Bi Sugi
بی سگی

صغراں بی بی کا نام بگڑ کر سُگی کب اور کیسے ہوگیا؟ کون کہہ سکتا ہے۔ لیکن سوچو تو اس کیلئے موزوں نام بھی یہی تھا اور کچھ نام ہوتا تو ذرا بھونڈا سا لگتا۔ ایک مہترانی کا نام ارجمند آراء یا نجم سلطانہ بڑا اٹ پٹا سا ہوگا۔ ہو بھی تو کچھ ہی عرصہ میں رجو یا نجو ہو جائے گا۔ سہولت بھی اسی میں ہے۔ چنانچہ صغراں بی بی بھی کسی موڑ پر سگی ہوگئی تھی اور ہم نے ہمیشہ اس کا یہی نام سنا۔
اس کا ہمارے ہاں آنا بھی ایک دلچسپ واقعہ ہے۔ گلی میں ایک مکان بھاڑے کا تھا۔ کبھی کوئی کرایہ دار آ کر بیٹھ جاتا ورنہ خالی ڈھنڈار۔ ایک دفعہ کہیں سے میاں بیوی آ کر بس گئے۔ دونوں جوان، بی بی اسپتال میں شاید نرس تھی اور شوہر بھی وہیں کام کرتا تھا۔ حسن نامی ایک لڑکا بھی تھا جو ہمارے برابر ہی ہوگا۔ ہم نے پہلی دفعہ یوں کام کرتی عورت کو دیکھا۔ میاں بیوی خوب جھگڑم جھگڑی ہوتے لیکن دونوں کا بس آخر میں بچے پر چلتا جسے بات بے بات دھنک دیا جاتا۔ ہمارے ہاں آتا تو کبھی سر زخمی اور کبھی ماتھا سوجا ہوا۔ خیر بی سگی انہی کے ہاں کام کرنے، کپڑے دھونے آتی تھی۔
ایک دفعہ اماں بیمار پڑیں تو حسن کی ماں نے مشورہ دیا کہ کچھ دن سگی کو بلوا لو۔ سارا کام سمیٹ دے گی اور روپیہ بھی کیا جو سو پچاس دل کرے دے دینا۔ اماں کی حالت کام کرنے والی نہ تھی۔ چنانچہ بی سگی کو بلا لیا گیا۔ وہ آئی تو چند دن کیلئے تھی لیکن پھر چند دنوں کا یہ گھیر پھیلتا چلا گیا۔ دراصل گھر میں دادی اور اماں کی سرد جنگ چلتی رہتی تھی، دادی کے پاس محلے کی بڑی بوڑھیاں آ کر بیٹھ جاتیں لیکن اماں کا کیمپ خالی تھا۔ بی سگی کے آنے سے انہیں بھی ایک سپاہی مل گیا۔ وہ اگرچہ بڑی احتیاط سے دونوں طرف بنا کر رکھتی لیکن زیادہ اس کی اماں سے ہی بنتی تھی۔
خبر نہیں کہ بی سگی کہاں کی رہنے والی تھی، کہاں پیدا ہوئی کہاں پلی بڑھی۔ اس کی زبانی پتہ چلتا تھا کہ لاہور کا روڑا تھی، حالات کی ٹھوکر لگی تو یہاں آ پڑی۔ ہمارے لیے ان دنوں لاہور سمرقند و بخارا سے کم نہ تھا۔ پھر ہم نے یہ بھی سنا کہ اس کا تعلق کسی بڑے اونچے گھر سے تھا، میاں کے ٹھاٹ تھے لیکن شادی کے چند سال بعد وہ بری صحبتوں میں پڑ گیا اور تماش بینی کرنے لگا۔ تمام گھر بار بازاری عورتوں پر لُٹا دیا اور بیوی کو بھی گھر سے نکال باہر کیا۔ کہتے تھے کہ بی سگی نے اس کے پیچھے بڑا خون جلایا لیکن اسے نہ ڈھب پر آنا تھا نہ وہ آیا، آخر فالج زدہ ہو کر پڑ گیا۔ بازاری عورت کس کی سگی، جو باہر سے لا کر گھر میں رکھی تھی وہ بھی چھوڑ کر چلتی بنی۔ بی سگی کبھی دکھی ہوتی تو یہ داستان سنایا کرتی تھی۔ "بس باؤ لہور میں دو کنال کی کوٹھی تھی اپنی۔ ساری اس کٹنی کو کڑاہیاں گوش اَت" کھلا کھلا کر اُڑا دی۔ میں نے کیا کیا نہ جتن کیے۔ اب پڑا ہے۔ پہلے دماغ میں آکڑ تھی اب جسم اکڑ گیا ہے"۔
