Sarak, Sawari Aur Be Dharak Yaari (2)
سڑک، سواری اور بے دھڑک سی یاری (2)
برسبین یہاں سے کوئی دو گھنٹے کا راستہ تھا۔ راستے میں ہی ہم نے کھانے کے لیے ریسٹورانٹ کا تعین کیا۔ وہاں رج کر مغز فرائی، دال اور بار بی کیو کھینچا اور چند سوٹے پھونک کر واپس گھر کو چل پڑے۔ گھر کی جانب چلتے چلتے ہمیں خیال آیا کہ برسبین کی نائٹ لائف تو دیکھی نہیں۔ اتوار کی رات دس بجے جو نائٹ لائف ہم دیکھنے میں دلچسپی رکھتے تھے وہ تو اب دوروں کے بستر چھوڑ کر اپنے بستر تک پہنچ ہی چکی ہونی تھی، اس کے باوجود ہم شہر کے نظاروں کو دیکھنے کے نام پر شہر کے بیچوں بیچ نکل پڑے۔ برسبین کو رات میں دیکھ کر احساس ہوا کہ یہاں کا انفراسٹرکچر خاص کر بحری نظام آمد و رفت میلبرن اور سڈنی کے مقابلے میں نسبتاً جدید ہے۔ برسبین خوبصورت شہر ہے۔ مزید خوبصورت اس وقت لگا جب ہم دور کھڑے وہ پل شریف دیکھ رہے تھے جہاں چند روز قبل ہزاروں برہنہ خواتین و حضرات نے پتہ نہیں کس چکر میں دوڑ فرمائی تھی۔ واہ۔ سبحان اللہ۔
یہاں سے ہم واپس ارسلان پائن کے گھر پہنچے۔ ارسلان پائن نے تب تک ہمارے لیے کمرے میں میٹھے میٹھے اے سی کے ساتھ نرم گرم کمبل کا انتظام کیا ہوا تھا۔ کمرے میں بیٹھ کر ہم نے گھنٹہ ایک گپ لگائی۔ ساتھ اپنا تمام تر ساز و سامان چارج پر لگایا اور پھر خوابِ خرگوش کو چل دیے۔ اس رات شکریہ ارسلان پائن، کوئی نیکسٹ لیول نیند آئی۔ اگلی صبح ہم واپس سڈنی کی جانب روانہ ہونے کو تیار تھے۔
سڈنی جانے سے قبل احسان بھائی، منیب اور شعیب کے ساتھ ہمارا ڈنر تھا۔ ڈنر پر احسان بھائی نے دو جگہوں کا نام بتایا کہ برسبین جاتے ہوئے وہاں لازمی جائیے گا۔ دونوں جگہوں کا نام مجھے یاد نہ رہا۔ مستنصر کو البتہ یاد تھا۔ جاتے ہوئے چونکہ ہم پہنچنے کی جلدی میں تھے لہذا یہ دونوں مقامات واپسی کے لیے رکھ لیے۔ ان میں سے ایک مقام سکھوں کا شہر تھا جس کا نام مستنصر جب بھی لیتا مجھے سمجھ نہ آتا۔ مجھے لگتا شاید "بنڈ پنگہ" کہہ رہا ہے۔ بعد ازاں معلوم ہوا شہر کا نام Woolgoolga تھا۔ خیر ہمارا ارادہ یہاں کے گردوارے میں لنگر کھینچنے کا تھا۔ بھوک ٹائٹ لگی پڑی تھی۔ گھر کا کھانا کھائے بھی ایک عرصہ ہوچکا تھا۔ بس تھوڑی سی کنفیوژن وہ بھی مجھے تھی تو فقط اس لیے کہ جیسے ہم غیر مسلم کو اپنی عبادت گاہ میں آنے پر "پلید" کا درجہ دیتے ہیں، کہیں سکھ بھی غیر سکھ کو دیکھ کر "نکل اوئے پلیدا" نہ کہہ دیں۔ لیکن نہیں صاحب۔۔ کہاں۔۔
