Yar Adelaide Dekhte Hain
یار ایڈیلیڈ دیکھتے ہیں
پہلے روز ہم ایڈیلیڈ پہنچے۔ ساڑھے آٹھ گھنٹے کی ڈرائیو تھی مگر دس گھنٹے لگ گئے۔ ایڈیلیڈ خوبصورت شہر ہے۔ سڈنی و میلبرن کی طرح بلند و بالا عمارتوں سے عاری، خوبصورت اسلام آباد نما سڑکوں سے مزین اور تمام تر حسن کے باوجود ہر سگنل پر پانچ چھ اکٹھے سپیڈ کیمرے۔ میرا گمان ہے کہ ایڈیلیڈ میں طوطے سب سے زیادہ ہیں، پھر ٹریفک سگنل اور اس کے بعد انسان۔ فقدان کی بات کی جائے تو ایڈیلیڈ میں پارکنگ کا فقدان سرفہرست ہے۔ ہم چھڑا موڈ میں سفر کر رہے تھے لہٰذا آدھے راستے پہنچ کر بیک پیکرز ہاسٹل میں بکنگ کروا لی تھی۔ یہ ہاسٹل شہر کے بیچوں بیچ واقع تھا۔ فیملی کے ساتھ نہ ہو، ایڈونچر کا موڈ ہو تو بجٹ ہاسٹل بہترین رہتے ہیں۔ ایڈیلیڈ پہنچ کر ہاسٹل فوراََ نظر آگیا تھا، پارکنگ ڈھونڈنے میں البتہ چالیس منٹ لگ گئے۔ یاد رہے، ہم ہاسٹل پہنچنے سے پہلے ہی کھانا کھا چکے تھے جس کی وجہ بھٹی کی بھوک تھی جس پر کچھ آگے چل کر بات کرتے ہیں۔
ڈیڑھ ایک گھنٹہ سکون کرنے کے بعد ارادہ ہوا کہ ایڈیلیڈ کا چکر لگایا جائے۔ یہ وہ نیت تھی جو ہم نے ایک دوسرے کے سامنے ظاہر کی۔ مخفی خرامی پن بعد میں جا کر سمجھ آیا۔ موسم کمال تھا، گرمیاں ابھی شروع ہوئی ہیں سو درجہ حرارت دن میں بتیس ڈگری تھا، شام کے اس پہر شاید چھبیس تک تھا۔ سی بی ڈی میں باہر نکلے تو باہر روشنیاں خوب انسان کم نظر آئے۔ شروع شروع میں تو "واہ یار پیارا شہر ہے" والے تبصرہ جات زبان سے برآمد ہوئے۔ کوئی پینتالیس منٹ بعد ہم تینوں کو "یار یہاں ویک اینڈ والی رونق کوئی نہیں؟" والی تشویش لاحق ہونا شروع ہوگئی۔ اب ہم "رونق" کی تلاش میں خوار ہوتے چائنہ ٹاؤن پہنچے۔ یہاں رونق کا چینی ورژن موجود تھا۔ ہم البتہ نور کی تلاش میں تھے، آسٹریلین نور کی۔
تھوڑا اور خواری کرکے بالآخر ہم ایک ایسی سڑک پر پہنچ ہی گئے جس کے دائیں جانب زیادہ تر نائٹ کلب، بار اور دو تین سٹرپنگ کلب تھے۔ بائیں جانب کے اکثریتی حصے پر مساج سینٹرز کا غلبہ تھا۔ اصل رونق البتہ یہ نہیں تھی۔ اس شام Halloween پارٹیاں چل رہی تھیں۔ ہمیں تو کسی خوفناک بہروپ کی ضرورت نہیں، ہم اپنے اصلی حلیے میں کافی تھے، تاہم وہاں موجود لوگوں نے دلچسپ روپ دھار رکھے تھے۔ مثلاً چار خواتین پولیس کے کچھ ایسے لباس میں نظر آئیں کہ ان کے زیریں جامے پینٹ سے اوپر کولہوں کی ہڈی کے دائیں اور بائیں جانب عیاں تھے۔ ایک صاحب عربی لباس میں پھر رہے تھے۔ کئی خواتین ایسی خوفناک چڑیلوں کا روپ دھارے پھر رہی تھیں بخدا جن کے پستان ان کے اجسام سے باہر نکل کر گرنے والے تھے۔ معلومات عامہ کے لیے بتاتا چلوں، پچھلا فقرہ لکھنے سے پہلے شورکوٹ کے حکیم طاہر کاظمی سے مشورے کے بعد لکھا گیا ہے۔
