Digital Tanhai
ڈیجیٹل تنہائی

مزاج دنیا سے جوں جوں آشنا ہو رہا ہوں
میں تنہا اور تنہا اور تنہا ہو رہا ہوں
تنہائی یا اکیلا پن، تنہا ہونا، یا تنہا محسوس کرنا ایک نفسیاتی کیفیت ہوتی ہے۔ آج کی مصروف زندگی میں تنہائی کو اکثر منفی طور پر ہی دیکھا جاتا ہے گو کہ یہ تنہائی نعمت بھی ہے اور مصیبت بھی ہوتی ہے۔ ہر وقت لوگوں کے درمیان گھرا ہوا رہنا یا سوشل میڈیا پر متحرک رہنا خوشی کا پیمانہ سمجھا جاتا ہے۔ گو کہ تنہائی بسا اوقات جسمانی اور ذہنی صحت کے لیے فائدہ مند بھی ہوتی ہے۔ کبھی کبھی تنہائی سے ذہنی سکون ملتا ہے۔ شاعر اور دانشوروں کی تخلیقی صلاحیت بڑھتی ہے کیونکہ اکیلے میں زیادہ گہرائی سے سوچنے اور تصور کرنے کا موقع ملتا ہے۔ ایک عام انسان کو بھی پرسکون تنہائی کی باعث بسا اوقات اپنے مسائل کا حل تلاش کرنے میں مدد ملتی ہے جو اس میں خود انحصاری کو جنم دیتی ہے۔ تنہائی ہمیں اپنی اندرونی آواز سننے کے قابل بناتی ہے۔ لیکن یہی اکیلا پن اور تنہائی انسانی ڈئپریشن کی ابتدا ٔ بھی ہوتی ہے۔
آج دنیا بھر میں تنہائی کے مختلف پہلووں پر بحث ایک دلچسپ موضوع بن گیا ہے۔ حتیٰ کہ برطانیہ میں ایک وزیر کو سرکاری محکموں میں تنہائی سے دوچار لوگوں کے مسئلے کو حل کرنے کی ذمہ داری سونپی گئی ہے۔ ماہرین کے مطابق اکیلا پن اور تنہائی کا مطلب تنہا ہونا نہیں بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ دوسروں سے تعلق اور ربط محسوس نہیں کرتے۔ اس طرز کا اکیلا پن کسی وبائی مرض کی طرح پھیل رہا ہے۔ اسی لیے تنہائی یا اکیلے پن کے مختلف پہلووں پر پوری دنیا میں بات کی جارہی ہے۔ انہیں میں سے ایک اہم پہلو ہماری سماجی تنہائی ہے جس کا سبب سوشل میڈیا کا زیادہ استعمال قرار دیا جارہا ہے۔ کچھ لوگ اسے ڈیجیٹل تنہائی بھی کہتے ہیں۔ یہ ڈیجیٹل تنہائی کسی طرح بھی ذہنی و جذباتی تنہائی سے کم نقصان دہ نہیں ہے۔
سوشل میڈیا جو بظاہر تو پوری دنیا کو جوڑنے کا ذریعہ دکھائی دیتا ہے درحقیقت یہ ڈیجیٹل تنہائی میں اضافے کا باعث بن رہا ہے۔ سوشل میڈیا پر دوستوں اور فالوورز کی تعداد تو بڑھتی ہے لیکن یہ زیادہ تر سطحی تعلقات ہوتے ہیں۔ حقیقی دوستی اور قریبی رشتے آن لائن لائکس اور تعریفی کمنٹس سے نہیں بنتے بلکہ وقت اور جذباتی قربت مانگتے ہیں جو اسکرین سے کبھی نہیں مل سکتی۔ یہ مصنوعی تعلقات، حقیقی میل جول میں کمی، حسد اور احساس کمتری جیسی نفسیاتی بیماریوں کے ساتھ ساتھ انسان کو ڈیجیٹل تنہائی کے عفریت کا شکار کردیتے ہیں۔