ہم گردوارے پہنچے تو احساس ہوا کہ میں کچھے میں ملبوس ہوں۔ یہ سوچ کر کہ کہیں عبادت گاہ کی بے حرمتی نہ ہو میں نے کچھے کے اوپر ہی ٹراؤزر چڑھا لیا۔ گردوارے پہنچ کر سر کو کپڑے سے ڈھانپا اور اندر لنگر خانے پہنچ گئے۔ یہاں کوئی سات آٹھ بزرگ آنٹیاں کھانے بنانے میں مصروف تھیں۔ تھال اٹھا کر ہم نے دال، سبزی، دہی بوندی اور پھلکیاں (روٹیاں) اٹھائیں اور سامنے زمین پر بیٹھ گئے۔ بخدا اس قدر لذیذ اور گھر کا کھانا شاذ و نادر ہی میسر ہوتا ہے۔ بہت ہی کمال۔ میرا خیال ہے ہم نے نہ نہ کرکے بھی فی کس سات روٹیاں تو شاید کھائی ہوں گی۔ کھانے کے بعد اٹھائے نمک پارے، دیسی گھی کے بنے موند/موندی کے لڈو اور چائے۔ گھر سے ہزاروں کلومیٹر دور اور چاہیے تو کیا؟ کھانا کھا کر ہم اوپر عبادت گاہ والے حصے میں کچھ دیر بیٹھے اور پھر وہاں سے نکل پڑے۔ گاڑی میں پہنچ کر میں نے واپس اپنا ٹراؤزر اتار کر کچھے کو لباس عام کا درجہ دیا تاہم تب تک مستنصر بھٹی ایک ایسی ویڈیو بنا چکا تھا جس کے مطابق میں اپنی ستھن مونڈے پر رکھ کر گاڑی کا دروازہ کھول رہا تھا۔
بنڈ پنگا سے ہم نے واپس سڈنی کی راہ پکڑی۔ سڈنی کے قریب نیو کاسل ایک شہر آتا ہے۔ اس سے شاید گھنٹہ بھر پہلے ہمیں گوگل میپ پر ایک اور جگہ Karuah نظر آگئی جہاں ڈرون شاٹس اچھے آتے۔ تب تک میری آفس کی میٹنگ شروع ہوچکی تھی۔ مسئلہ یہ تھا کہ میری توجہ میٹنگ میں جاری گفتگو کی جانب جبکہ نگاہیں بھٹی کے ہاتھوں پر تھیں جو مجھے دائیں بائیں گاڑی چلوا رہے تھے۔ خیر کسی نہ کسی طرح ہم سمندر کنارے پہنچ چکے تھے جہاں ایک عدد جیٹی، کئی چھوٹی بادبان بردار کشتیاں، ایک عدد پارک، بجلی کی لائینیں، پہاڑ، پل وغیرہ تھے۔ نظارہ خوبصورت تھا سو ہم یہاں رک گئے۔
یہاں پہنچ کر میں نے توجہ میٹنگ پر مرتکز کی تاکہ کام ختم کرکے سکون سے سفر جاری جا سکے۔ تب تک بھٹی صاب اپنے ڈرون سے تمام مناظر فلمبند کر رہے تھے۔ کچھ دیر بعد میٹنگ میں خرافات شروع ہوئیں تو میں نے بھی ٹونٹیاں (ائیر بڈز) کان میں لگائے ڈرون کی فلائٹ شروع کر ڈالی۔ کافی دیر یہاں وہاں کی فضائی سیر کرنے کے بعد دو عدد کشتیاں نظر آئیں جو بڑی خوبصورت محسوس ہوئیں۔ میں نے اپنے ڈرون کو انہی دونوں کے گرد طواف کروانا شروع کر دیا۔ اچھے شاٹس آئے جو کبھی موقع ملا تو لگا دوں۔ قصہ مختصر سورج ڈوبنے تک ہم بھی اپنی تینوں بیٹریاں فارغ کر چکے تھے۔ مزید کچھ کام نہ رہا تو آگے نیو کاسل کا رخ کیا۔