ہم تحقیق کی نیت سے ایک انڈرگراؤنڈ کلب میں وڑ گئے۔ سرخ روشنی میں ڈوبا ہوا یہ تہہ خانہ اس وقت ناچ گانے اور مستی کے عروج پر۔۔ نہیں تھا۔ چند خواتین اور چار پانچ کالے موجود تھے۔ آپ کو تو پتہ ہے میں باد نوشی کا شغف نہیں رکھتا، امی نے منع کیا ہے لہذا ابلے ہوئے آلو اورنج جوس میں ڈال کر نوش فرمانا شروع کر دیا۔ یہاں موجود افریقی بھائیوں کو دیکھ کر البتہ ایک جھرجھری آرہی تھی۔ خدانخواستہ لینے کے دینے نہ پڑ جائیں۔ پس، فقط دو اورنج جوس پی کر ہم واپس اوپر چل دیے جہاں اس وقت تک جن بھوت اور چڑیلوں کی تعداد میں خاطر خواہ اضافہ اور ملبوسات میں اسی قدر کمی ہوچکی تھی۔
حق کا تو نہیں معلوم، رونق البتہ ہم پا چکے تھے، جس کی تلاش میں اس شام ہم سب "یار ایڈیلیڈ دیکھتے ہیں" کے بہانے باہر نکلے تھے۔ الحمد للہ۔ ثم الحمد للہ۔
یہاں سے ہم ایک اور بار میں پہنچے جہاں ایک عدد پول ٹیبل ہماری منتظر تھی۔ میرے ساتھ دو جوانوں نے پول میں اظہار دلچسپی ظاہر کی۔ میں نے سوڈا واٹر پکڑ لیے۔ پہلی گیم کے دوران میں یہاں موجود رونق میں گم رہا۔ اس کے بعد آپ کے بھائی نے ڈنڈا پکڑ کر پول میں پہلے ایک جوان کو ہرایا، پھر دوسرے کو، اور پھر ہم باہر نکل گئے۔
اب تک رات کے بارہ بج چکے تھے۔ رات جو کچھ دیر پہلے بالغ ہوئی تھی، اب جوانی کے جوبن پر پہنچ چکی تھی۔ اب تک تحقیق بھی بہت ہوچکی تھی۔ اس لمحے ہمارا ارادہ ہوا کہ اب تبلیغ شروع کی جائے۔ پاس ہی ایک سٹرپنگ کلب تھا۔ دو تہائی اکثریت سے اندر داخل ہوتے یاد آیا کہ بھٹی خبیث اپنا آئی ڈی کارڈ نہیں لایا۔ بلاوجہ ان سے بحث کرنی پڑے گی۔
اور یوں دو تہائی اکثریت کے باوجود سٹرپنگ کلب میں تبلیغ کا ارادہ ناکام رہا۔ بس بہن جو اللہ کی مرضی۔۔ سچا پیار نہ ملا۔
اگلے روز وادی بروسہ کا قصد تھا۔
وادیِ بروسہ (جی ہاں بروسہ، ناکہ بھونسڑا) جنوبی آسٹریلیا کی ایسی وادی ہے جو پاک طیب انگوروں اور ان سے بننے والے خبث بھرے محلول کے حوالے سے مشہور ہے۔ مستنصر حسین بھٹی مگر الگ ہی بندہ ہے۔ ویسے تو سارے بھٹی منفرد ہوتے ہیں، ہر ایک کی وجہ تسمیہ الگ، تاہم یہ والے بھٹی کا کمال یہ تھا کہ اس کی منفرد بھوک اور آدھا مستنصر حسین تارڑ ہونا ہے۔ آپ اسلام آباد سے ناران کا پیدل کر چکے ہیں جس کا مفصل سفرنامہ تاحال باقی ہے۔ جہاں تک بھوک کی بات ہے، بھوک سبھی کو محسوس ہوتی ہے مگر بھٹی کی بھوک الگ رہی۔ آپ کو ہر دو گھنٹے بعد کمال کی بھوک محسوس ہوتی۔ اس بھوک میں آپ دو برگر چھک کر ایک بے نیازی کے ساتھ فرماتے۔۔
"مزا نہیں آیا۔ پھر بھی اگلے پندرہ منٹ نکال لوں گا۔ اب کوئی دیسی کھانا ڈھونڈیں "