ناجانے کیوں اس کہانی میں "کڑاہیاں گوش اَت" کا ذکر لازمی ہوتا۔ لیکن سوکن کی بات پر بھی بی سگی کا لہجہ کبھی تلخ نہ ہوا۔ بس اس کی آواز میں جو مستقل بے چارگی تھی وہ ذرا بڑھ جاتی۔ شاید وہ اپنے شوہر کی حالت پر واقعی دکھی تھی۔ سنا تھا کہ کبھی کبھار اس کی خبرگیری کو لاہور بھی جایا کرتی تھی۔
معمول یہ تھا کہ پہر دن چڑھے شمال کی جانب سے بی سگی آتی دکھائی دیتی۔ گہرا رنگ، کمزور بدن، گھسی ہوئی شلوار قمیص کے اوپر دوپٹہ جو خدا جانے ململ کا ہی ہوا کرتا تھا یا گھس گھسا کر ایسا دکھائی دیتا تھا۔ پاؤں میں لیلن کی چپل جو ہمیشہ اس کیلئے چھوٹی ہوتی۔ اس کی ایک ہی بیٹی تھی، جسے ہم سب باجی سعدیہ کہا کرتے تھے۔ اکثر وہ بھی ساتھ ہوتی۔ میں تو ذرا کھچا کھچا رہتا لیکن اماں اور بہن کی اس سے خوب بنتی۔ تھی بھی ذرا چلبلی۔ اِدھر ان کا یہ حال کہ گھر سے باہر قدم رکھو تو گناہ ہے۔ چنانچہ باجی سعدیہ دنیا بھر کی خبروں اور تذکروں کا ذریعہ تھیں۔
بی سگی ویسے بھی کم بولتی تھی پھر یہ کہ اسے جلد سے جلد کام نپٹا کر اگلے گھر جانا ہوتا تھا، چنانچہ جب وہ کام پر لگ جاتی تو باجی سعدیہ اماں اور بہن کے پاس آ بیٹھتیں۔ باتوں کے سلسلے دراز ہوتے۔ کپڑوں کے نت نئے نمونوں پر بحث ہوتی۔ "باجی اپنی اسماء کیلئے یہ بنوا لو۔ میں نے فلاں باجی کے ہاں دیکھا تھا۔ بڑا جچتا ہے، باجی یہ نئی لیس آئی ہے۔ آج کل بڑا فیشن ہے۔ بڑے اسٹور سے تین روپے گز ملتی ہے"۔ وہ ہمارے لیے اور اماں اس کیلئے باجی تھیں۔ دوسری طرف بی سگی کام ختم کرکے ہاتھ منہ دھوتی اور آرام سے چائے کی ایک پیالی کے ساتھ جہاں سب بیٹھے ہوتے وہاں زمین پر بیٹھ جاتی۔ اس کا کھانا پینا سب ننگے فرش پر تھا۔ بیسیوں دفعہ کوشش کے باوجود کوئی اسے پلنگ یا کرسی پر بیٹھنے کیلئے آمادہ نہ کر سکا۔ کہا بھی جاتا تو اسے لگتا کہ شاید اس کا بیٹھنا ہمیں کھل رہا ہے۔ "نہیں باؤ، اللہ کی زمین ہے۔ بس ابھی جانے کا وقَت ہوگیا"۔
بی سگی کے دل پر داغوں کی کمی نہ تھی لیکن بیٹی کی شادی نے ایک اور زخم کا اضافہ کر دیا۔ شادی تو ہمارے سامنے ہوئی۔ اماں یا بہنیں خود تو شامل نہ ہوئیں لیکن اپنے تئیں کچھ دے دلا کر ازالہ کر دیا۔ شوہر ناجانے کون تھا لیکن نکھٹو نکلا۔ اس کے علاوہ اور توقع بھی کیا تھی۔ لڑکی نین نقش کی اچھی سہی لیکن تھی تو موری کا کیڑا، وہی نصیب تھے۔ چنانچہ شادی کے بعد بی سگی کی پریشانیوں میں یہ اضافہ ہوگیا۔ پہلے اپنے شوہر کو روتی تھی اب اس کے شوہر کے رونے لگی۔ پھر بھی کسی نہ کسی طرح دونوں گھروں کو پورا کرتی رہی۔ لیکن باجی سعدیہ کے چہرے پر جو شوخی تھی وہ پھر واپس نہ آئی۔ شادی کے بعد کبھی کبھار ملنے آتی تو بڑی سنجیدہ دکھائی دیتی۔ اب وہ سلائی کڑھائی بھی کرنے لگی تھی۔ چنانچہ باتوں سے زیادہ اس کی کوشش ہوتی کہ کوئی کپڑا لتا سینے پرونے کو مل جائے۔
