Saturday, 23 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Maaz Bin Mahmood
  4. Sakoon (1)

Sakoon (1)

سکون (حصہ اوّل): امید

سکون کی تلاش اگر آسان کام نہیں تو اتنا مشکل بھی نہیں۔ اولین وجہ یہ کہ اس سفر میں سب سے بڑی رکاوٹ انسان کی اپنی ذات ہوا کرتی ہے، یعنی آپ نے خود کو فتح کرنا ہے۔ یہ کام مشکل یوں ہے کہ اس بارے میں آج سے پہلے شاید آپ نے سوچا نہ ہو۔ آسان ایسے ہے کہ خود کو پہچاننا سب سے آسان کام ہے۔ بس انا وغیرہ ذرا ایک جانب رکھنی پڑے گی، امید پر کمپرومائز کرنا پڑے گا۔ خود احتسابی دوسروں کے لیے سود مند ہو نہ ہو، خود انسان کے اپنے لیے نہایت ہی فائدہ مند ہوتی ہے۔

سکون کسی بیرونی عامل میں ڈھونڈنا میرے نزدیک فقط خود کو دھوکہ دینے کے مترادف ہے۔ یہ اندرونی کیفیت ہے اور اس کی تلاش بھی اندرونی عوامل ہی میں پنہاں ہے۔ بے سکونی جن وجوہات کی بنیاد پر عمل پذیر ہوتی ہے ان میں سرفہرست غصہ ہے۔ دکھ، پریشانی، ذہنی دباؤ بھی اپنی جگہ لیکن آپ پچھلے تین روز کے روز مرہ پر نگاہ ڈالیں تو سب سے زیادہ وقوع پذیر ہونے والا واقعہ غصہ ہی نظر آئے گا۔

غصہ کیوں آتا ہے؟میرے خیال میں غصہ اس وقت آتا ہے جب معاملات کے نتائج آپ کی مرضی کے مطابق نہ آئیں۔ دوسرے الفاظ میں غصہ تب آتا ہے جب آپ کی امید پوری نہ ہو۔ اب معاملات دو طرح کے ہو سکتے ہیں۔ ایک وہ جن میں آپ کی ذات ملوث نہ ہو اور دوسری وہ جس میں آپ براہ راست فریق ہوں۔ پہلے ان واقعات یا معاملات پر غور کرتے ہیں جن میں آپ کی ذات ملوث ہو، مگر اس سے پہلے ایک ذاتی عادت جو میں نے سنہ 2000 کے بعد کسی وقت اپنائی اور جس سے میں آج بھی خوب مستفید ہوتا ہوں۔ اس کا تعلق خود احتسابی سے کیسے ہے یہ میں آگے چل کر بتاتا ہوں لیکن فی الحال شروعات کرتے ہیں۔

میں اکیڈمک اعتبار سے ایک برلیینٹ سٹوڈنٹ تھا۔ یہ بات خود ستائش یا تعریف نہیں، میرے اکیڈمک ریکارڈ کی بنیاد پر ایک حقیقت ہے۔ پہلی کلاس میں مجھے یاد پڑتا ہے سالانہ امتحان میں میری چھٹی پوزیشن آئی۔ پہلی دو پوزیشن ہولڈرز آج بھی میری فرینڈ لسٹ کا جگمگاتا ستارہ ہیں تاہم فی الحال اس بات کو جانے دیتے ہیں۔ چھٹی پوزیشن کوئی خاص اچھی نہیں تو کوئی بہت بری بھی نہیں تھی۔ یہاں سے مجھے تھوڑی بہت خود اعتمادی ملی جو اچھی بات تھی۔ دوسری جماعت کے سالانہ امتحان میں اسی خود اعتمادی کے باعث میری دوسری پوزیشن آئی۔