بروسہ ویلی میں تو کالے سر والے سیاح بھی ہم چار ہی تھے، یہاں بریانی گھنٹہ کسی نے بیچنی تھی؟ چونکہ نیت کا الگ سے ثواب ہوتا ہے لہذا ہم بھرپور نیت کے ساتھ اگلے دو گھنٹے بھٹی کے لیے بریانی کا کہہ کر اگلے دو برگر ڈھونڈنے نکل پڑتے۔ راہِ حق کی اسی تلاش میں ہم نے بھٹی کے لیے بالوں والا برگر بھی ڈھونڈا تاہم بھٹی نے وہ کھانے سے ہی انکار کر دیا۔ وادی بروسہ چونکہ حسین بھی بہت ہے لہذا راستے میں کوئی نہ کوئی خوبصورت جگہ نظر آجاتی۔ ہم بیچ میں رک جاتے۔ وہاں آدھ پون گھنٹہ لگا کر گاڑی میں بیٹھتے اور بھٹی سے پوچھتے۔۔ ہاں بھئی بھوک کا کیا سین ہے۔ یہاں سے آگے ایک بار پھر بھٹی کے لیے بریانی کی تلاش کے بہانے برگروں کے آسرے پر سفر شروع ہوجاتا۔
ایسے ہی بریانی و برگروں کی تلاش میں راہ چلتے ایک سنسان سڑک پر ایک عدد پرانا سا بورڈ نظر آیا جس پر لکھا تھا۔۔
"بروسہ ویلی ہیلی کاپٹر رائیڈ، 75 ڈالر فی کس"
(ک پر زبر تصور کیا جائے)
چاروں طرف خوبصورت پہاڑ اور انگور کے باغات تو موجود تھے مگر سڑک قدرے سنسان تھی۔ ایسے سناٹے میں یہ بورڈ دیکھ کر پہلا گمان یہی ہوا کہ شاید یہ تھوُک والا ہیلی کاپٹر ہے۔ ہم تینوں یہ بورڈ دیکھا ان دیکھا کرکے آگے نکل گئے۔ کوئی تین کلومیٹر آگے جا کر ہم نے اس بورڈ پر اظہار خیال شروع کیا۔
"پچھتر ڈالر فی کس؟ سستا نہیں؟"
خیال آیا، کسی نے مرشد قیدی نمبر 804 کی یاد میں پچونجہ روپے فی لیٹر کو ہی نصب العین نہ بنا چھوڑا ہو۔ تشفی نہ ہوئی سو کال ملائی۔ معلوم ہوا پانچ منٹ کا اس سے بھی کم ہے۔ دس منٹ کا کوئی اڑھائی سو ڈالر۔ اب آپ لوگ تو جانتے ہی ہوں گے کہ پانچ منٹ میں گو اکثر لوگ فارغ تو ہوجاتے ہیں مگر اڑان کا وہ مزا نہیں آتا۔ ہم تینوں نے شدید سرعت کی بجائے تھوڑی بہت تاخیرِ انزال کے خیال سے دس منٹ کی پرواز پکڑ لی۔ اس وقت قرین تین بج کر دس منٹ ہو رہے تھے۔ سوا تین تک ہم ہیلی پیڈ کے سامنے کھڑے تھے۔ ہیلی کاپٹر کی خوبی یہ ہے کہ چھوٹے جہاز کی نسبت ہیلی میں بیٹھ کر پھٹتی نہیں۔ انسان اپنے حواس میں رہتا ہے الا یہ کہ پائلٹ کو مینیوورنگ کی انگل نہ ہو۔ فضاء میں پہنچ کر نیچے وائنریز ہی وائن ریز، سرسبز پہاڑ، جھیل، ڈیم، گھر اور سڑکیں دیکھنا نہایت ہی خوبصورت عمل تھا۔ طبیعت خوش ہوگئی۔ اوپر سے یہ فضائی سفر منصوبے کا حصہ بھی نہیں تھا لہٰذا ایسے ملا جیسے کسی کو اللہ کی زمین سے ہزار ڈالر پڑے مل جائیں۔ بہت مزا آیا۔
یہ الگ بات ہے کہ گھر واپس پہنچا تو میٹنگ کے دوران دو حرامیوں نے مجھے بتایا کہ تیری ویڈیو دیکھتے ہی ہم نے ایک دوسرے سے پوچھا۔۔
"ہیلی کاپٹر کریش ہوگیا تو ہماری کلاؤڈ مائیگریشن کا کیا ہوگا؟"