Jamhoor Aur Janwaron Ka Haq e Intikhab
جمہور اور جانوروں کا حق انتخاب

جانوروں نے ایسا کیا کمال کیا یا ھم سے خطا کہ جانوروں کو ووٹ کے حق کا انوکھا مطالبہ سامنے آیا اس عنوان بارے قارئین کا ذہنی اضطراب بجا اور مضطرب خیالات کی تسکین راقم پر لازم۔ ماہرین حیاتیات کے مطابق جانور بھی ذہین ہوتے ہیں مگر خوراک کے حصول اور جان کے تحفظ کے معاملہ میں۔ مطلب محض ذہانت ہی انسان کو جانوروں سے ممتاز کرنے کو کافی نہیں۔ یعنی اپنی برتری و فوقیت ثابت کرنے کے لیے انسان کو کچھ اور بھی درکار۔ مدبرین مفکرین اور حکما کے نزدیک خیر و شر کا شعور اسے جانداروں کی صف میں ممتاز کرتا ہے۔ آپ اگر انسان قدرت کے عطیہ کردہ اس وصف کو بروئے کار نہ لا سکے تو صف بندی کی تبدیلی لازم۔
اکثریت کے اصول پر ہی حق انتخاب ہے تو پھر جنگل کے جانور اس سے محروم کیوں؟ بلکہ سب سے زیادہ حق تلفی تو گیدڑوں، جنگلی بھینسوں، بندروں، بگڑبلوں کی جو اکثریت میں ہونے کے باوجود اقتدار سے محروم شاید انہیں شعور نہیں یا انہوں نے جمہوریت کی کرامات دیکھ کر درختوں کے جنگل کو ویران ہونے سے بچانے کے لیے صدیوں سے چپ ساتھ رکھی ہے بہرحال اپوزیشن کی طرف سے قرارداد آنی چاہیے کیا خںر کہ اراکین کی مراعات کی طرح یہ قرارداد بھی اتفاق رائے اور بھاری اکثریت سے منظور ہو جائے
جمہوریت اک طرز حکومت ہے کہ جس میں
بندوں کو گنا کرتے ہیں تولا نہیں کرتے
سبھی جانتے ہیں کہ موجودہ اور رائج جمہوریت کا اصول تعداد پر ہے معیار پر نہیں قرآن کا فرمان واضح کہ "علم والے اور جاہل برابر نہیں" جبکہ اسلام کا تصور سیاست ریاست و حکومت اس سے یکسر مختلف۔ اکثریت کے اصول پر حق حکمرانی نے ہی تو جانوروں کو بھی ووٹ کے حق کے مطالبہ پر مائل کیا کہ قیادت کا انتخاب اگر علم، فہم و فراست اور دانش سے خالی ہو تو پھر باقی انسان اور جانور میں فرق محض شکل و صورت کا ہی رہ جاتا ہے۔ فضیلت علم و معرفت نے ہی تو اسے مسجود ملائک اور اشرف المخلوقات بنایا تھا مگر گنتی و مقبولیت کے چکر میں ہم از خود ہی اس شرف سے دستبردار ہو کر بیٹھ رہے تو اس پر عقلوں کا ماتم تو بنتا ہے مگر یہ فریضہ صرف راقم کے ذمہ ہی تو نہیں اہل فکر و دانش کو اس پر تحریک چلانا چاہیے۔
المیہ یہ بھی کہ ہمارے ہاں ووٹ کا حق اس جمہور کو کہ جسے گلی نالی سڑک اور معمولی انکم سپورٹ بھیک کی صورت میں ملتی ہے۔ ملازمت پیشہ کو وفاداری پر ترقی تو کسی کو نوکری۔ اسی لیے تو محکمہ جات کےملازمین کی بڑی تعداد سرکار کی بجائے اپنے سیاسی آقاؤں کی وفادار جو میرٹ کی پامالی اور رشوت ستانی پہ منتج۔ اب ایسے حرماں نصیبوں میں جرات انتخاب کہاں کہ وہ اجلے ستھرے پاک دامن اعلی اوصاف و اقدار اور کردار کے حامل کو منتخب کر سکیں ان کی خودی اور ضمیر تو پہلے ہی گروی مگر حیرت کہ ہر بار گنتی غلط ملط ہو جاتی ہے اور شفاف انتخاب کا مطالبہ جوں کا توں۔
کسی نے کہا تھا نا کہ جمہوریت بہترین انتقام ہے اور صد شکر کہ سیاست دان کم از کم یہ عہد تو خوب نبھا رہے ہیں۔ پھر اقبال کے اس شعر نے قلم آرائی پر مجبور کیا اقبال کلیتا نہ تو مغربی جمہوریت کے قائل تھے اور نہ ملوکیت انکی نظر میں ججتی تھی۔ فرنگی جمہوریت کو وہ ابلیسی نظام کا پرتو ہی خیال کرتے تھے۔ انکے نزدیک ایسی جمہوریت دراصل ابلیس کے عالمگیر نظام سیاست کا حصہ مگر بدقسمتی سے ہمارے کوہتاہ نظر حکمران پانی سے مکھن نکالنے میں کوشاں محض خوش کن نعروں اور دعووں سے۔ کبھی سوشل ازم کا نعرہ تو کسی نے ایشین ٹائیگر کا سپنا دکھایا تو پھر تبدیلی کے علمبردار آ گئے۔