یہ عجیب بات ہے کہ سب ایک جگہ اکھٹے ہوتے ہوئے بھی ایک دوسرے سے لاتعلق ہو کر اپنی اپنی اسکرین اور موبائل سے جڑے دکھائی دیتے ہیں یہی وہ ڈیجیٹل تنہائی ہے جو آج پوری دنیا کو اپنی جانب متوجہ کر رہی ہے جسے تنہائی کی مضر ترین قسم بھی کہا جا رہا ہے۔ آج پوری دنیا میں اس تنہائی سے بچنے کے لیے ایک ایسی نئی سوچ جنم لے رہی ہے جو ناصرف اس آنے والے پوشیدہ خطرئے کو محسوس کر رہی ہے بلکہ اس سے ممکنا تباہی سے خوفزدہ دکھائی دیتی ہے۔
کون تنہائی کا احساس دلاتا ہے مجھے
یہ بھرا شہر بھی تنہا نظر آتا ہے مجھے
ڈیجیٹل تنہائی ایک ایسا مسئلہ ہے جو جدید ٹیکنالوجی کے بڑھتے ہوئے استعمال کے ساتھ شدت اختیار کر رہا ہے۔ آج کے اس جدید دور میں لوگ جسمانی طور پر قریب لیکن جذباتی اور ذہنی طور پر دور ہوتے جارہے ہیں۔ سوشل میڈیا، اسمارٹ فون اور دیگر ڈیجیٹل پلیٹ فارمز نے جہاں دنیا کو قریب کرکے ایک سکرین پر اکھٹا کردیا ہے وہیں یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ان کے استعمال کی زیادتی نے حقیقی انسانی تعلقات کو کمزور کر دیا ہے۔
انٹرنیٹ کا کثرت سے استعمال ہماری ڈیجیٹل تنہائی کی عادت کو مضبوط تر کرتا جا رہا ہے۔ ہمارئے گھروں میں رات کی تنہائی میں بچے اور نوجوان تن تنہا ساری ساری رات اکیلے انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کے ڈیجیٹل پلیٹ فارمز پر کام کرتے ہیں اور پھر سارا دن نیند کے مزئے لیتے ہیں۔ یہ لوگ حقیقی میل جول کی بجائے ورچوئل دنیا میں زیادہ وقت گزارتے ہیں۔ جو انہیں خاندان اور دوستوں سے دور کرتی جارہی ہے۔ ایک ہی گھر میں رہتے ہوئے بھی گھر کے افراد ایک دوسرے ٔ سے بات کرنے کی بجائے اسکرین پر محو رہنے کو بہتر سمجھتے ہیں۔
کرونا وائرس کے دوران ورک فرام ہوم اور آن لائن کلچر کو فروغ دیا گیا ہے۔ دفاتر اور تعلیمی اداروں میں جسمانی موجودگی کم ہونے سے سماجی تعلقات محدود اورکمزور ہو گئے ہیں۔ جبکہ بہت سے منفرد اور مصنوعی روابط جنم لے رہے ہیں۔ آن لائن رابطے یا اسکرین کے رشتے کبھی بھی حقیقی جذباتی وابستگی کی جگہ نہیں لے سکتے جس سےلوگ مزید تنہائی کی جانب بڑھ رہے ہیں۔ مسلسل آن لائن رہنے سے ذہنی دباؤ اور افسردگی بڑھ رہی ہے اور لوگ خود کو تنہا محسوس کرنے لگتے ہیں۔ جب آمنے سامنے بات چیت کے مواقع کم ہوتے ہیں تو لوگون کی کمیو نیکیشن اسکلز متاثر ہوتی ہے جو سماجی مہارتوں میں کمی کا باعث بنتی ہے۔ جو ہمارئے باہمی انسانی رشتوں کو کمزور کرنے کا باعث بن رہی ہے۔
