Munsif, Musanif Aur Shalwar
منصف، مصنف اور شلوار
ریاستِ پاک پر اللہ پاک کا خاص کرم ہے۔ خداوند پاک ہمیں عدل و انصاف کے معاملے میں خصوصی ہیروں سے نوازتا رہا ہے۔ مملکتیں انصاف کاالحمدللہ بول بالا ہیں۔ اس قدر بالا کہ نا انصافی جیسے ماضی کی داستانوں تک محدود ہو کر رہی گئی ہوں۔ خداوندباری تعالیٰ نے ہم پریہ احسان بھی کیا کہ ہمیں ہمارا من پسند، من پیارا ،راج دلارا یوسف ثانی حکمران بھی عطا کر ڈالا۔ انصاف اور حاکمِ حال کا ذکر یوں بھی ایک ہی سانس میں فرض ہے ،کہ حکمران کی سیاسی جماعت کا نام پاکستان تحریک انصاف ہے۔
ذاتی حیثیت میں مجھ سے کوئی پوچھے تو میں حاکم وقت کی جماعت کو سیاسی کہنے سے گریز کروں گا ،کیونکہ سیاست تو میرایوسف ثانی کرتا ہی نہیں۔ وہ تو کہیں اور سے ہوتی ہے۔ یعنی حاکم تو بس مملکت میں انصاف کے نفاذ کا ضامن ہے۔ سیاست دیگراکابرین و اسلاف کے ہاتھ میں رہتی ہے۔ یوں حاکم وقت مثل یوسف ثانی کا کام انصاف، انصاف اور فقط انصاف کی فراوانی ہے۔ الحمدللہ مجھے فخر ہے، کہ میں دور حاضر میں پاکستانی پاسپورٹ کا حامل ہوں۔ ہاں ملک سے ذرا دور ضرور ہوں، لیکن گمان غالب ہے، کہ شاید مملکت میں ہوتا تو پاسپورٹ کے حامل ہونے کے ساتھ ساتھ ریاستی انصاف سے حاملہ بھی ہوجاتا۔ خیر یہ نصیب نصیب کی بات ہے۔ فی الوقت میرا نصیب کوئی اتنا متاثر کن نہیں، نہ متاثرہ ہے۔
بات ہو رہی تھی انصاف کی۔ انصاف کا جب جب ذکر ہوگا ،منصف کا قصہ چھیڑا جائے گا۔ ریکارڈ کی درستگی کے لیے بتلاتا چلوں ،کہ منصف اور مصنف میں دو حروف کا ہیر پھیر ان دونوں کو ایک دوسرے سے جدا اور ممتاز کرتا ہے۔ چونکہ یہ دونوں الفاظ الگ ہیں ،لہذا ان کا اطلاق بھی دو الگ افراد پر ہوتا ہے۔ مغالطہ عام ہے کہ مصنف ہی مقدمے کے فیصلے میں کاتب کا کردار ادا کرتا ہے۔ یہ غلطالعام تصور ہے۔ منصف کے انصاف کا مصنف تو دراصل کوئی اور ہوتا ہے۔ انصاف کی جو فراوانی مملکت میں ایک ڈیڑھ عشرے سےرائج ہے، کم از کم اسے مدنظر رکھتے ہوئے تو یہی معلوم ہوتا ہے۔ بقول شاعر
"یہ جو راستے ہیں جدا جدا، یہ معاملہ کوئی اور ہے"
انصاف، منصف اور مصنف کے درمیان مشترکہ خصائل ڈھونڈنا باریک نکتہ ہے۔ مثلاً منصف کی بابت کہا جاتا ہے ،کہ منصف خود نہیں اس کے فیصلے بولتے ہیں۔ میں اس سے کلی اتفاق کرتا ہوں۔ منصف کا منہ یقیناً کسی ایسی ہئیت سے گزر رہا ہو گا ،جس میں وہ بولنے سے قاصر ہوگا۔ مثلاً عین ممکن ہے کسی عذر کے باعث منصف کا منہ بھرا ہو۔ ایسے میں منصف خود نہیں اس کافیصلہ بولے گا۔ دوسرے الفاظ میں منصف کا فیصلہ اس قدر دبنگ ہوتا ہے ،کہ اسے بولنے کی ضرورت نہیں رہتی۔ آپ ایک بار پھر سوچ رہے ہوں گے ،کہ انصاف اور منصف کا مصنف سے کیا تعلق؟ جناب، عرض ہے ،کہ منصف کے فیصلے لکھنے والا عام حالات میں کاتب ہوسکتا ہے، تاہم ریاست پاکستان کے عظیم الشان انصاف کو سامنے رکھتے ہوئے یقین ہوجاتا ہے کہ فیصلہ لکھنے والا فقط کاتب نہیں، ایک ذہین مصنف ہے۔
قارئین کرام، مضمون کے آخر میں مجھے یہ اعتراف و اقرار کرنے میں رتی برابر تامل و تاسف نہیں کہ انصاف الحمد للّٰہ ریاست پاکستان میں اب مسئلہ نہیں رہا۔ میرا ایمان ہے کہ ریاست پاکستان میں انصاف سے متعلقہ مسائل اس قدر غیر متعلقہ ہوجائیں گےکہ سائل اپنی شلوار سکھانے منصف کے دفتر جبکہ فیصلے کا مصنف اپنی شلوار تر کرنے قاضی القضاء کے گھر پر آیا کریں گے۔ اس کی ہلکی سی جھلک ہم ماضی میں دیکھ چکے ہیں۔ انشاءاللہ بہت جلد یہ رواج آپ عام الرائج انداز میں دیکھ سکیں گے۔
اللہ پاک منصف، مصنف اور شلوار تینوں کو اپنے اپنےنصب العین میں دوام بخشے۔ وما علینا، الخ