Chand Dilchasp Farq
چند دلچسپ فرق

پڑوسیوں اور ہمارے درمیان چند دلچسپ فرق ہیں جو پہلے اگر مبہم تھے تو اب واضح دکھائی دینے لگے ہیں۔ فی الوقت دو پر بات کی جاری ہے۔ ہر فرق کے کچھ مثبت پہلو ہیں تو کچھ منفی جو قارئین پر چھوڑے جاتے ہیں۔
سب سے پہلا فرق ہے میڈیا کا۔۔
دی ہندو نے بھارتی طیاروں کے گرائے جانے کی خبر لگائی جو ادارے کو کچھ ہی دیر میں ہٹانی پڑی۔ خبر ہٹانے کا جواز اخبار نے یہ دیا کہ اس خبر کی سرکاری ذرائع سے تصدیق نہیں ہو سکی لہذا ہٹا دی گئی ہے۔ سی این این نے رافائل گرنے کے حوالے سے خبر دی جسے فرانسیسی اہلکار سے منسوب کیا گیا۔ یہی خبر پاکستانی طیارے سے متعلق ہوتی تو پڑوسی میڈیا اسے شییر کر کرکے انگلیاں گھس دیتا سنا سنا کر کان پکا دیتا۔
اس کے برعکس آپ ہمارا میڈیا دیکھ لیجیے۔ ادھر واقعہ ہوا، ادھر خبر چینل پر۔ ایسا نہیں کہ ہمارے یہاں ریاست (فوج پڑھیے) کا میڈیا پر دباؤ نہیں، لیکن حالیہ واقعات کے تناظر میں کم از کم یہ مشاہدہ تو واضح ہے کہ یہ کنٹرول فقط سیاسی خنس گیری تک ہی محدود رہتا ہے۔ یاد رہے، یہ سب پیکا ترامیم کے بعد ہو رہا ہے، یہ الگ بات ہے کہ ایک مخصوص سیاسی جماعت البتہ اس میں بھی ہڈی ڈھونڈ سکتی ہے۔
صحافت خبر دینے کا نام ہے۔ دو فریقین کے درمیان معاملات کی خبر دینے کے لیے غیر جانبدارانہ صحافت اگر وجود رکھتی ہے تو اس کی کم سے کم صورت دونوں فریقین کا مؤقف سامنے رکھنے پر مبنی ہے۔ اس کے علاوہ میڈیا کے صفحہ تاریخ پر ہیجان فروشی کی جو داستان پڑوسی میڈیا رقم کر رہا ہے اس کا مقام طے کرنے کی کوشش کی جائے تو غالباً وہی نکلے گا جو بیماریوں میں بواسیر کو حاصل ہے۔
اس کی جو وجہ مجھے سمجھ آتی ہے وہ کسی (سیاسی یا غیر سیاسی) قوت کا قدرے طویل عرصے سیاست پر حاوی رہنا ہے۔ ایک ہی فرد، ادارے یا سیاسی اکائی کا طویل عرصہ اقتدار میں رہنا یا اسے قابو میں رکھنا لامحالہ آمریت و فسطائیت کو جنم دیتا ہے جس کا ایک نتیجہ میڈیا پر اثرانداز ہونے کی صورت میں نکلتا ہے۔ کسی حد تک پاکستان اور بھارت میں موجودہ مقتدر جماعت یا ادارہ دونوں ہی قدرے لمبے عرصے سے سیاست کے کرتا دھرتا ہیں مگر چند فرق ضرور موجود ہیں۔
میڈیا کو اپنی مرضی سے چلانے کی بنیادی وجہ اگرچہ اقتدار کو طوالت دینا ہی رہتا ہے، پاکستان کے ضمن میں مقتدر حلقے کو اس وقت اس کی کوئی خاص ضرورت یوں نہیں کہ اقتدار پہلے ہی ان کا ہے، آگے کوئی فوری انتخابات آنے نہیں والے اور پھر جس سے ان کو خطرہ تھا وہ پہلے ہی قید میں ہے۔
دوسری جانب ایک سیاسی جماعت ہے جو دس سال سے اقتدار میں ہے اور جسے عنقریب ایک عدد الیکشن درپیش ہے۔ 2019 میں بھی کم و پیش ایسی ہی صورتحال تھی تاہم تب اقتدار کو پانچ برس گزرے تھے، میڈیا اس طرح سے قابو میں نہیں تھا لہذا الیکشن سے پہلے اسی نوعیت کے حالات میں کچھ نہ کچھ سوال ضرور اٹھے تھے۔
اب، سوال نہیں اٹھتے اور اس کے نقصانات سمجھتے آپ کو اتنا ہی عرصہ لگ جانا ہے جتنا ہمیں ضیاء الیک کی ذلالتوں کے نقصان سمجھنے میں لگا۔
