Market First Ka Advantage
مارکیٹ فرسٹ کا ایڈوانٹیج
بہت سے معاملات پر اصول کی بنیاد پر ہماری آنکھیں تب کھلتی ہیں جب ہماری اپنی دم پر پاؤں پڑتا ہے۔ مثلاََ 2018 میں آلِ یوتھ فوج کی گود میں بیٹھنے کو خداوند تعالیٰ کی عطاء سمجھتے تھے، پھر 2022 آیا، آلِ یوتھ کی دُم پر پاؤں آیا اور انہیں اصول کی جگالی یاد آگئی۔ اسی طرح جس دور میں ثاقب ناسور اور عمر عطاء بنڈیال اہلِ پٹوار کی بینڈ بجا رہے تھے تب ہمارے لیگی احباب کو آئین و قانون کی گردان یاد تھی، آج کل ہمارے لیگی دوستوں کا رویہ ان کے مخالفین کے مطابق کچھ الگ ہے۔
مشرف دور سے پہلے صحافتی تجزیے عموماً اخبارات کے ذریعے ہی پہنچا کرتے تھے۔ گمان ہے جو غلط بھی ہو سکتا ہے کہ اخبارات میں مسلم لیگ نواز کو market first کا advantage حاصل رہا۔ پھر پرائیویٹ ٹی وی چینلز آئے اور ہر صحافی کو تجزیہ کار کا ڈی فیکٹو درجہ دیا جانے لگا۔ یہاں سے ہمارے پاس نابغے آنا شروع ہوئے۔ کئی نابغے ایسے تھے جن کے پاس Market First کا advantage تھا لہذا انہوں نام بھی کمایا نوٹ بھی۔ وقت کے ساتھ ساتھ ان نابغوں کی مارکیٹ saturation کا شکار ہونے لگی۔ صحافت کے نام پر اپنے یا دوسروں کے مفادات کی بھینٹ چڑھنے والے ان دلالوں کے زوال کی ایک وجہ سوشل میڈیا کا بتدریج عروج بھی رہی۔ سوشل میڈیا جدید دور میں نقارہ خدا کی حیثیت پا چکا تھا جہاں صحافیوں کے نام پر ان پیشہ ور شخصیات کے عوام کے ساتھ انٹرایکشن میں موجود خصوصیات ان کی سابقہ تصویر کے برعکس نکلی اور یہ معتوب ٹھہرے، متروک ہوگئے۔ حسن نثار اس سلسلے کی اہم مثال ہے۔
تاہم ہر پلیٹ فارم کی طرح سوشل میڈیا کو بھی اپنے مفاد کے لیے استعمال کرنے کی خواہش نے سوشل میڈیا سیلز کی حکمت عملی کو جنم دیا۔ کسی حد تک اتفاق کہہ لیجیے کہ ایک مخصوص سیاسی جماعت کو درکار نشونما کے وقت سوشل میڈیا اور سوشل میڈیا سیلز وجود میں آچکے تھے۔ اس کے بعد ریاست کے طاقتور ترین محکمے کی سرپرستی میں صرف شدہ بے تحاشہ وسائل کی مہربانی کہ اس سیاسی جماعت کو اپنے دور کے زمینی خداؤں کی آشیرباد بھی میسر رہی۔ یوں ٹویٹر (حالیہ ایکس)، فیس بک اور یوٹیوب کے راستے ایک نئی قسم کی تجزیہ کاری کا آغاز ہوا جس میں market first کا advantage پاکستان تحریک انصاف اپنے نام کیے بیٹھی۔
وقت کے ساتھ ساتھ یہ گیدڑ سنگھی دیگر جماعتوں نے بھی کافی حد تک سیکھنا اور پریکٹس کرنا شروع کر دی تاہم 2024 کی حد تک آج سوشل میڈیا کا براہ راست استعمال سیاسی جماعتوں سے آگے بڑھ کر ادارے اور محکمے بھی شروع کر چکے ہیں۔ 2024 تک البتہ ایک چھوٹا سا فرق ضرور آچکا ہے۔ آج کے دور میں جب سوشل میڈیا جیسے مفت پلیٹ فارم کے ذریے عوام کے ذہنوں تک رسائی حاصل ہوچکی ہے، سیاستدانوں، محکموں، اداروں کے علاوہ ایک قبیل ایسا بھی ہے جو کسی cause کے راستے اپنا پیغام کی ہمارے دماغوں تک رسائی چاہتے ہیں۔ بظاہر یہ cause بہت مثبت نظر آتا ہے۔ مثلاً جمہوریت کی علم برداری، صحافتی اقدار، غیر جانب داری، آمریت کی مخالفت، حق اور سچ کی فتح وغیرہ جیسی خوبصورت اور مثبت اصطلاحات کے کئی سرخیل ایسے نظر آتے ہیں جو سیاسی دنگل میں شامل کسی بھی فریق کے ساتھ مستقل طور پر جڑے نہیں ملتے۔ مطیع اللہ جان اس کی ایک اہم مثال ہیں۔
میری خوش گمانی کہہ لیجئے یا مبینہ اصول پسندی یا کچھ اور، بہرحال و تاحال میں مطیع اللہ جان کو بدنیت نہیں سمجھتا۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ مطیع اللہ جان کا میں بہت بڑا پنکھا ہونے کے باوجود مجھے ایسا لگتا ہے کہ کچھ عرصے سے مطیع تجزیہ کم غصہ زیادہ کر رہے ہیں۔ اللہ بخشے مجھے اپنی پھوپھی یاد آنے لگتی ہیں کبھی کبھار۔ اس کے باوجود جن احباب کو مطیع اللہ جان اپنے جارحانہ سوالات کے باعث برا لگنے لگا ہے وہ خود سے یہ ضرور پوچھیں کہ کیا مطیع اللہ جان کا یہی رویہ 2018 سے 2022 کے درمیان بھی برا لگتا تھا؟ جو چیز مجھے پسند نہیں آرہی وہ مطیع کے لہجے میں کڑواہٹ ہے جس کی ان کے پاس یقیناً اپنی وجوہات موجود ہوں گی۔ ایک اچھا تجزیہ کرنے والے کو بہرحال اپنے لہجے کی کڑواہٹ پر قابو پانے کی حتی الامکان کوشش ضرور کرنی چاہیے۔ یہ بھی ایک ایسا ہی اصول ہے جیسے مطیع کے پاس اپنے اصول ہوں گے۔ یاد رہے کہ لہجے کی اس کڑواہٹ کے بارے میں چھبیسویں آئینی ترمیم سے بہت پہلے سے میں چند قابل ذکر یار دوستوں کے ساتھ اظہار خیال کر چکا ہوں۔
میں مطیع اللہ جان کو اب تک ایک اچھا صحافی سمجھتا ہوں۔ یہ الگ بات ہے کہ اتفاقیہ یا غیر اتفاقیہ طور پر رائے کے معاملے میں مطیع آج اسد طور والی سائیڈ پر کھڑے ہیں۔ لیکن فیصلہ اسی بنیاد پر کرنا ہے تو پھر بلاول اور مریم نواز بھی تو آج جرلن حافظ منیر کی سائیڈ پر کھڑے ہیں۔