Monday, 23 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Maaz Bin Mahmood
  4. Bande Ke Puttar Baniye

Bande Ke Puttar Baniye

بندے کے پتر بنیے

جیسے حماقت کسی جنس کی میراث نہیں ہوتی ویسے ہی ظلم بھی کسی قومیت کی خاصیت نہیں ہوتا۔ ہاں مظلوم کو قومیت کی بنیاد پر ضرور زچ کیا جاسکتا ہے اور کیا جاتا بھی رہا ہے۔

ہمیں اپنی ناکامیوں کے لیے ایک عدد سر چاہئے ہوتا ہے جسے الزام دے سکیں۔ الزام دینے کے لیے ہمیں شناخت چاہئے ہوتی ہے۔ شناخت بہت آسان ہے اور شناخت ہے "ریاست"۔ لیکن جس وقت ہم نے الٹرا پرو میکس قسم کی ہمدردی پکڑنی ہو تو ہم شناخت کے ساتھ ایک آدھ وصف بھی لگا دیتے ہیں۔ اس بحث میں یہ وصف "پنجابی" ہونا ہے۔

آپ پشتون ہیں، بلوچ ہیں، سندھی ہیں، مہاجر ہیں یا کشمیری ہیں۔ آپ کو لگتا ہے آپ کے ساتھ ظلم اس لیے ہو رہا ہے کیونکہ آپ پشتون ہیں یا بلوچ ہیں یا سندھی ہیں یا مہاجر ہیں یا کشمیری؟ اس تاثر کو تقویت دینے کے لیے آپ کو "ریاست" کے ساتھ "پنجابی" لگانا پڑ جاتا ہے۔ یہ شروعات ہے نفرت کی کیونکہ یہ راہ آگے چل کر ریاست کی بجائے پنجابی سے نفرت پر پہنچ جاتی ہے۔ پنجابی بیچارہ خود چھتر کھا رہا ہے۔ فاصلے بڑھتے ہیں اور پھر ایک کھانے کی ٹیبل پر بات کچھ یوں ہوتی ہے کہ "تم نے ہمارا حق کھایا"۔ حالانکہ ٹیبل دوسری جانب جو بیچارہ پنجابی بیٹھا تھا اس نے تب تک اپنے پیسوں کا کھانا بھی نہیں کھایا ہوتا۔

آپ کو ابناء العساکر کی یکیوں سے مسئلہ ہے، جائز ہے۔ آپ فرماتے ہیں بلوچستان کی اسمبلیوں میں خاکیوں نے اپنے بندے بٹھائے ہوئے ہیں، میں اتفاق کرتا ہوں۔ لیکن آپ یہ فرض کر رہے ہیں کہ پنجاب اسمبلی میں کوئی فوج مخالف حریت پسند بیٹھے ہیں۔ وہ چوتیے بھی پٹھو ہی تھے، ہیں اور رہیں گے۔ پھر آپ میں اور پنجابی میں کیا فرق ہوا؟ کچھ نہیں۔ کیا آپ کو نہیں معلوم وفاق ہو یا صوبائی حکومت، کس کے آشیرباد سے کرسی پر بیٹھا جا سکتا ہے؟

آپ میں اور پنجاب واسی میں کیا فرق ہے؟ بس اتنا کہ وہ بیچارہ شکایت کرنے کی بجائے ریاست کے عطاء کررہا روٹی کپڑے اور مکان کے مسائل میں الجھا رہتا ہے۔ تاحال اس نے بندوق اٹھانے کا فیصلہ نہیں کیا۔ تاحال اس کے پاس بندوق اٹھانے والوں کی حمایت کرنے کا وقت ہی نہیں۔ آپ کے پاس شاید وہ بھی نہیں بچا۔ جنوبی پنجاب والے کی حالت اس سے بھی گئی گزری ہے۔ اس میں پنجابی بیچارے کی غلطی نہیں ہے۔ وہ اپنی ستھن بچانے کے چکروں میں لگا پڑا ہے۔

آپ اپنے علاقے میں ناکوں سے گزرتے ہیں۔ پنجابی غریب کے پورے پورے علاقے قبضہ ہوجاتے ہیں۔ اوکاڑہ بلوچستان میں نہیں ہے۔ جہلم کینٹ کے اس پار اور اس پار دو قومی نظریہ دیکھا جا سکتا ہے۔ ڈی ایچ اے کوئٹہ میں شاید نہ ہو، باقی کئی شہروں میں موجود ہے۔ مونال کا نام سنا ہے؟ ناکے پنڈی میں بھی ہیں پشاور میں بھی لاہور میں بھی۔ لاہور پنڈی ذرا بڑے ہیں، ویسے بند کریں گے جیسے آپ کی طرف کرتے ہیں تو خود بھی تنگ ہوں گے۔ بس اسی لیے چھتر مارنے والے کم ہیں، مار ذرا تاخیر سے دیتے ہیں۔

دنیا ماورائے عدالت جان لینے سے بھاگ رہی ہے۔ ماورائے عدالت کسی کی جان لینے کی حمایت پھر بھلا کوئی کیوں کرے؟ ہم کیوں کریں اور آپ کیوں کریں؟ پنجابی اگر اتنا ہی آسودہ حال ہوتا تو بلوچستان جاتا مزدوری کرنے؟ اور جب وہ بلوچستان پہنچ جاتا ہے تو اس کے لیے ناکوں پر ریڈ کارپٹ ہوتے ہیں کیا؟ نہیں ہوتے۔

پنجابی شاونزم، پنجابی اسٹیبلشمنٹ، پنجابی ریاست۔۔ یہ سب خرافات ہیں۔ یہ سب آپ کے مغز سے کھیلنے کے طریقے ہیں۔ مکرر عرض ہے، یہ سب خرافات ہیں۔ طاقت جس کے پاس ہے اس کی شناخت طاقت ہے، اس کی قومیت طاقت ہے، اس کا مذہب طاقت ہے، اس کی زبان طاقت ہے اور اس کا مسلک طاقت ہے۔ ان سے لڑیں۔ ان کی نفرت میں شناختی کارڈ دیکھ کر لوگوں کو اوپر بھیجنے والوں کی کی بغیر کسی اگر مگر مذمت کرنے سے گریز مت کریں۔ یہ بیچارے فیس بکیے پنجابی آپ سے اور کچھ نہیں مانگتے۔ اتنا بھی چلے گا۔ انہیں وہی درجہ دے دیں جو آپ اپنے لیے مانگ رہے ہیں۔

باقی جن پر آپ سلسلہ لعنتیہ جاری رکھتے ہیں، رکھتے رہیے۔ ہم آپ کے ساتھ ہیں۔ آپ کی طرف ان کے پاس چھتر لگانے والے زیادہ ہیں، ہماری طرف چھتر کا دورانیہ ذرا زیادہ ہے۔

نفرت کو ختم کیجیے۔ بندے کے پتر بنیے۔

نوٹ: بس ہوگئی۔ میں چلا اب کام کرنے۔

Check Also

Kahani Aik Deaf Larki Ki

By Khateeb Ahmad