Darguzar Kijye
درگزر کیجئے
ایک عدد ذاتی تجربہ جو کئی بار پہلے بھی لکھ چکا ہوں، آج ایک بار پھر اس کی ضرورت پیش آرہی ہے۔ پاکستان سے باہر نکلنے سے ذرا پہلے باچیز ذرا ذرا اوقات بھولنے لگا تھا۔ چونکہ چادر بس ذرا سی بڑی ہوئی تھی لہذا سمجھ لیں بس پاؤں کی انگلیاں باہر نکالنے جتنے پیر پھیلاتے تھے۔ پہلے پہل راولپنڈی گھر تا پشاور اماں ابا کے پاس پیر ودھائی سے جانا ہوتا تو بعد ازاں ڈائیوو اڈے سے ذرا پہلے نیو خان سے جانے لگے۔ پھر نیو خان میں جتنے بندے اتنی سیٹوں کی بجائے آخری دو سیٹ والی قطاروں کے پیسے دے دیا کرتے کہ بچے ذرا سکون سے چلے جائیں گے ہنستے ہنساتے بغیر کسی کو لاتیں ہاتھ مارے۔ پھر تھوڑی سی اور پسلی بڑھی تو نیو خان کی جگہ کرولا ٹو ڈی کروا کر پشاور جانے لگے۔
یہ ٹو ڈی سے پہلے والے عہد کی بات ہے۔ ایک دن میں ابا مرحوم و دیگر عائلی ممبران کے ساتھ نیو خان میں راولپنڈی تا پشاور پہنچا۔ مجھے وجہ یاد نہیں البتہ ہم جلدی میں تھے۔ فورا ٹیکسی پکڑی اور پیسوں کی بات کیے بغیر بیٹھ گئے۔ اڈے سے باہر نکلتے ہوئے ہر گاڑی والے کو کسی قسم کا ٹیکس دینا پڑتا ہے۔ اس کام کے لیے "بڑوں" نے کوئی چھوٹا موٹا "لوکل کن ٹٹا" پالا ہوا ہوتا ہے جس کی وضع قطع دیکھ کر ٹیکسی رکشے والے دس بیس روپے دینے میں عافیت جانتے ہیں۔
اس دن ٹیکسی والے اور اس کن ٹٹے کے درمیان کوئی تو تو میں میں ہوگئی۔ ہمیں دیر ہو رہی تھی۔ ابا جی ٹیکسی والے پر چڑھ دوڑے۔ ٹیکسی والے نے دہائی دی کہ یہ کن ٹٹا زیادتی کر رہا ہے۔ میں اور ابا مرحوم اتر کر درمیانی راستہ نکالنے کی کوشش کرنے لگے کیونکہ ہمیں جلدی تھی۔ راستہ تو کیا نکلنا تھا کن ٹٹے نے ذرا اکڑ دکھائی۔ میں تب ڈیل ڈول میں بھی خوب تھا اور لہو بھی ذرا جلد گرم ہوتا تھا، نے کن ٹٹے غنڈے کو پکڑ کر دو چار گھونسے رسید کر دیے۔
کن ٹٹا پہلے تو حیران ہوا کہ یہ فارمی بابو نے سب کے سامنے ہی لے لی۔ پھر اچانک سے اس نے پینترا بدلا اور اپنا گریبان پھاڑنا شروع کر دیا۔ میں حیران کہ اسے کیا ہوا۔ ابھی غنڈہ گردی کر رہا تھا اب بین ڈال رہا ہے۔ اتنے میں کن ٹٹے نے اگلی موو کھیلی۔ اگلے نے نیچے لیٹ کر سڑک سے باقاعدہ سر پھوڑنا شروع کر دیا۔ بس اڈا تھا، یعنی مصروف مقام۔ عوام اکٹھی ہو چکی تھی، مزید نے ابھی اکٹھا ہونا تھا۔ ابا مرحوم نے یہ دیکھا تو مجھے ہاتھ سے پکڑ کر گاڑی میں بٹھایا اور کہا چل اب۔ ہم گاڑی میں بیٹھے اور نکل پڑے۔