باجی سعدیہ کے علاوہ بی سگی کے دو بیٹے بھی تھے۔ چھوٹے کا نام عثمان تھا۔ عثمان نے پانچ جماعتیں پڑھی تھیں لیکن پھر اوروں کی دیکھا دیکھی اسکول چھوڑا اور ورکشاپ پر جانے لگا۔ ماں سر پیٹتی رہ گئی لیکن جوانی کا خمار تھا کیا دیکھتا۔ پھر یہ کہ یار دوستوں کے ساتھ چوبیس گھنٹے کا ساتھ تھا اور ماں صبح گئی شام لوٹتی تھی۔ آ کر روٹی سالن کر دے یہی بہت۔ ایک دن انہی لڑکوں کے ساتھ نہر پر نہانے گیا اور واپس نہ آیا۔ یار دوست خود تو سب نکل گئے، اس کو اگلے دن سات میل دور سے لوگوں نے نکالا۔ اس کا ذکر آتا تو ماں بیٹی بڑی رنجیدہ ہوتیں لیکن مجھے عثمان پر بڑا غصہ آتا۔ گھر کے پاس سے نہر نکلتی تھی اور محلے کے سارے لڑکے گرمیوں کی دوپہریں وہاں گزارتے۔ گھنٹوں پانی میں ڈبکیاں لگائی جاتیں۔ بی سگی نے ویسے تو کبھی ہمارے کسی کام میں دخل نہیں دیا لیکن ذرا میں نہر پر جانے کا نام لیتا تو وہ فوراً کلیجہ تھام لیتی، "ناں باؤ ناں۔ میرا عثمان بھی ایسے ہی نہانے گیا تھا۔ پھر واپس نہیں آیا۔ باجی اس کو بالکل نہ جانے دینا۔ یہ کوئی کھیل تھوڑا ہی ہے"۔ میں صفائیاں دیتا رہ جاتا کہ یہ نہر اتنی گہری نہیں ہے اور لڑکے بھی ہوں گے، لیکن اماں ٹس سے مس نہ ہوتیں۔
اس کا دوسرا بیٹا جو اب اکلوتا بھی تھا، اسنوکر کا شوقین تھا۔ سارا دن کسی کلب میں گھسا رہتا یا تھڑوں پر ملتا۔ اس کے مطابق دنیا میں معتبر پیشہ صرف ایک تھا یعنی رکشہ چلانا۔ اس کے علاوہ ہر کام کو ننگ سمجھتا تھا۔ چنانچہ اس نے ماں سے صاف کہہ دیا تھا کہ رکشہ لے دو گی تو کام کریں گے، ورنہ ہم سے کوئی توقع نہ رکھنا۔ اسی لیے بی سگی کیلئے زندگی کی سب سے سہانی امید ایک رکشہ خریدنا تھا۔ وہ جب بھی مستقبل کا ذکر کرتی، اس میں رکشہ ضرور آتا۔ "اختر کو رکشہ لے کر دوں گی، وہ کمائے گا، پھر رسولپورے میں مکان لے لوں گی، مکان کے پیسے تو ساتھ ساتھ جاتے رہیں گے، پھر سعدیہ کو بھی اپنے ہی پاس لے آؤں گی۔ اس بغیرت سے تو جان چھوٹے گی۔ وہاں تو ڈھنگ کا کھانے کو بھی نہیں ملتا"۔ لیکن یہ صرف باتیں نہ تھیں، وہ واقعی کچھ رقم بھی اکٹھی کر رہی تھی۔ صبح سے شام تک سات آٹھ گھروں کا کام تھا، پھر شادی غمی الگ، چنانچہ کئی سال بعد پتہ چلا کہ بی سگی نے نو ہزار روپیہ پیشگی ادا کرکے رکشہ خرید لیا ہے۔ اس دن اس کے گہرے رنگ پر بھی کچھ سرخی آ گئی تھی۔ اس نے بتایا کہ کل قیمت تو پینتیس ہزار تھی لیکن بقیہ پیسے اختر کما کما کر خود ماہ بماہ ادا کرتا رہے گا۔ اس دن وہ خود بازار سے جلیبیاں بھی لے کر آئی اور بڑے مان سے بتایا کہ وہ ہفتہ بھر آرام کے بعد کام پر آئے گی۔ طبیعت تو اس کی واقعی خراب تھی لیکن پہلے ایسی حالت میں بھی چھٹی کرنا اس کیلئے ممکن نہیں ہوتا تھا۔
تین چار دن ہی گزرے ہوں گے۔ ہم اسکول سے لوٹے تو دیکھا بی سگی واپس آ چکی ہے اور معمول سے زیادہ چپ چاپ اپنے کام میں مگن ہے۔ جب وہ کام نپٹا کر جا چکی تو اماں نے بتایا کہ کل رات اختر کا رکشہ چوری ہوگیا تھا۔
