Sunday, 30 March 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Ashfaq Inayat Kahlon
  4. Schengen Visa Fraud In Dubai

Schengen Visa Fraud In Dubai

شنگن ویزہ فراڈ ان دبئی

مہر ندیم نے بات شروع کی "ہمارے پاس شنگن زون کے ورک ویزے ہیں اور ہم نے بہت افراد کو بھیجا ہے، ٹوٹل بیس ہزار درہم خرچہ، پہلے پاسپورٹ کاپی، ایمریٹس آئی ڈی کارڈ کاپی اور ایمریٹس ڈرائیونگ لائسنس اگر ہو اور تین ہزار درہم ادا کرکے کیس پراسیس شروع۔ تین مہینے میں ورک انویٹیشن آنے پر پانچ ہزار درہم ادائگی، اس کے بعد ورک ویزہ آنے پر دو ہزار درہم ادائگی، آخر میں ایمبیسی اپائنٹمنٹ و انٹرویو، یہ انٹرویو بس خانہ پری سمجھو، سٹیکر ویزہ لگنے کے بعد باقی پیمنٹ ادا کرنا ہوگی"۔

میں نے اسے پوچھا "کیا اس کا کوئی تحریری معاہدہ وغیرہ بھی ہوگا؟"، وہ خوش دلی سے بولا "جی، جی، بالکل ہوگا، بھلا معاہدے کے بغیر بھی کوئی کام ہوتا ہے"، میں اپنی معلومات کیلئے پوچھا "کیا آپکی کمپنی کا آفس یا بزنس کارڈ بھی ہے؟"، مچھلی ہاتھ میں آتی دیکھ کر اس نے جھٹ اپنی قمیض کی اوپری جیب سے بزنس کارڈ نکال کر میرے سامنے رکھا، میں نے کارڈ اٹھا کر ایک نظر اس پر ڈالی"۔۔ ڈاکومنٹس کلیئرنگ آفس، بزنس بے ایریا، دبئی"، ساری بات مجھے سمجھ آ چکی تھی۔

ایسے ڈاکومنٹس کلیئرنگ آفس ورک پرمٹ فراہم کرنے کیلئے کسٹمر کے ساتھ تحریری معاہدہ لکھتے ہیں، کسٹمر تحریری معاہدے کا سن کر اپنے تئیں مطمئن ہو جاتا ہے لیکن بقول چوہدری شجاعت "وچلی گل" ہر بات کے اندر والی بات یہ ہے کہ یہ تحریری معاہدہ برائے نام ہوتا ہے جو اس متعلقہ ڈاکومنٹس کلیئرنس آفس کو قانونی کاروائی سے تحفظ دیتا ہے۔ معاہدے کی کسی شق میں کسٹمر کا کوئی تحفظ نہیں ہوتا، کسٹمر بآسانی جتنا دے سکتا ہے، وہ وصول کرکے اسے حیلے بہانے سے چکر لگوائے جاتے ہیں، مثال کے طور پر قابلیت مطابق مناسب ورک پرمٹ کی تلاش جاری ہے، قابلیت کم ہے وغیرہ وغیرہ، بالآخر تنگ ہو کر کسٹمر مزید ادائی سے انکار کر دیتا ہے۔

ایک قابل ذکر چیز کہ معاہدے میں بالترتیب پیمنٹ کا شیڈول لکھا جاتا ہے، معاہدہ سائن کرتے وقت اتنی پیمنٹ، پھر اتنے وفقے کے بعد اتنی پیمنٹ اور ہوش اڑا دینے والی سب سے خطرناک شق کہ اگر کسٹمر مقررہ مدت تک ادائی نہ کرے تو معاہدہ فی الفور کالعدم ہو جاتا ہے اور معاہدے کی ایک شق کی رو سے اسے کسی قانونی عدالت میں چیلنج نہیں کیا جا سکتا۔ کسٹمر کو رجھانے کیلئے زبانی کلامی نوالہ پھینکا جاتا ہے کہ آپ پہلی قسط ادا کر یں، دوسری قسط ورک پرمٹ آنے کے بعد یا ویزہ سٹامپ ہونے کے بعد واجب الادا ہوگی، کسٹمر کچھ مہینے چکر لگانے بعد مایوس ہو کر اپنی رقم واپسی کا تقاضہ اور پولیس کی دھمکی دیتا ہے تب اسے بتایا جاتا ہے کہ معاہدے کی رُو سے آپ نے دوسری قسط ادا نہیں کی لہذا معاہدہ یکطرفہ طور پر ختم ہو چکا ہے اور اماراتی عدالت بھی اس شق کو مانتی ہے، بیچارے کئی افراد رُل جاتے ہیں۔

میں پانی کا گلاس اٹھا کر ایک گھونٹ پیا اور واپس میز پر رکھ دیا "آپ کا پروپوزل مناسب نہیں ہے، میرے بہت سے جاننے والے شنگن زون کا ورک پرمٹ پسند کریں گے لیکن آپ کی شرائط بہت سخت ہیں "، وہ خوشامدانہ بولا "یقین کریں صرف سعید بھائی کی خاطر میں اپنا کمیشن چھوڑ رہا ہوں "، میں نوالہ نگل کر پوچھا "عام طور پر ایک کیس میں آپ کا کمیشن کتنا ہوتا ہے؟"، وہ آگے جھک کر بولا "چھوڑو جی، آپ سعید بھائی کے دوست ہیں، آپ سے کمیشن کی بات کرنا میرے لئے گناہ ہوگا، آپ ہمیں کسٹمر فراہم کریں، ہم آپ کو کمیشن دیں گے"، اب پوری کہانی میری سمجھ میں آ چکی تھی۔