بہترین۔ اب میری خود سے امید بندھ گئی۔ کانفیڈینس اور اوور کانفیڈینس میں فرق بس اس امید ہی کا ہوتا ہے جو کسی نہ کسی طرح آپ کے ہائینڈ سائٹ میں بس جاتی ہے۔ تیسری جماعت کے سالانہ امتحان میں اسی امید اور خود اعتمادی کے ساتھ قدم رکھا اور پوزیشن۔ مجھے یاد بھی نہیں کیا آئی۔ مطلب؟ کم از کم پہلی دس میں نہ تھی۔ امید ٹوٹ گئی۔ کانفیڈینس ہل کر رہ گیا۔ غالباً یہ آخری بار تھی جب میں اوور کانفیڈینس کے ہاتھوں مارا گیا تاہم اس کے بعد کسی نہ کسی طرح لاشعور میں کچھ سما گیا جسے میں تب بیان کرنے سے قاصر تھا۔ وقت کا پہیہ چلتا رہا۔

1993میں تیسری جماعت سے ہوتے ہوتے میں 2001ایف ایس سی پارٹ ون میں پہنچ گیا۔ میٹرک میرا بہترین ہوا تھا۔ من چاہے کالج میں داخلہ ملا لیکن تیسری جماعت کا سبق جو تب میں بیان کرنے سے قاصر تھا اب میں اسے سٹریٹیجی یا حکمت عملی بنا کر خود پر نافذ کرنے پہ قادر تھا۔ میں نے بس اتنا کرنا تھا کہ ہر امتحان سے پہلے خود کو باور کروانا تھا کہ میں نے اپنی بہترین کوشش کرنی ہے۔ اور پرچہ دے کر باہر آتے ہوئے خود کو یہ سمجھانا تھا کہ نمبر تمہارے 100 میں سے 33 ہی آنے ہیں، یعنی بس پاسنگ مارکس۔

یہاں بیرونی عوامل میرے والدین، پئیرز، دوستوں اور رشتہ داروں کی امید اور واہ واہ ہوتی تھی کہ تم لائق بندے ہو محنت کرو ٹاپ کرو گے وغیرہ وغیرہ لیکن ان سب کو ریزسٹ کر کے اپنی امید کا بار میں خود سیٹ کرتا تھا کیونکہ بعد میں ان سب کو افسوس ہو یا خوشی، سب سے زیادہ میری ذات کو فرق پہنچنا ہے اگر میں اپنی امید پر پورا نہ اتر پایا۔ حل؟ اپنی امید کا بینچ مارک نیچے رکھ لیا۔ اب ہوتا یہ تھا کہ پرچہ میں بہترین کر کے آتا امید مجھے 33 کی ہوتی۔ نمبر آگئے 96۔ آپ سوچ سکتے ہیں خوشی کا عالم کیا ہوتا ہوگا؟ اور کسی پرچے میں نمبر کم آگئے تو نو پرابلم۔ مجھے امید جو نہیں تھی۔ اور اگر میری امید کا لیول اونچا ہوتا تو بھلا کیا ہوتا؟

دکھ، افسوس، غصہ سو ایسے معاملات جن میں آپ کی ذات براہ راست ملوث ہو، ان پر ناامید ہوکر چلنا میرے خیال سے بہتر رہتا ہے۔ اس کا ایک فائدہ اور بھی ہوتا ہے۔ بیشک انسان کو اگلے لمحے کا نہیں معلوم لیکن۔"سامان سو برس کا ہے پل کی خبر نہیں "ویسے ہی، منصوبہ بندی انسان کا خاصہ ہے۔ جب آپ امید کا بار نیچے سیٹ کریں گے تو آپ کا ذہن خود بخود پلین اے، بی، سی، ڈی، ای تک جاتا ہے۔ امید آپ پلین ای پر لگاتے ہیں، کام پلین اے یا بی پر ہوجاتا ہے۔ نتیجہ؟ خوشی یعنی سکون۔

پیٹرول کی قیمت، گیس کی دستیابی، ٹیکس کی شرح، تنخواہ میں صفر اضافہ وغیرہ یہ سب وہ معاملات ہیں جن کا اثر آپ پر براہ راست ہوا کرتا ہے۔ حل کیا ہے؟ شاید کچھ لوگوں کو غلط لگے کیونکہ ہمارا معاشرہ، مذہب، بزرگ یہی بتاتے ہیں کہ امید کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑنا۔ میں البتہ اپنے دلائل اور تجربات آپ کے سامنے رکھ رہا ہوں اور مجھے آپ سے بھی کوئی امید نہیں کہ آپ میری بات کو تسلیم کریں گے۔ آپ کی مرضی، کرتے ہیں کریں نہیں کرنی نہ کریں۔