بی سگی کی زندگی پھر اسی دھرے پر آ گئی۔ اسے نماز وغیرہ سے کبھی کوئی غرض نہ تھی۔ گھر میں کبھی کبھار عورتوں کو بلا کر کوئی سپارہ یا معجزہ پڑھوایا جاتا تو بھی اس کی دلچسپی صرف کاموں تک رہتی۔ البتہ ایک واقعہ ایسا ہوا جس سے اس کے مذہب پر روشنی پڑتی ہے۔ ہوا یہ کہ ایک دفعہ جب وہ کافی دن نہ آئی تو اماں نے مجھے اس کی خبر لینے کو بھیجا۔ بے پلستر کی پکی دیواروں اور دو دروازوں پر مشتمل مکان کے ایک کمرے پر چھت تھی۔ ایک دو چارپائیاں اور صحن میں کچھ برتن وغیرہ پڑے تھے۔ دیواروں پر بڑی بڑی پوسٹر سائز تصویریں لگی تھیں۔ صاف گورا رنگ، سر پر سیاہ پگڑی اور یہ بڑی بڑی سیاہ آنکھیں۔ گھنی زلفیں شانوں تک آ رہی تھیں۔ اس چہرے پر عجیب پراسراریت تھی۔ اس پر مستزاد یہ کہ زیادہ تر تصویریں اسی آدمی کی تھیں۔ ایک تصویر میں اس نے ایک بچے کو اٹھا رکھا تھا۔ کچھ تصویریں ان بزرگ کی بھی تھیں جنہیں غوث پاک کہا جاتا ہے اور جو عام دکانوں پر نظر آتی ہیں۔ ان سے تو میں واقف تھا۔ دوسری تصویروں کے متعلق پوچھنا پڑا۔ "باؤ یہ امام حسین ہیں اور یہ بچہ علی اصغر"۔ مجھے بڑی حیرت ہوئی۔ پہلے کبھی ان کو یوں تصویر میں نہیں دیکھا تھا۔ یوں تو امام حسین اور غوث پاک کی تصویریں ایک ہی گھر میں ہونا ذرا عجیب سی بات ہے لیکن غور کرو تو بی سگی کیلئے یہ بالکل قدرتی بات تھی۔ وہ کسی بھی سہارے سے منہ نہیں موڑ سکتی تھی۔
وقت گزرتا رہا۔ میں پڑھنے کیلئے لاہور آ گیا۔ بی سگی بھی ناجانے کہاں چلی گئی۔ شاید اماں نے خود ہی ہٹا دیا ہو کہ اب حالات ایسے نہیں رہے تھے کہ اس کی معمولی تنخواہ بھی نکل پاتی۔ پھر بھی جب کوئی موقع ہوتا وہ نمودار ہو جاتی۔ دادی اماں کی وفات ہوئی تو وہ پہنچ گئی اور سارا کام سنبھال لیا۔ اس کے بہت سال بعد بہن کی شادی پر نظر آئی۔ پھر ایک دفعہ یونہی گھر گیا تو بی سگی سے ملاقات ہوگئی۔ ہمیشہ کی طرح وہ فرش پر ہی تھی لیکن تمام بال اب سفید ہو چکے تھے۔ چہرے پر ایک تو یوں سوجن جیسے غبارے میں ہوا بھر دی گئی ہو جس کے پیچھے اس کی آنکھیں بھی دب گئی تھیں، دوسرا پورے جسم پر برص کے داغ تھے۔ "بس باؤ، مچھلی کھا کر اوپر سے چائے پی تھی۔ اگلے دن صبح ہاتھوں پر خارش ہونے لگی۔ میں نے کھجایا تو یہ رنگ نکل آیا۔ سیانوں کا کہا ماننے میں ہی بھلائی ہے باؤ"۔
مجھے یقین کہاں آتا، چونکہ خود میڈیکل کی تعلیم حاصل کر رہا تھا اس لیے جانتا تھا کہ یہ صرف سادہ لوح لوگوں کے واہمے ہیں۔ پھر بھی اس دن کے بعد سے میں نے مچھلی کے ساتھ چائے پینا چھوڑ دیا۔ دوستوں نے کئی دفعہ دلائل کے ساتھ سمجھایا کہ سائنسی طور پر یہ بے بنیاد بات ہے لیکن ہر دفعہ بی سگی کی بات میرے سامنے رکاوٹ بن جاتی ہے، "سیانوں کا کہا ماننے میں ہی بھلائی ہے باؤ"۔