Tuesday, 07 May 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Maaz Bin Mahmood/
  4. Zero Aur Friend Requests

Zero Aur Friend Requests

زیرو اور فرانڈ ریکویسٹیں

برادران و خواتین۔۔ میں ایک صفر انسان ہوں۔ آپ میں سے چند ایک ہزار کو میری بکواس پسند ہے، یہ آپ کی رزلہ نوازی ہے بصورت دیگر باچیز اپنے پاس ایک آدھ چیز کے سوا کوئی ایسا وصف نہیں پاتا جس کی بدولت بانس پر چڑھ سکے۔ ممکن ہے یہی وجہ ہے کہ باچیز اب تک بانس پر نہیں چڑھا۔ اس کے باوجود شرمندگی ضرور ہوتی ہے جب جب اور جہاں جہاں کوئی شکوہ کرے کہ آپ فرینڈ ریکویسٹ قبول نہیں کرتے۔ ویسے تو اس قسم کی بات کرنا بھی مجھے ایک عجیب سا محسوس ہوتا ہے مگر کیا کیجیے کہ متواتر اور خاص کر پاکستان کے آخری دورے کے دوران کئی نفیس احباب کی جانب سے یہ گلہ بالمشافہ سننے کو ملا۔ پس قدرے ضروری ہے کہ اس کی وجہ بتلائی جائے تاکہ معاملہ واضح ہو سکے۔

عرض ہے، باچیز کے یہاں رسوئی کا چوکا کسی بھی جماعت کے مشاہرے سے نہیں چلتا۔ اپنی چھوٹی موٹی ملازمت ہے، جس کی بنیاد ابا مرحوم کی فنڈ کردہ ٹیلی کمیونیکیشن انجینئیرنگ ڈگری ہے۔ اب چونکہ کسی جتھے کا ساتھ نہ تھا، لہٰذا ماضی قریب میں جب جب سوشل میڈیائی گرداب میں پھنسا خود کو تنہا پایا۔ یہاں تک کہ وہ لوگ بھی جن سے امید تھی ساتھ دیں گے، کسی نہ کسی یقیناً جائز مصلحت کے تحت کنی کترا جایا کرتے۔ نتیجہ یہ نکالا کہ لڑائی اکیلے لڑنی ہے۔ مزید یہ کہ نہ کسی کی فیملی تک پہنچنا ہے نہ فیملی پر کسی کو آنے دینا ہے۔ کوئی لفاظی کے راستے آنا چاہے تو اسے غیرت کا معاملہ نہیں بنانا کیونکہ غیرت کو لے کر اپنے ذاتی حرامی پن کرنے والے سب سے بڑے بے غیرت پائے ہیں۔

عرض ہے، قریب سات برس قبل ایک افسانہ لکھا تھا۔ نام دیا "گشتی"۔ نام کو لے کر اخلاقیات کا رونا کیا رونا۔ کہانی کی پنچ لائن یہی لفظ تھا۔ ڈائیوو بس ہوسٹس کا گر آپ لوگوں کو یاد ہو قتل ہوا تھا۔ اسی کو لے کر لکھ ڈالا کچھ خرافاتی۔ کئی کردار تھے کہانی کے۔ ایک کردار فاعل مولوی صاحب کا بھی تھا۔ تب تک معاشرے میں مولوی کے کردار کو لے کر مجھے الرجی تھی۔ یہ الرجی اس کہانی کے شائع ہونے کے اگلے روز ختم ہوگئی۔ ایک صاحب تھے نوجوان سے۔ لیوانٹ کے مطعون و ملعون حربی جتھے کے پاکستانی ونگ سے خود کا تعلق بتلاتے تھے، جو بعد ازاں کسی خاتون کے چکر میں شہادت کے درجے پر زبردستی فائز کر دیے گئے۔

شنید ہے ان کی ایماء پر میری بیٹی کے ساتھ تصویر اٹھا کر ایک طوفانِ بدتمیزی برپا کیا گیا۔ مزید دکھ یہ ہوا کہ وہ سب وائرل ہو کر میرے گھر تک پہنچ گیا۔ اب مجھے جوابدہ الگ ہونا پڑا کہ تم سوشل میڈیا پر کر کیا رہے ہو۔ یہ وہ دن تھا جب میں نے ببانگ دہل بتا دیا کہ میں کیا کر رہا ہوں۔ میں۔۔ بدتمیزی ہی کر رہا ہوں۔ بدتمیزی پر مجھے دکھ ہوتا نہیں کہ میں خود خود کو بدرجہ اتم بدتمیز پاتا ہوں۔ کرب یہ تھا کہ فیملی پر بات نہیں کرنی چاہیے۔ میری ٹوٹی پھوٹی اخلاقیات میں یہ حرکت باٹم لائن ہے۔