نیو کاسل میں ہم نے کھانے کا ارادہ کیا۔ میں انگریزی چائینیز تھائی سب ٹھونس لیتا ہوں۔ اس ضمن میں مستنصر کافی selective ہے۔ بلکہ یوں کہہ لیجئے بھٹی کا معدہ ذرا نخرے والا ہے۔ ولایتی کھانے کے ذائقے سے بھٹی کو مسئلہ نہیں۔ نہ ذبیحے یا غیر ذبیحے کا مسئلہ ہے۔ بھٹی کا مسئلہ یہ ہے کہ اسے دیسی کھانا نہ ملے تو آدھے گھنٹے بعد اس کا معدہ ری سیٹ ہوجاتا ہے۔ پس اسی مسئلے کے تناظر میں ہم نے نیو کاسل پاکستانی ریسٹورینٹ دیکھا۔ نام غالباً پاکستانی ڈھابہ تھا۔ یہاں پہنچے تو آگے پیزے کی دوکان تھی۔ اب ہمیں تشویش ہوئی کہ پیزا ہمیں منظور نہ تھا۔ ابھی ہم سوچ ہی رہے تھے یہ کیا ہاتھ ہوگیا ہمارے ساتھ کہ میں نے وہیں کھڑے ایک غالباََ بنگالی جوڑے سے پوچھ لیا کہ پاکستانی ڈھابہ کہاں ہے۔ اگلوں نے بتایا یہی ہے۔
ڈھابے کے اندر گئے تو پشتون لہجے میں انگریزی بولتا نوجوان نظر آیا۔ میں نے پشتو میں پوچھ لیا کہ پائن پشتون او۔ جواب ملا "آؤ جی، زہ دا سوات یم"۔ یہاں سے آگے جو گفت و شنید ہوئی اس کا غالب حصہ بھٹی کی سمجھ سے بوجہ پشتو میں ہونے کے باہر رہا۔ یہ ایک پشتون سوات کی فیملی تھی جو گیارہ برس سے یہیں مقیم تھی۔ بندے کا تعلق فوڈ انڈسٹری سے ہی تھا اور حال ہی میں اپنا ریسٹورانٹ کھولا تھا۔ ہم نے بھائی سے دنبہ کڑاہی اور چپلی کباب کی فرمائش کی جو الحمد للہ پوری ہوئی۔ بس ایک چھوٹا سا مسئلہ یہ ہوا کہ ہم دونوں کی پکی رنگت دیکھ کر سواتی بھائی نے ہماری کڑاہی میں دبا کر سرخ مرچیں ڈال دیں۔ ناصرف یہ بلکہ چپل کباب کے ساتھ بھی ہری مرچیں کاٹ کر سامنے رکھ دی۔ اب ہم تو ٹھہرے پکی رنگت والے لوگ۔ ہم نے بھی چسکے لے کر سب ڈکار لیا، جس کا خمیازہ بعد ازاں مجھے بھگتنا پڑا۔
ڈیڑھ دو گھنٹے مزید ڈرائیو کے بعد گھر پہنچے تو حالت ٹائٹ تھی۔ رات کا ایک بج چکا تھا۔ میری فلائٹ صبح آٹھ بجے کی تھی۔ یعنی میں نے پانچ بجے اٹھ کر چھ بجے نکلنا تھا۔ رینٹ کی گاڑی واپس کرنی تھی اور وہاں سے ائرپورٹ پہنچنا تھا۔ اڑھائی بجے ہم سونے لیٹ گئے۔ میری آنکھ کھلی ساڑھے پانچ بجے۔ وہ بھی کچھ اس حالت میں کہ بیک وقت پیٹ اور معدہ گالیاں دے رہے تھے۔ رات کا کھانا کھانے سے پہلے میں نے غیر معمولی طور پر ایک عدد اورنج جوس بھی پی رکھا تھا۔ پھر مرچوں والی کڑاہی اور کباب، تیزابیت نے سونڈ پھاڑ کر رکھ دی تھی۔ ہلکی پھلی قے کے بعد میں بھٹی سے اجازت لے کر ائیرپورٹ روانہ ہوا تو پیٹ نے احتجاج شروع کر دیا۔ اب میری توجہ سڑک پر کم اور سڑک کنارے کسی بھی باتھ روم کی طرف زیادہ تھی۔ اسی چکر میں پیٹرول بھی نہ ڈلوا سکا جس کے سو ڈالر بعد میں الگ سے دینے پڑے۔ گویا ایک عدد پوٹی کا سیشن مجھے سو ڈالر کا پڑا۔ شکر الحمد للّٰہ کہ رینٹل آفس میں واش روم موجود تھا۔ گزارا ہوگیا۔