میں کھانے سے ہاتھ روکا تو مہر ندیم بولا "آپ نے سبزی کیوں منگوائی؟ کچھ مٹن وغیرہ منگواتا ہوں" اور ویٹر کو اشارہ کیا، میں اسے منع کیا "سفر کے دوران اتنا ہی کھاتا ہوں "، وہ مزید خوشامدی ہوا "آپ آج رات یہاں رکیں، آپ کو اصل دبئی دکھاتے ہیں "، میں مسکرایا "میری باکو کی فلائٹ ہے لیکن مہر سعید کی دعوت پر آنا پڑا، میں جب بھی دبئی آتا ہوں، مہر سعید سے ضرور ملتا ہوں، ایک مرتبہ ایک فراڈیئے نے مجھے لوٹ لیا تھا تب مہر سعید نے میری مدد کی تھی"، مہر ندیم خوش ہوا، یک بیک ایک بات میرے ذہن میں آئی اور پوچھا " آپ یہاں کیا کام کرتے ہو؟"

اس نے جو بتایا وہ مجھے غصہ چڑھانے کیلئے کافی تھا، کچھ لمحے میں خود پر کنٹرول کرتا رہا، میرے چہرے کے اتار چڑھاؤ دیکھ کر اسے اندازہ ہوگیا تھا، ماحول کو تبدیل کرنے کیلئے بولا "آج رات آپ کی خدمت کرکے بہت خوشی ہوگی"، میں نے ایک ہاتھ سے میز پر رکھا پانی کا گلاس اٹھایا اور دوسرے ہاتھ سے اسکی قمیض کی سامنے والی جیب میں گلاس سے چند قطرے پانی انڈیل دیا، یہ سراسر آداب محفل کی خلاف ورزی تھی جو میرے جیسے بندے کیلئے بہت معیوب بات تھی، مجھے افسوس ہوا لیکن جس طرز کا اس کا حلیہ، کپڑے، لب و لہجہ تھا، مجھے پہلی نظر میں ہی شک ہوگیا تھا کہ دال میں کالا ہے، ایسے کئی فراڈ میں پہلے بھی دبئی میں دیکھ اور سن چکا تھا، سوشل میڈیا پر بھی ایسے واقعات کی بھرمار نظر آتی ہے لیکن اکثریت بدنامی اور عزت کے ڈر سے خاموش ہو جاتے ہیں۔

مہر ندیم نے ہڑبڑا کر میری طرف دیکھا اور پوچھا "پائن یہ کیا بدتمیزی ہے؟"، میں نظرانداز کرتے بولا "یقین کر، اگر تم مہر سعید کے ساتھ نہ آئے ہوتے تو اب تک تم کو اٹھا کر باہر پھینک چکا ہوتا"، وہ میسنا ہو کر بولا "کیا میری کوئی بات آپ کو بری لگی؟"، میں ہنسا اور اسکی معلومات میں اضافہ کرنے کیلئے بولا "یہ پروپوزل جو تم لیکر آئے ہو، یہ طریقہ واردات بہت پرانا ہوچکا ہے"، میرا رویہ دیکھ کر مہر سعید نے دخل اندازی کی "یار ٹھنڈا ہو، یہ کون سا خود ویزے بیچتا ہے، یہ تو جہاں کام کرتا ہے، وہ لوگ ویزہ بزنس کرتے ہیں"۔

میں مہر سعید کو مخاطب کیا "اسے ساتھ لانے سے پہلے پوچھ لیتے کہ یہ کون سا بزنس پروپوزل پیش کرنا چاہتا ہے"، مہر سعید قسم کھا کر بولا "اگر اس نے مجھے بتایا ہوتا تو میں اسے منع کر دیتا کہ اشفاق بھائی کے سامنے ایسی بات مت کرنا، میں اسے ایک دوست کی سعودیہ سے آمد کا بتایا تو یہ بھی ساتھ آ گیا"، اس کی صفائی کو مان کر میں بات کو آگے بڑھایا "میری فلائٹ کا وقت ہونے والا ہے ورنہ اس موقع پر پرزما ٹاور کے ویسٹرن ڈاکومنٹس کلیئرنس سروسز والی مس کشف فرام لاہور کا قصہ اسے ضرور سناتا، جس نے یوکے ورک پرمٹ کے نام پر میرے ایک دوست کے ساتھ فراڈ کیا تھا، تمام تر معاہدہ ایسے ہی تھا، جیسے تم بتا رہے ہو، میں سعودیہ سے اس کیس کا پیچھا کرتا دبئی آیا تھا اور بہت ہنگامہ مچا تھا، تمام اصل ثبوت میرے پاس موجود ہیں اور مہر سعید چشم دید گواہ ہے"۔

مہر ندیم نے حیران ہو کر پوچھا "وہ کیا قصہ ہے؟"، مہر سعید اس کا ہاتھ دباتے بولا "وہ قصہ میں تجھے بعد میں بتاؤں گا"، کھانا ختم کرکے میں ان سے اجازت لی، باہر نکل کر ٹیکسی روکی، اس مرتبہ پاکستانی مرد ڈرائیور تھا، اسے سلام کرکے ایئرپورٹ جانے کا پوچھا، اس نے خوش دلی سے سوار ہونے کا اشارہ کیا۔

Check Also

Do Neem Mulk e Khudadad (2)

By Shaheen Kamal