اگلے روز کسی نہ کسی طرح ایک ایسی پروفائل ہاتھ لگ گئی جو میری فرینڈ لسٹ میں تھی اور جس کا وہ سب خرافات تخلیق کرنے میں کلیدی کردار تھا۔ نفرت کا سوداگر تھا۔ آہ کہ باریش سنت چہرہ خود ساختہ ترجمانِ دین تھا۔ پٹھان تھا۔ نمبر لیا اور واٹس ایپ پر بات شروع کر دی۔ پہلے پہل دل ہوا اسے نقصان پہنچایا جائے۔ اس ضمن میں بات بھی ہوئی متعلقہ افراد سے۔ پھر سوچا نہیں ذرا اگلے سے بات کرکے دیکھتے ہیں۔

اس دن شام تک مولوی صاحب مجھ سے معافی مانگ چکے تھے۔

پس اس روز سے میری مولوی سمیت کسی بھی طبقے سے خار ختم ہوئی۔ یقین اس بات پر بھی پکا ہوا کہ بات ہوگی تو ہی آگے بڑھے گی وگرنہ نفرتیں ضرب کھائیں گی۔ مزید یہ کہ اچھا یا برا، ہماری ثقافت زبردستی کے تغیر کے باعث ہی سہی، تغیر پذیر بہرحال ہوچکی ہے۔ اس سے الگ تھلگ ہوکر اس میں مثبت تبدیلی نہیں لائی جا سکتی۔ کچھ کرنا ہے تو اس کا حصہ بن کر کرنا ہوگا۔

اسی روز سے یہ فیصلہ بھی ہوا کہ فرینڈ لسٹ میں وہی رہے گا جو چڈی کا بچھو نہ ہو اور جس سے ذہنی ہم آہنگی ہوگی۔ اب ذہنی ہم آہنگی کا مطلب مشترکہ نظریات، افکار ضروری نہیں۔ کم سے کم خندہ پیشانی کے ساتھ اپنے اپنے اصنام پر سخت ترین بات کو بھی سہہ لینا، ذہنی ہم آہنگی میرے نزدیک یہی ہے۔ اس برداشت کا کچھ اندازہ دوستی کا ہاتھ بڑھانے والے یا والی کی ٹائم لائن دیکھ کر بھی ہوجاتا ہے لہٰذا لاکڈ پروفائلز سے عمومی پیشگی معذرت۔

اچھی حس مزاح پر بھی اپنے عمران خان جاگ جایا کرتے ہیں لہٰذا حلقہ احباب میں اضافے کی خاطر یہ بھی ایک وصف طے پایا۔ پھر کچھ بڑے کچھ بزرگ کچھ جہاں دیدہ گھاگ جنہیں سات خون معاف۔ کم ہیں مگر ہیں۔ ان کے ضمن میں اہم بات یہ ہے کہ پیٹھ پیچھے بھی ان پر کبھی خرافات نہیں بگھیرنی، پیٹھ میں خنجر نہیں گھونپنا۔ جن کی بابت یہ بات ہے انہیں یہ اچھی طرح معلوم ہے۔

سو برادران و خواتین۔۔

میں ایک صفر انسان ہوں۔ آپ میں سے چند ایک ہزار کو میری بکواس پسند ہے، یہ آپ کی رزلہ نوازی ہے بصورت دیگر باچیز اپنے پاس ایک آدھ چیز کے سوا کوئی ایسا وصف نہیں پاتا جس کی بدولت بانس پر چڑھ سکے۔ لہٰذا بانس پر چڑھے بغیر عاجزانہ عرض ہے، حلقہ احباب میں شمولیت کا علیک سلیک اور متواتر سٹریس ٹیسٹ کے بعد باچیز کو حق دیا جائے تو عین نوازش ہوگی۔ میری پوسٹس ویسے بھی سب پبلک ہوتی ہیں اور کمنٹ بھی سب کے لیے آن۔

کوئی بات بری لگی ہو تو معذرت۔

مع السلام۔

Check Also

Roohani Therapy

By Tayeba Zia