Mauj e Tan Jazbaat
موجِ تن جذبات
اس کی بیگم خمس لیال ماہانہ تعطیلات پر تھی۔ اس کے نین نقش ہوبہو انکل مجبور والے تھے تاہم انکل مجبور کی مجبور سوچ سے اسے قریب سارے مہینے ہی گزرنا پڑتا تھا۔ یہ پانچ راتیں تو طبی و دینی مجبوری تھیں تاہم بھاگیوان بقایا پنجی راتیں بھی جھنڈی کرا دیا کرتیں۔ اسے لگتا تھا کہ جیسے اس کے نصیب میں کئی گھسے پٹے تو کئی نئے نویلے بہانے لکھ دیے گئے ہوں۔
"گیزر خراب ہے"
"گیس کا بل زیادہ آئے گا"
"منجھلا بیٹا جاگ رہا ہے"
"دو منٹ میں میرا ہیٹر گرم بھی نہیں ہوتا مگر تمہارا پریشر مک جاتا ہے"
"آج نہیں آج تم نے گوبھی کھائی ہے"
"خلال تو کر لیتے"
"پٹ میں درد ہے"
وغیرہ وغیرہ وغیرہ وغیرہ
اور مہینے میں ایک بار چانس لگتا بھی تو وہی ڈھاک کے تین پات۔۔
"اچھا میں سو رہی ہوں فارغ ہو جاؤ تو کپڑا ڈال کر سو جانا مجھے جگانا مت"
اس وقت بھی اس کے اندر کی خواہش اپنے عروج پر تھی۔ ساتھ لاش کی طرح پڑی اور صور کی طرح خراٹے مارتی بیگم کو دیکھا جو ابھی ابھی ماہانہ تعطیلات کے باوجود "صبح فجر پڑھنی ہے سونے دیں پلیز" کا جھوٹ بول کر اسے پھر سے جھنڈی کرا گئی تھی۔ اس کی اٹھک بیٹھک میں قریب سبھی امرود ایسی ہی مڈ لائف کرائسس کا شکار تھے تاہم روایتی مردانہ انا پرستی یہ حقیقت تسلیم کروانے میں مانع تھی۔
اس کے دماغ میں یکایک ایک خیال آیا۔۔
اٹھ باندھ کمر کیوں ڈرتا ہے
پھر دیکھ خدا کیا کرتا ہے
اپنی مدد آپ کے خیال پر اس نے اٹھنے کی کوشش کی تاہم چارپائی کے بان اس قدر دھنس چکے تھے کہ وہ واپس بستر پر گر پڑا۔ بیگم ایک لمحے بڑڑڑڑ کرنے کے بعد ایک بار پھر لاش بنی خرررررررررر خررررررررررر کرنے لگی تھی۔ ہمت کر کے وہ دوبارہ اٹھا مگر چالیس کے عشرے کو پار کرتے کرتے اس کی ہمت اب وہ نہ رہی تھی جو کبھی گاؤں کی کھوتی سنبھالتے ہوا کرتی تھی۔
غسل خانے تک پہنچتے پہنچتے وہ ہانپ کر رہ چکا تھا۔ خواہش بہرحال موجزن تھی لہذا متعلقہ عضو کے ہاتھوں مجبور اندر پہنچ کر اس نے چٹخنی لگانے کی کوشش کی۔ دروازہ مگر بند نہ ہوا۔ اس نے غور کیا تو معلوم ہوا چٹخنی تھامنے والا چوکھٹ پر لگا حصہ غائب تھا۔ ٹین کے اس دروازے کو بند کرنے کا واحد حل اب زمین پہ پڑی اینٹ تھی جو عام طور پر نہانے کے لیے مستعمل رہتی۔ اس کی سمسیا یہ تھی کہ وہ نہاتے ہوئے دروازہ کیسے بند کرے گا؟
"ب چ اکڑوں بیٹھ کر نہا لوں گا"
اس نے خود کو تسلی دیتے ہوئے سوچا اور ست موری بنیان اور رومالی پھٹی شلوار اتار کر کھونٹی پہ لٹکا دی جہاں پندرہ عدد قمیض شلوار اور سات میلی انگیا پہلے ہی لٹک رہی تھیں۔ اسے ایک ایک انگیا کا حجم چاچے اللہ دتے کے چالیسویں میں لگائے گیے تمبو جیسا معلوم ہوا۔ قریب تھا کہ وہ ابکائی روک لیتا کہ اس کی نظر کچھ تلاش کرنے نیچے کو گئی۔ یہاں اس کی آنکھوں کے آگے آنے والے منظر نامے کا پچپن فیصد اس کی توند سے ڈھک چکا تھا۔ اب اسے ابکائی آئی تاہم کھانا کھائے کافی دیر ہوچکی تھی لہذا بچت ہوگئی۔ اپنی توند دیکھ کر اسے اپنی ساتویں اولاد کے وقت اہلیہ کا پیٹ یاد آگیا۔ ان دونوں کے پیٹ کی مشترکہ خاصیت گولائی اور گھنگریالے سیاہ بال تھے۔
وہ اپنی خواہش بھولنے ہی والا تھا کہ اسے یاد آگیا آخر وہ رات کے اس پہر اکیلا برہنہ کر کیا رہا ہے۔
وہ تصور کا مفلوک الحال تھا سو موبائل نکالنا مجبوری تھی۔ اس نے موبائل نکال کر گزشتہ فجر کے وقت موصول ہونے والے دیسی ٹوٹے کھولنا چاہے مگر غلطی سے فیس بک پر انگلی لگا بیٹھا۔ ٹائم لائن پر کسی پٹواری کی جانب سے مریم نواز اور جنید صفدر کی ماں بیٹے پر مبنی خوبصورت تصویر اس کا منہ چڑا رہی تھی۔ اس کا دایاں ہاتھ جس مقام پر تھا وہیں رک گیا۔ اس نے محسوس کیا کہ اس کے دل میں ٹھاٹھیں مارتی خواہش اچانک سے جیسے مر گئی ہو اور اس کی جگہ نفرت نے لے لی ہو۔
"مادر چ*د"
اس کے منہ سے جھاگ کے ساتھ ایک فحش گالی برآمد ہوئی۔
اس نے دوسرے ہاتھ سے بھی موبائل کو تھاما اور فیس بک پر اپنے معزز پنے کا لبادہ اوڑھ کر پوسٹ لگائی۔۔۔
"دولہا کو بیوی کے ساتھ فوٹو سیشن کروانا چاہئے۔ ماں کو بس اللہ اللہ کرنی چاہیے۔ اس عمر میں تازہ دم دکھائی دینے والی عورتیں ویسے بھی بدکردار ہوتی ہیں "
غسل خانے سے باہر نکلتے ہوئے اس کی نظر بیگم پر پڑی جو اب تک لاش کی طرح الٹی پڑی خراٹے مار رہی تھی۔