہ مقام و منزلت کی کمزور عمارت کو ڈھے جانے سے بچانے کے لیے کیا کیا مذموم حربے استعمال کرتا ہے، بنیادی طور پر ایک سخن سوز انسان کہ جس نے سخن وری کا ظاہری لبادہ اوڑھا، کی سخن سوزیاں اور اس کے قبیح افعال و کردار کے کچھ اہم پہلو اپنے محترم قارئین کی خدمت میں، "ظالم ہمیشہ اپنے ظلم کی تشہیر سے ڈرتا ہے" کے مرکزی خیال کے ساتھ ہم جلد ہی پیش کریں گے، کیونکہ یہاں ہماری خاموشی ظالم کے ظلم میں برابر کا شریک ہونے کے مترادف ہوگی۔