یہاں سے میں فلائٹ پکڑ کر سڈنی پہنچا۔ فلائیٹ کے دوران میں اللہ کے فضل و کرم سے صرف سوتا رہا۔ باہر نکل کر گاڑی پکڑی اور ڈیڑھ گھنٹے کی مزید مسافت کا آغاز کرتے ایوالون ائیرپورٹ جو میلبرن سے باہر ہے اور مجھے اپنے اختصار کی وجہ سے پسند ہے، میں گھر کی جانب روانہ ہوگیا۔
میلبرن سے نوزا بیچ سن شائن کوسٹ تک اور پھر راستے سے جان کر بھٹک کر یہاں وہاں جانا اور آنا قریب ساڑھے چار ہزار کلومیٹر بنتا ہے۔ اس میں سے ڈھائی ہزار کلومیٹر ہم نے سڑک پر ڈرائیو کرتے طے کیا۔ بھٹی مزے کا بندہ ہے۔ دنیا کے معاملات کو کم و پیش ویسے ہی دیکھتا ہے جیسے میں۔ فوٹوگرافی کا شوق رکھتا ہے۔ روڈ ٹرپ کا بھی میری ہی طرح رسیا ہے۔ روڈ ٹرپ کے علاوہ بھٹی صاحب کا ایک اور مشغلہ پیدل ٹرپ بھی ہے۔ موصوف راولپنڈی سے ناران پیدل سفر کر چکے ہیں۔ وہ ایک الگ داستان ہے جو کبھی ہم نے باقاعدہ وی لاگنگ شروع کی تو چسکے لے کر سنائیں گے۔ تین دن پہلے ارسلان پائن نے یہ داستان چسکے لے کر سنی۔ ان کے ساتھ بھی مزا آیا۔
سڈنی کی وائبز بہت الگ ہیں۔ یہ میلبرن کی نسبت زیادہ زندہ دل شہر ہے۔ یہاں ٹھنڈ بھی میلبرن کی نسبت کم پڑتی ہے اور چہل پہل بھی زیادہ رہتی ہے۔ مینلی بیچ جو کیو سٹیشن کے قریب ہے، پر میں دو دن رکا، جہاں کل ملا کر سات آٹھ انسان مکمل ملبوس دیکھے۔ یوں سڈنی وائبز مزید دلچسپ ہوجاتی ہیں۔ اس کی نسبت میلبرن کی زندگی میں ٹھہراؤ ہے۔ ٹریفک نسبتاً سلجھی ہوئی اور پولیس کی موجودگی کم سے کم ہے۔ یہاں پھڈے سڈنی کی نسبت کم ہوتے ہیں۔ لوگ زیادہ خندہ پیشانی اور مسکراہٹ سے ملتے ہیں۔ گولڈ کوسٹ کے ساحل شاید آسٹریلیا میں سب سے زیادہ خوبصورت ہیں۔ گولڈ کوسٹ میں نسبتاً کم علاقے کے اندر ساحل سمندر، پہاڑ اور شہری جدت دیکھنے کو ملتی ہے۔ برسبین میں مجھے میلبرن والا ٹھہراؤ اور سڈنی والی وائبز ملیں۔
آسٹریلیا بہت خوبصورت ملک ہے۔ جنون تو نہیں مگر میرا شوق ہے کہ حتی الامکان روڈ ٹرپس کے ذریعے پورا آسٹریلیا گھوما جائے۔ میلبرن سڈنی اور ایڈیلیڈ کے وسط میں واقع ہے۔ اس سے پہلے میں سڈنی، ایڈیلیڈ اور ہوبارٹ پھر چکا ہوں۔ سڈنی سے آگے یہ پہلا سفر تھا۔ اگلی بار یا تو برسبین سے مزید آگے Cairns کی جانب سفر کرنا ہے یا پھر ایڈیلیڈ سے آگے پرتھ۔
جب تک سڑک، سواری اور بے دھڑک سی یاری کا ساتھ رہا، زندگی کے دیگر معاملات کے ساتھ سفر بھی انشاءاللہ جاری و ساری ہی رہے گا۔