میں تپا ہوا تھا۔ ابا سے پوچھا یہ کیا بات ہوئی؟ ابھی تو میں نے اس کی کٹ لگائی ہی نہ تھی۔ ابا جو یقیناً کسی وجہ سے ابا ہوتے ہیں، نے دو چار اصطلاحات کن ٹٹے کے اجداد کی شان میں بیان کرتے ہوئے سمجھایا کہ بیٹا ابھی یہاں پولیس آجاتی اور بلاوجہ معاملہ بگڑ جاتا۔ وہ خود کو زخمی کرکے تجھ پر حملے کا مدعا ڈال دیتا ہم پھر ادھر ادھر رل جاتے۔ وہ لوگ جو ابھی یہ سب دیکھنے موجود تھے کچھ دیر میں ان سے بڑھ کر زندہ لاشیں پہنچ جاتیں جنہوں نے وقوعہ اپنی آنکھوں سے تو نہ دیکھا تھا البتہ تجھے ٹھیک ٹھاک اسے خونم خون دیکھ کر تجھے گالیاں الگ دیتے، تجھ پر غریب کا استحصال الگ لگاتے اور تیرے خلاف گواہی بھی دے دیتے۔
یہ غالباً 2010 یا 2011 کا واقعہ تھا۔ اس دور میں کسی بے حرمتی پر سرعام قاضی بن کر سزا دینے کا رواج نہیں تھا۔ شاید یہی وجہ تھی کہ بچت ہوگئی۔ فرض کیجئے اس وقت کسی زرخیز ذہن میں توہین کا خیال آجاتا تو کیا مشکل تھا اڈے پر ایک واقعہ پیش آجانا؟
حضرات۔۔ مسئلہ صرف یہ نہیں کہ ایک واقعہ تھا بس ہوگیا۔ ابھی مدین کے سانحے کو لے کر ایک خان صاحب کی پوسٹ دیکھی جس میں سلگتے ہوئے جسم کے گرد خدا اور رسول کو یاد کرنے والے اکٹھے تھے۔ نعش کے برابر کھڑے اسی پر ہاتھ سیکتے ہوئے بھرپور نعرے بازی کے ذریعے روح گرما رہے تھے۔ ایسے زومبی تو چلو اپنا وجود رکھتے ہی ہیں، انہی خان صاحب کی پوسٹ تلے جو کمنٹس ہیں، آپ انہیں دیکھئے اور پھر فیصلہ کیجئے کہ یہ زومبی کہاں تک پھیل چکے ہیں۔ یہ آپ کے آس پاس ہیں، یہ ہر جگہ ہیں۔
خدارا۔۔ لڑائی جھگڑا ہو تو معافی تلافی کرکے اس لمحے کو گزار دیا کیجیے۔ ایسے حالات پیدا کرنے کے لیے ایک آدمی کا ایک نعرہ چاہئے ہوتا ہے۔ اس کے بعد سوشل میڈیا پر بس چار دن کی بحث چلتی ہے، کچھ دن گولہ باری ہوتی ہے، افسوس کا اظہار ہوتا ہے، ملک سے زندہ بھاگنے کا عزم پھر سے پیدا ہوتا ہے اور پھر۔۔ زندگی واپس اپنی ڈگر پر آجاتی ہے۔
بخدا نہیں چاہتا کہ پاکستان رہنے کے قابل ہے یا نہیں اس موضوع پر بات ہو کیونکہ اس پر مزید بات بنتی ہی نہیں، لیکن ایسے واقعات تو اب بہت ہی زیادہ تواتر کے ساتھ سامنے آنے لگے ہیں۔
ملک بہت بڑا ہے۔ ایسے مشہور مقامات پر جانے کی بجائے نئے کم مشہور جگہوں پر جائیں اور جہاں بھی جائیں سوچ سمجھ کر کسی سے بحث میں پڑیں۔
باقی آپ کی مرضی۔