والدین اور بچوں کے ساتھ ساتھ قریبی رشتوں کے درمیان فاصلے بڑھ رہے ہیں کیونکہ ہر کوئی اپنی اپنی اسکرین کی دنیا میں مصروف اور مست دکھائی دیتا ہے۔ گو ڈیجیٹل دنیا کی جدید سہولتوں اور ٹیکنالوجی سے فائدہ اٹھا نا بھی بہت ضروری ہے لیکن یہ بھی لازم ہے کہ ہم اپنی اصل دنیا کے رشتوں اور تعلقات کو نظر انداز نہ کریں متوازن طرززندگی ہی ہمیں اس جدید تنہائی کے جال سے نکال سکتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ اس ڈیجیٹل تنہائی کو کیسے دور کیا جا سکتا ہے؟ کیا ہماری کسی کوشش سے اس میں کمی لائی جاسکتی ہے؟ جی ہاں ماہرین کی رائے میں اس جدیدڈیجیٹل تنہائی کے خول سے نکلنے کے چند راستے اب بھی موجود ہیں۔
کچھ تو ائے یار علاج غم تنہائی ہو
بات اتنی بھی نہ بڑھ جائے کہ رسوائی ہو
سوشل میڈیا ہمیں جوڑنے اور یکجہاتی پیدا کرنے کی بجائے اگر تنہائی کی طرف دھکیل رہا ہے تو سمجھ لیں کہ وقت آگیا ہے کہ ہم سوشل میڈیا اور اسکرین کو اپنی زندگی میں متوازن طریقے سے استعمال کریں۔ سوشل میڈیا کا محدود اور مثبت استعمال کریں۔ اسکرین کی بجائے کتاب کے مطالعہ پر توجہ دیں اور سوشل میڈیا پر مصنوعی زندگی کی بجائے خقیقت کو تسلیم کریں کسی نہ کسی ہنر کو سیکھنے یا شوق کو پورا کرنے کی کوشش کریں۔ حقیقی زندگی میں دوستوں اور رشتے داروں سے میل ملاپ اور ملاقات کو فروغ دیں خصوصی بزرگوں اور والدین کو وقت دیں۔ "ڈیجیٹل ڈٹاکس" یا ڈیجیٹل روزئے کی پالیسی اپنائیں یعنی کچھ وقت کے لیے سوشل میڈیا سے وقفہ لیں۔ ورزش اور آوٹ ڈور سرگرمیوں میں حصہ لیں۔ بچوں کے سامنے سوشل میڈیا کا استعمال کم سے کم کریں۔ بچوں کو تنہائی میں اسکرین سے دور رکھیں اور ان کی آوٹ ڈور سرگرمیوں میں اضافہ کریں۔
اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ کے بچے اچھی زندگی گزاریں تو اسکرین سے ہٹا کر کچھ دیر دھوپ، بھوک، گرمی اور سردی کا سامنا بھی کرنے دیں۔ انہیں کتاب، کھیل کے میدان اور خوبصورت پارکس کی جانب راغب کریں۔ مائیں اپنے بچوں کو چپ کرانے، سلانے کے لیے موبائل فون کی لوریاں دینے سے پرہیزکریں جسمانی سرگرمیاں اور فطرت کے قریب ترین وقت گزارنے سے ذہنی سکون اور سماجی روابط میں اضافہ ہوتا ہے۔
جدید تحقیق اور سائنسی شواہد کی روشنی میں سویڈن نے ڈیجیٹل کلاس رومز کا خاتمہ کرتے ہوئے روائتی تدریسی طریقوں یعنی کتاب، کاپی اور قلم کو دوبارہ تعلیمی نظام کا بنیادی حصہ بنا دیا ہے۔ تحقیقات سے یہ بات واضح ہوچکی ہے کہ حد سے زیادہ ٹیکنالوجی کا استعمال بچوں کی سیکھنے کی صلاحیت اور تخلیقی سوچ پر منفی اثر ڈالتا ہے۔ دنیا کی چند دنوں کی زندگی کو باہمی ملاپ اور یکجہاتی کے ساتھ بسر کریں اور اپنی آنے والی نسلوں کو بھی اس ڈیجیٹل تنہائی کے روگ سے محفوظ بنائیں۔