یہاں سے سکون کی ایک اور شاخ بھی نکلتی ہے جسے خود غرضی کہہ سکتے ہیں یا خود پسندی، جو بھی کہہ لیں لیکن اس پر بات پھر کبھی۔ ابھی بات ہو رہی تھی مہنگائی کی۔ کیا آپ مہنگائی پر قابو پانے کا اختیار رکھتے ہیں؟ اگر جواب ہاں میں ہے تو مبارک ہو آپ پلین اے پر عمل کرنے کے اہل ہیں۔ اگر نہیں تو پلین بی سی ڈی سوچیں۔ وہ بھی نہیں تو یہ یاد رکھیے کہ جس عمل کے وقوع پذیر ہونے پر آپ کا اختیار نہیں اس پر دل جلانے سے آپ کا اپنا سکون تباہ و برباد ہوگا۔ جب پیٹرول پانچ روپے مہنگا خریدنا ہی ہے تو کڑھنا کیسا؟

If you cant resist a rape,start enjoying it.

معاملات کی دوسری قسم وہ ہوتی ہے جن میں آپ براہ راست ملوث نہیں ہوتے۔ مثلاً امریکہ نے فلاں ملک پر حملہ کر دیا۔ یہ خبر بری ہو سکتی ہے۔ ممکن ہے آپ کو افسوس ہو لیکن یہ افسوس وقتی ہونا چاہیے۔ یاد رکھیے، آپ کی ذات سپریم ہے۔ آپ نے اکثر جہاز میں دوران سفر پڑھا ہوگا کہ دوسروں کی مدد سے پہلے اپنی مدد کیجئے۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ آپ اپنی مدد کریں گے تبھی دوسروں کی مدد کے قابل رہیں گے۔ سو پہلے اپنا سکون حاصل کیجیے تاکہ آپ ایک systematic طریقے سے دوسروں کی مدد کر سکیں۔ بصورت دیگر آپ بھی چڑچڑے رہ کر ایک عدد بھنوٹ معاشرے کی جانب کنٹریبیوٹ کریں گے۔

یہاں کام کی بات یہ ہے کہ ایک بار آپ ان معاملات میں جن کا اثر آپ پر براہ راست پڑتا ہے، سے خود کو زہر آلود ہونے سے بچا گئے تو ان مسائل کو ڈیل کرنا کوئی خاص بڑی بات نہیں۔ انسان پروگرام ہی every man for himself کی بنیاد پر ہوا ہے۔ معاشرے کا ارتقاء پڑھیں تو اس کا آغاز بھی باہمی فائدے کے لیے ایک دوسرے کے ساتھ مل جل کر رہنے سے ہوا تھا تاکہ بیرونی نسبتا زیادہ طاقت ور قوت کو شکست دی جائے۔ لہذا ایسے بیرونی معاملات جن پر آپ اثرانداز نہ ہو سکیں ان کے برپا ہونے پر خود کو یقین دلائیں کہ آپ اس معاملے میں کچھ کرنے کے قابل نہیں۔ ہوتے تو کچھ نہ کچھ ضرور کر لیتے۔

دوسرا سوال جو یہاں ہونا چاہئے وہ یہ بھی ہے کہ آپ نے امریکہ سے امید ہی کیوں رکھی کہ وہ کسی ملک پر حملہ نہیں کرے گا؟ اس کا جواب ڈھونڈ کر اپنی آئیندہ کی امیدوں پر قابو پائیے ان کا بینچ مارک نیچے لائیے تاکہ بعد ازاں امیدیں ٹوٹنے پر آپ کو غصہ کم سے کم آئے۔آگے چل کر ہم خود پسندی، خود احتسابی، خود کو تسلی دینے وغیرہ سمیت دیگر معاملات پر بھی بات کرنے کی کوشش کریں گے بشرطیکہ "سنجیدہ تحاریر" پر باچیز قائم رہا۔

Check Also

Jaane Wale Yahan Ke Thay Hi Nahi

By Syed Mehdi Bukhari