دوسرا فرق عوامی یادداشت کا ہے۔۔
عوامی یادداشت جو بظاہر دانستہ یا غیر دانستہ طور پر یا تو فسطائیت کے اثر میں پھنسی پڑی ہے یا پھر social validation اور peer pressure کے باعث عمدا أو خطأ کمزور ہوئی پڑی ہے۔
فسطائیت یا فاشزم کو سمجھے بغیر یار دوست اسے آمریت اور authoritarianism سے کنفیوز کر دیا کرتے ہیں حالانکہ اول الذکر کی اہم خصوصیات میں فوج کشی، مخالفین کی زباں بندی، دشنام طرازی کے ساتھ ساتھ دو نہایت اہم خصوصیات موجود رہتی ہیں جو ہیں۔۔
1۔ الٹرا نیشنلزم
2۔ مرکزی کلٹ لیڈر/نجات دہندہ / مسیحا
اس وقت پڑوسیوں کی الٹرا نیشنلزم کا آئینہ ان کی عوام ہے جو "دشمن کے خلاف" یک زباں ہونے میں اس حد تک آگے جا چکی ہے کہ وہ اہم سوال پوچھنے سے بھی گریزاں ہے جو ایٹمی جنگ کے خطرے کے پیش نظر کم از کم ریاست سے پوچھے ضرور جانے چاہیے تھے۔ یہ وہ سوال ہیں جو سرحد کی ہماری والی جانب پوچھے جاتے رہیں ہیں، پوچھے جا رہے ہیں۔
کیسا عجیب سا اتفاق ہے کہ 2019 بھارت انتخابات ہوں تب پلوامہ ہوجاتا ہے، بہار انتخابات سر پر ہوں تو پہلگام۔ اس میں مزید تعجب اس وقت ہوتا ہے جب ان دونوں حملوں کا سیاسی فائدہ ایک ایسے شخص کو ملتا نظر آتا ہے جس کا مذہبی کٹر پن ہم انہی احباب کی زبان سے سنتے آئے ہوں جو آج اسی الٹرا نیشنلزم کا شکار بنے اسی شخص کو نجات دہندہ بنا کر پیش کر رہے ہوں۔
پڑوسیوں کو ہماری نیشنلزم یا الٹرا نیشنلزم سے خار ڈھونڈنی ہو تو بس اتنا یاد رکھیے کہ حملے کے بعد میری دوسری تیسری پوسٹ حضرت عمران خان کے تاریخ سوز بیان "تو کیا میں بھارت پر حملہ کر دوں؟" پر مبنی تھی۔
بارڈر کے ہماری طرف ہم بلاتفریق سبھی پر ٹھٹھوں کے تیر برسا رہے ہیں۔ میرا واٹس ایپ بلاتفریق جگتوں سے بھرا پڑا ہے۔ ہمارے یہاں آخری کلٹ لیڈر عمران خان نیازی آیا تھا جو اس وقت اڈیالہ جیل میں بند ہے، جس کی ہم پانچ دن نہ لیں تو عجیب عجیب مقامات پر کھجلی شروع ہوجاتی ہے۔ ایسے میں۔۔ کہڑی الٹرا پرو میکس نیشنلزم کہڑی فاشزم؟ ہاں آپ چاہیں تو ہمیں اتھاریٹیرین کہہ سکتے ہیں پیار سے۔
ہمارے پڑوسی احباب میں سے اکثر غالباً بھول رہے ہیں کہ سیکولر ریاست میں "ہندتوا" کی تکرار اور اس کے عملی مظاہر اصولی طور پر وقت کے ساتھ ساتھ زیادہ نہیں، کم ہونے چاہیے ہیں۔ ہمارے پڑوسی احباب یہ بھی بھول رہے ہیں کہ اس تمام "جے بجرنگ بلی توڑ دشمن کی نلی" کا سیاسی فائدہ جس فرد کو ہوگا وہ ماضی میں گجرات فسادات کا ایک اہم کردار رہا ہے۔ ہم البتہ دوسری جانب آج ابھی اس لمحے بھی پانچ میں سے دو جگتیں انہی پر لگاتے ہیں جن پر ہمیں ماضی میں غصہ تھا، حال میں غصہ ہے اور مستقبل میں غصہ رہے گا۔ آپ لوگ شاید اپنا غصہ بھول چکے۔
بہرحال سوشل ویلیڈیشن اور پئیر پریشر بھی اپنی جگہ حقائق ہیں۔
باقی ہمارا معاشرہ ہمارا ملک اور ہماری ریاست یقیناً غلطیوں کا پتیلا ہے، لیکن اس کے بارے میں ہمیں خاص طور پر بات کرنی نہیں پڑتی کیونکہ اس کا احاطہ ہماری عمومی خرافات میں ہوجاتا ہے۔
وما علینا الا البلاغ