تیری حریف ہے یارب سیاست افرنگ
مگر ہیں اس کے پجاری فقط امیر و رئیس
بنایا ایک ہی ابلیس آگ سے تو نے
بنائے خاک سے اس نے دو صد ہزار ابلیس
فرنگی سیاست کے کمالات کہ اس نظام کی کوکھ سے ہزاروں سیاسی و معاشی ابلیسوں نے جنم لیا جو ہر خطہ میں مختلف جماعتوں اور ناموں سے مصروف خدمت۔ ہمیں احساس ہی نہیں کہ ھم قرانی فیصلہ کی صریحا خلاف ورزی کے مرتکب ہو رہے ہیں کیوں کہ علم والے اور جاہل ہماری نظر میں برابر۔ بظاہر تعلیم یافتہ مگر نادان اور سادہ لوح جبکہ ناخواندہ اور جاہلوں کی تعداد اس سے سوا ان سب کے مطابق جہلا کا ساتھ جتنا زیادہ جمہوریت اتنی مضبوط۔
انہیں یہ بھی معلوم کہ یہاں حکمرانوں کے چہرے بدلتے ہیں کرتوت نہیں۔ مگر اس کے ذمہ دار فقط ارباب سیاست ہی نہیں ریاست اور عوام کا حصہ بھی اس نظام کے قیام میں شامل۔ تین چار دہائیاں قبل نظام تبدیلی کی آواز اٹھی تھی مگر عوام نے پذیرائی بخشی اور نہ نظام نے۔ سو ڈاکٹر قادری کی پاکستان عوامی تحریک کا یہ نعرہ اب کتابوں اور خطابوں کی حد تک ہی محدود ہو کر رہ گیا۔ حکیم الامت کو جانتے بوجھتے ہم نے ایسے نظر انداز کر رکھا ہے جیسے عملی زندگیوں سے اسلام۔ حالانکہ انہوں نےبروقت اس کی نشاندہی بھی کر دی
ہے وہی ساز کہن مغرب کا جمہوری نظام
جس کے پردوں میں نہیں غیر از نوائے قیصری
ھم نے خود شاہی کو پہنایا ہے جمہوری نظام
جب زرا آدم ہوا ہے خود شناس و خود نگر
تو نے کیا دیکھا نہیں مغرب کا جمہوری نظام
چہرہ روشن اندرون چنگیز سے تاریک تر
گزشتہ سات آٹھ دہائیوں سے مغربی جمہوریت نے نیٹو کی شکل میں امت مسلمہ ہر جو قیامت ڈھا رکھی ہے اس سے بھی بیداری پیدا ہوئی اور نہ مٹھی بھر یہودی قابو آئے۔ آج اگر یورپ اور امریکہ ناجائز اسرائیلی ریاست کی غیر مشروط مدد سے دست کش ہو جائیں تو اسے مظالم کی جرات کہاں مگر ایسا مطالبہ ہی حرام۔ خوش کن نعروں اور وعدوں نے عوام کو سیاسی و معاشی غلامی میں ایسا جکڑ رکھا ہے کہ اہل پاکستان ہی نہیں مسلم دنیا بد تہذیبی فحاشی اور مادر پدر ازادی کی طرف مائل۔ اس نظام نے ہماری روحانی نظریاتی اور اساسی بنیادیں ایسی ہلا کر رکھ دیں کہ اب ابلیس کے کھلم کھلا چیلنج کے اگے کسی کو دم مارنے کی جرات نہیں۔
ہے مرے دست تصرف میں جہان رنگ و بو
کیا زمیں کیا مہر و ماہ کیا آسمان تو بہ تو
دیکھ لیں گے اپنی آنکھوں سے تماشا شرق وغرب
میں نے جب گرما دیا اقوام یورپ کا لہو
کیا امامان سیاست کیا کلیسا کے شیوخ
سب کو دیوانہ بنا سکتی ہے میری ایک ہو
کارگاہ شیشہ جو ناداں سمجھتا ہے اسے
توڑ کر دیکھے تو اس تہذیب کے جام و سبو
معذرت کے ساتھ کہ راہنما مذہبی ہوں یا سیاسی سبھی نے ہوش و خرد اسی کے سپرد کر رکھے ہیں۔ اسی لیے وہ اس تہذیب کے جام و سبو توڑنے پر امادہ نہیں۔ ان حالات میں ایک تو کیا پچاس انتخابات بھی ملک کی تقدیر بدل سکتے ہیں اور نہ عوام کی اور نہ اس نظام کے ہوتے ہوئے ملت واحدہ کا وجود ممکن۔ اللہ کا فرمان حق ہے کہ "بے شک علم والے اور جاہل برابر نہیں ہو سکتے" اب اگر ھم انہیں ایک صف میں لا کھڑا کرنے پر بضد ہیں تو پھر مفلسی ناانصافی جہالت لاقانونیت تفرقہ و انتشار کا رونا کیسا۔!
لا کہیں سے ڈھونڈ کر اسلاف کا قلب و نظر
ربط و ضبط ملت بیضا ہے مشرق کی نجات